Surah Anfal Ayat 62 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ﴾
[ الأنفال: 62]
اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔ وہی تو ہے جس نے تم کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی
Surah Anfal UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جس قوم سے بد عہدی کا خوف ہو انہیں آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر دو فرمان ہے کہ جب کسی قوم کی خیانت کا خوف ہو تو برابری سے آگاہ کر کے عہد نامہ چاک کر ڈالو، لڑائی کی اطلاع کردو۔ اس کے بعد اگر وہ لڑائی پر آمادگی ظاہر کریں تو اللہ پر بھروسہ کر کے جہاد شروع کردو اور اگر وہ پھر صلح پر آمادہ ہوجائیں تو تم پھر صلح و صفائی کرلو۔ اسی آیت کی تعمیل میں حدیبیہ والے دن رسول کریم ﷺ نے مشرکین مکہ سے نو سال کی مدت کے لیے صلح کرلی جو شرائط کے ساتھ طے ہوئی۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عنقریب اختلاف ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ ہو سکے تو صلح ہی کرلینا ( مسند امام احمد ) مجاہد کہتے ہیں یہ بنو قریظہ کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ محل نظر میں ہے سارا قصہ بدر کا ہے۔ بہت سے بزرگوں کا خیال ہے کہ سورة براۃ کی آیت سے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29 ) 9۔ التوبة:29) سے منسوخ ہے کہ لیکن اس میں بھی نظر ہے کیونکہ اس آیت میں جہاد کا حکم طاقت و استطاعت پر ہے لیکن دشموں کی زیادتی کے وقت ان سے صلح کرلینا بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے کہ اس آیت میں ہے اور جیسے کہ حدیبیہ کی صلح اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے کی۔ پس اس کے بارے میں کوئی نص اس کے خلاف یا خصوصیت یا منسوخیت کی نہیں آئی واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اللہ پر بھروسہ رکھ وہی تجھے کافی ہے وہی تیرا مددگار ہے۔ اگر یہ دھوکہ بازی کر کے کوئی فریب دینا چاہتے ہیں اور اس درمیان میں اپنی شان و شوکت اور آلات جنگ بڑھانا چاہتے ہیں تو تو بےفکر رہ اللہ تیرا طرف دار ہے اور تجھے کافی ہے اس کے مقابلے کا کوئی نہیں پھر اپنی ایک اعلیٰ نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ مہاجرین و انصار سے صرف اپنے فضل سے تیری تائید کی۔ انہیں تجھ پر ایمان لانے تیری اطاعت کرنے کی توفیق دی۔ تیری مدد اور تیری نصرت پر انہیں آمادہ کیا۔ اگرچہ آپ روئے زمین کے تمام خزانے خرچ کر ڈالتا لیکن ان میں وہ الفت وہ محبت پیدا نہ کرسکتا جو اللہ نے خود کردی۔ ان کی صدیوں پرانی عداوتیں دور کردیں اور اوس و خزرج انصار کے دونوں قبیلوں میں جاہلیت میں آپس میں خوب تلوار چلا کرتی تھی۔ نور ایمان نے اس عداوت کو محبت سے بدل دیا۔ جیسے قرآن کا بیان ہے کہ اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ تم آپس میں اپنے دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل ملادئیے اور اپنے فضل سے تمہیں بھائی بھائی بنادیا تم جہنم کے کنارے تک پہنچ گئے تھے لیکن اس نے تمہیں بچالیا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کے لیے اسی طرح اپنی باتیں بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا کہ اے انصاریو کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں پاکر اللہ کی عنایت سے تمہیں راہ راست نہیں دکھائی ؟ کیا تم فقیر نہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے امیر کردیا جدا جدا تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دل ملا دیئے۔ آپ کی ہر بات پر انصاف کہتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا اس سے بھی زیادہ احسان ہم پر ہے۔ الغرض اپنے اس انعام و اکرام کو بیان فرما کر اپنی عزت و حکمت کا اظہار کیا کہ وہ بلند جناب ہے اس سے امید رکھنے والا ناامید نہیں رہتا اس پر توکل کرنے والا سرسبز رہتا ہے اور اپنے کاموں میں اپنے حکموں میں حکیم ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے قرابت داری کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اور یہ تب ہوتا ہے جب نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے۔ جناب باری سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر روئے زمین کے خزانے بھی ختم کردیتا تو تیرے بس میں نہ تھا کہ ان کے دل ملا دے۔ شاعر کہتا ہے تجھ سے دھوکا کرنے والا تجھ سے بےپرواہی برتنے والا تیرا رشتے دار نہیں بلکہ تیرا حقیقی رشتے دار وہ ہے جو تیری آواز پر لبیک کہے اور تیرے دشمنوں کی سرکوبی میں تیرا ساتھ دے۔ اور شاعر کہتا ہے میں نے تو خوب مل جل کر آزما کر دیکھ لیا کہ قرابت داری سے بھی بڑھ کر دلوں کا میل جول ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں میں نہ جان سکا کہ یہ سب قول ابن عباس کا ہے یا ان سے نیچے کے راویوں میں سے کسی کا ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں ان کی یہ محبت راہ حق میں تھی توحید و سنت کی بنا پر تھی۔ ابن عباس فرماتے ہیں رشتے داریاں ٹوٹ جاتی ہیں احسان کی بھی ناشکری کردی جاتی ہے لیکن جب اللہ کی جانب سے دل ملا دیئے جاتے ہیں انہیں کوئی جدا نہیں کرسکتا ہے پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت فرمائیں۔ عبدہ بن ابی لبابہ فرماتے ہیں میری حضرت مجاہد ؒ سے ملاقات ہوئی آپ نے مجھ سے مصافحہ کر کے فرمایا کہ جب دو شخص اللہ کی راہ میں محبت رکھنے والے آپس میں ملتے ہیں ایک دوسرے خندہ پیشانی سے ہاتھ ملاتے ہیں تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے میں نے کہا یہ کام تو بہت آسان ہے فرمایا یہ نہ کہو یہی الفت وہ ہے جس کی نسبت جناب باری فرماتا ہے کہ اگر روئے زمین کے خزانے خرچ کر دے تو بھی یہ تیرے بس کی بات نہیں کہ دلوں میں الفت و محبت پیدا کردے۔ ان کے اس فرمان سے مجھے یقین ہوگیا کہ یہ مجھ سے بہت زیادہ سمجھ دار ہیں۔ ولید بن ابی مغیث کہتے ہیں میں نے حضرت مجاہد سے سنا کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں میں نے پوچھا صرف مصافحہ سے ہی ؟ تو آپ نے فرمایا کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ پھر آپ نے اسی جملے کی تلاوت کی۔ تو حضرت ولید نے فرمایا تم مجھ سے بہت بڑے عالم ہو۔ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں سب سے پہلے چیز جو لوگوں میں سے اٹھ جائے گی و الفت و محبت ہے۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے مل کر اس سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے ہوا سے۔ ان کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں گوہ وہ سمندر کی جھاگ جتنے ہوں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 62 وَاِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ط۔گویا ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت دی جا رہی ہے۔ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی مدد اہل ایمان کے ذریعے سے کی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے آپ ﷺ کو ایسے مخلص اور جاں نثار صحابہ عطا کیے کہ جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرا وہاں انہوں نے اپنے خون کی ندیاں بہا دیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خصوصی امداد کی شان اس وقت خوب نکھر کر سامنے آتی ہے جب ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رض کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کا طرز عمل دیکھتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلو ‘ تو انہوں نے صاف کہہ دیا تھا : فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ المائدۃ تو جایئے آپ علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کا رب دونوں جا کر لڑیں ‘ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیزاری سے یہاں تک کہہ دیا تھا : رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ اے میرے رب ! میں تو اپنی جان اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا ‘ لہٰذا آپ ہمارے اور اس فاسق قوم کے درمیان علیحدگی کردیں۔ایک طرف یہ طرز عمل ہے جبکہ دوسری طرف نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کا انداز اخلاص اور جذبہ جاں نثاری ہے۔ غزوۂ بدر سے پہلے جب حضور ﷺ نے مقام صفراء پر صحابہ رض سے مشاورت کی اور یہ بڑی کانٹے دار مشاورت تھی تو کچھ لوگ مسلسل زور دے رہے تھے کہ ہمیں قافلے کی طرف چلنا چاہیے اور وہ اپنے اس موقف کے حق میں بڑی زور دار دلیلیں دے رہے تھے ‘ مگر حضور ﷺ ہر بار فرما دیتے کہ کچھ اور لوگ بھی مشورہ دیں ! اس پر مہاجرین میں سے حضرت مقداد رض نے کھڑے ہو کر یہی بات کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اسی طرف چلئے ‘ آپ ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح نہ سمجھئے ‘ جنہوں نے کہہ دیا تھا : فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھی ہیں ‘ آپ ﷺ جو حکم دیں ہم حاضر ہیں۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رض نے بھی اظہار خیال فرمایا ‘ لیکن حضور ﷺ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انصار نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مدینہ پر حملہ ہوا تو ہم آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے ‘ لیکن یہاں معاملہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا تھا ‘ لہٰذا جنگ کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ رض نے آپ ﷺ کی منشا کو بھانپ لیا ‘ لہٰذا وہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ شاید آپ ﷺ کا روئے سخن ہماری انصار کی طرف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ! اس پر انہوں نے کہا : لَقَدْ اٰمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ۔۔ ہم آپ ﷺ پر ایمان لا چکے ہیں ‘ ہم آپ ﷺ کی تصدیق کرچکے ہیں ‘ ہم آپ ﷺ کو اللہ کا رسول مان چکے ہیں اور آپ ﷺ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں ‘ اب ہمارے پاس آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئی راستہ option نہیں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ اگر آپ اپنی سواری اس سمندر میں ڈال دیں گے تو ہم بھی آپ کے پیچھے اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے۔ اور خدا کی قسم ‘ اگر آپ ﷺ ہمیں کہیں گے تو ہم برک الغماد یمن کا شہر تک جا پہنچیں گے ‘ چاہے اس میں ہماری اونٹنیاں لاغر ہوجائیں۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ ﷺ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا ٹکرائیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے ‘ مقابلہ میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے ‘ اور بعید نہیں کہ اللہ آپ ﷺ کو ہم سے وہ کچھ دکھوا دے جسے دیکھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ﷺ ہمیں لے چلیں ! حضرت سعد رض کی اس تقریر کے بعد حضور ﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور آپ ﷺ نے بدر کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک جھلک ہے اس مدد کی جو اللہ کی طرف سے آپ ﷺ کے انتہائی سچے اور مخلص صحابہ رض کی صورت میں حضور ﷺ کے شامل حال تھی۔
وإن يريدوا أن يخدعوك فإن حسبك الله هو الذي أيدك بنصره وبالمؤمنين
سورة: الأنفال - آية: ( 62 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 185 )Surah Anfal Ayat 62 meaning in urdu
اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعنی) اس بات پر (قادر ہیں) کہ ان سے بہتر لوگ بدل لائیں اور ہم
- انسانوں اور جانوروں اور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔ خدا سے تو
- (خدا) فرمائے گا کہ اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات
- اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو
- اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل
- اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی ہے
- جو پرہیزگار ہیں وہ باغوں اور نہروں میں ہوں گے
- نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا
- (اور شوہروں کی) پیاریاں اور ہم عمر
- اور لوط (کا قصہ یاد کرو) جب ان کو ہم نے حکم (یعنی حکمت ونبوت)
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers