Surah An Nur Ayat 62 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ النور کی آیت نمبر 62 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah An Nur ayat 62 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
[ النور: 62]

Ayat With Urdu Translation

مومن تو وہ ہیں جو خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب کبھی ایسے کام کے لئے جو جمع ہو کر کرنے کا ہو پیغمبر خدا کے پاس جمع ہوں تو ان سے اجازت لئے بغیر چلے نہیں جاتے۔ اے پیغمبر جو لوگ تم سے اجازت حاصل کرتے ہیں وہی خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے اجازت مانگا کریں تو ان میں سے جسے چاہا کرو اجازت دے دیا کرو اور ان کے لئے خدا سے بخششیں مانگا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے

Surah An Nur Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یعنی جمعہ و عیدین کے اجتماعات میں یا داخلی وبیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


رخصت پر بھی اجازت مانگو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ادب اور بھی سکھاتا ہے کہ جیسے آتے ہوئے اجازت مانگ کر آتے ہو ایسے جانے کے وقت بھی میرے نبی سے اجازت مانگ کر جاؤ۔ خصوصا ایسے وقت جب کہ مجمع ہو اور کسی ضروری امر پر مجلس ہوئی ہو مثلا نماز جمعہ ہے یا نماز عید ہے یا جماعت ہے یا کوئی مجلس شوری ہم تو ایسے موقعوں پر جب تک حضور ﷺ سے اجازت نہ لے لو ہرگز ادھر ادھر نہ جاؤ مومن کامل کی ایک نشانی یہ بھی ہے۔ پھر اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ جب یہ اپنے کسی ضروری کام کے لئے آپ سے اجازت چاہیں تو آپ ان میں سے جسم چاہیں اجازت دے دیا کریں اور ان کے لئے طلب بخشش کی دعائیں بھی کرتے رہیں۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں جائے تو اہل مجلس کو سلام کرلیا کرے اور جب وہاں سے آنا چاہے تو بھی سلام کر لیاکرے آخری دفعہ کا سلام پہلی مرتبہ کے سلام سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام صاحب نے اسے حسن فرمایا ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آخری رکوع جو صرف تین آیات پر مشتمل ہے ‘ اس میں خالص جماعتی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ وَاِذَا کَانُوْا مَعَہٗ عَلٰٓی اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَاْذِنُوْہُ ط ” نبی مکرم ﷺ کے بعد یہی حکم آپ ﷺ کے جانشینوں اور اسلامی نظم جماعت کے امراء کے لیے ہے۔ اس حکم کے تحت کسی جماعت کے تمام ارکان کو ایک نظم discipline کا پابند کردیا گیا ہے۔ اگر ایسا نظم و ضبط اس جماعت کے اندر نہیں ہوگا تو کسی کام یا مہم پر جاتے ہوئے کوئی شخص ادھر کھسک جائے گا ‘ کوئی اْدھر چلا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں کوئی بھی اجتماعی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ چناچہ اس حکم کے تحت لازمی قرار دے دیا گیا کہ کسی مجبوری یا عذر وغیرہ کی صورت میں اگر کوئی رخصت چاہتا ہو تو موقع پر موجود امیر سے باقاعدہ اجازت لے کر جائے۔فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْکَ لِبَعْضِ شَاْنِہِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِءْتَ مِنْہُمْ ”رخصت دینے کا اختیار تو آپ ﷺ ہی کے پاس ہے۔ یعنی اسلامی نظم جماعت کے لیے یہ اصول دے دیا گیا کہ اجتماعی معاملات میں رخصت دینے کا اختیار امیر کے پاس ہے۔ چناچہ امیر یا کمانڈر اپنے مشن کی ضرورت اور درپیش صورت حال کو دیکھتے ہوئے اگر مناسب سمجھے تو رخصت مانگنے والے کو اجازت دے دے اور اگر مناسب نہ سمجھے تو اجازت نہ دے۔ چناچہ کوئی بھی ماتحت یا مامور شخص اجازت مانگنے کے بعد رخصت کو اپنا لازمی استحقاق نہ سمجھے۔وَاسْتَغْفِرْ لَہُمُ اللّٰہَ ط ”اس لیے کہ وہ اجتماعی کام جس کے لیے حضور ﷺ اہل ایمان کی جماعت کو ساتھ لے کر نکلے ہیں ‘ آپ ﷺ کا ذاتی کام نہیں بلکہ دین کا کام ہے۔ اب اگر اس دین کے کام سے کوئی شخص رخصت طلب کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے ذاتی کام کو دین کے کام پر ترجیح دی ہے اور ذاتی کام کے مقابلے میں دین کے کام کو کم اہم سمجھا ہے۔ بظاہر یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ اور نازک صورت حال ہے ‘ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں۔اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ”یہاں یہ نکتہ نوٹ کیجیے کہ یہی مضمون سورة التوبة میں بھی آیا ہے ‘ لیکن وہاں اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اس فرق کو یوں سمجھئے کہ سورة النور 6 ہجری میں نازل ہوئی تھی ‘ جبکہ سورة التوبة 9 ہجری میں۔ اسلامی تحریک لمحہ بہ لمحہ اپنے ہدف کی طرف آگے بڑھ رہی تھی۔ حالات بتدریج تبدیل ہو رہے تھے اور حالات کے بدلنے سے تقاضے بھی بدلتے رہتے تھے۔ چناچہ یہاں 6 ہجری فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ آپ ﷺ سے باقاعدہ اجازت طلب کرتے ہیں وہ واقعی ایمان والے ہیں ‘ جبکہ تین سال بعد سورة التوبة میں غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا گیا کہ جو ایمان رکھتے ہیں وہ اجازت لیتے ہی نہیں۔ دراصل وہ ایمرجنسی کا موقع تھا اور اس موقع پر غزوۂ تبوک کے لیے نکلنا ہر مسلمان کے لیے لازم کردیا گیا تھا۔ ایسے موقع پر کسی شخص کا رخصت طلب کرنا ہی اس بات کی علامت تھی کہ وہ شخص منافق ہے۔ چناچہ وہاں سورۃ التوبہ میں رخصت دینے سے منع فرمایا گیا : عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ آیت 43 ”اللہ آپ ﷺ کو معاف فرمائے یا اللہ نے آپ ﷺ کو معاف فرما دیا آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کو کیوں اجازت دے دی ؟ “ اگر آپ ﷺ اجازت نہ بھی دیتے تو یہ لوگ پھر بھی نہ جاتے لیکن اس سے ان کے نفاق کا پردہ تو چاک ہوجاتا ! اس کے برعکس یہاں حضور ﷺ کو اختیار دیا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ جسے چاہیں رخصت دے دیں۔اس مضمون کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو ایسے مواقع پر کسی اسلامی جماعت کے افراد کے درمیان ہمیں تین سطحوں پر درجہ بندی ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلا درجہ ان ارکان کا ہے جو اپنے آپ کو دین کے کام کے لیے ہمہ تن وقف کرچکے ہیں۔ ان کے لیے دنیا کا کوئی کام اس کام سے زیادہ اہم اور ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے رخصت لینے کا کوئی موقع ومحل ہے ہی نہیں۔ اس سے نچلا درجہ ان ارکان کا ہے جو ایسے مواقع پر کسی ذاتی مجبوری اور ضرورت کے تحت باقاعدہ اجازت لے کر رخصت لیتے ہیں ‘ جبکہ اس سے نچلے درجے پر وہ لوگ ہیں جو اجازت کے بغیر ہی کھسک جاتے ہیں۔ گویا ان کا دین کے اس کام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس درجہ بندی میں اوپر والے زینے کے اعتبار سے اگرچہ درمیان والا زینہ کم تر درجے میں ہے لیکن نچلے زینے کے مقابلے میں بہر حال وہ بھی بہتر ہے۔یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ اسلامی جماعتوں کے اجتماعات کے موقع پر بعض رفقاء نہ تو اجتماع میں شامل ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظم سے رخصت لیتے ہیں۔ نہ وہ پہلے بتاتے ہیں نہ ہی بعد میں معذرت کرتے ہیں۔ گویا انہیں کوئی احساس ہی نہیں ‘ نہ نظم کی پابندی کا اور نہ اپنی ذمہ داری کا۔ ان سے وہ رفقاء یقیناً بہتر ہیں جو اپنا عذر پیش کر کے اپنے امیر سے باقاعدہ رخصت لیتے ہیں۔ لیکن ان سب درجات میں سب سے اونچا درجہ بہرحال یہی ہے کہ دین کے کام کے مقابلے میں دنیا کے کسی کام کو ترجیح نہ دی جائے۔ اس درجے پر فائز لوگوں کے ذاتی کام اللہ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کو پس پشت ڈال کر اللہ کے کام کے لیے نکلتے ہیں تو ان کے کاموں کو اللہ خود سنوارتا ہے۔

إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله وإذا كانوا معه على أمر جامع لم يذهبوا حتى يستأذنوه إن الذين يستأذنونك أولئك الذين يؤمنون بالله ورسوله فإذا استأذنوك لبعض شأنهم فأذن لمن شئت منهم واستغفر لهم الله إن الله غفور رحيم

سورة: النور - آية: ( 62 )  - جزء: ( 18 )  -  صفحة: ( 359 )

Surah An Nur Ayat 62 meaning in urdu

مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسولؐ کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو، اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (یہ وہ دن ہے کہ) اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔ اب ہم نے
  2. تو تم اور تمہارا بھائی دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں
  3. تو قوم فرعون میں جو سردار تھے وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا علامہ جادوگر
  4. (بندو) اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان
  5. فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے
  6. پھر ہم نے ان کو جب کہ وہ بیمار تھے فراخ میدان میں ڈال دیا
  7. جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے
  8. کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے
  9. اور اگر ہم چاہتے تو وہ لوگ تم کو دکھا بھی دیتے اور تم ان
  10. اور میں مومنوں کو نکال دینے والا نہیں ہوں

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :

surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
surah An Nur Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah An Nur Bandar Balila
Bandar Balila
surah An Nur Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah An Nur Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah An Nur Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah An Nur Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah An Nur Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah An Nur Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah An Nur Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah An Nur Fares Abbad
Fares Abbad
surah An Nur Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah An Nur Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah An Nur Al Hosary
Al Hosary
surah An Nur Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah An Nur Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Saturday, November 23, 2024

Please remember us in your sincere prayers