Surah Anfal Ayat 66 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾
[ الأنفال: 66]
اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کرلیا کہ (ابھی) تم میں کسی قدر کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو خدا کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اور خدا ثابت قدم رہنے والوں کا مدد گار ہے
Surah Anfal Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) پچھلاحکم صحابہ ( رضي الله عنهم ) پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا، ایک مسلمان دس کافروں کے لئے، بیس دوسوکے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کر دیا ( صحیح بخاری ۔ تفسیر سورۂ الانفال ) اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔
( 2 ) یہ کہہ کر صبروثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایک غازی دس کفار پہ بھاری اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلا رہا ہے اور انہیں اطمینان دلارہا ہے کہ وہ انہیں دشمنوں پر غالب کرے گا چاہے وہ ساز و سامان اور افرادی قوت میں زیادہ ہوں، ٹڈی دل ہوں اور گو مسلمان بےسرو سامان اور مٹھی بھر ہوں۔ فرماتا ہے اللہ کافی ہے اور جتنے مسلمان تیرے ساتھ ہوں گے وہی کافی ہیں۔ پھر اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہو حضور ﷺ صف بندی کے وقت مقابلے کے وقت برابر فوجوں کا دل بڑھاتے بدر کے دن فرمایا اٹھو اس جنت کو حاصل کرو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی ہے حضرت عمیر بن حمام کہتے ہیں اتنی چوڑی ؟ فرمایا ہاں ہاں اتنی ہی اس نے کہا واہ واہ آپ نے فرمایا یہ کس ارادے سے کہا ؟ کہا اس امید پر کہ اللہ مجھے بھی جنتی کر دے۔ آپ نے فرمایا میری پیشگوئی ہے کہ تو جنتی ہے وہ اٹھتے ہیں دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اپنی تلوار کا میان توڑ دیتے ہیں کچھ کھجوریں جو پاس ہیں کھانی شروع کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں جتنی دیر میں انہیں کھاؤں اتنی دیر تک بھی اب یہاں ٹھہرنا مجھ پر شاق ہے انہیں ہاتھ سے پھینک دیتے ہیں اور حملہ کر کے شیر کی طرح دشمن کے بیچ میں گھس جاتے ہیں اور جوہر تلوار دکھاتے ہوئے کافروں کی گردنیں مارتے ہیں اور حملہ کرتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں ؓ ورجاء۔ ابن المسیب اور سعد بن جیر فرماتے ہیں یہ آیت حضرت عمر کے اسلام کے وقت اتری جب کہ مسلمانوں کی تعداد پوری چالیس کی ہوئی۔ لیکن اس میں ذرا نظر ہے اس لیے کہ یہ آیت مدنی ہے حضرت عمر کے اسلام کا واقعہ مکہ شریف کا ہے۔ حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ کی ہجرت سے پہلے کا۔ واللہ اعلم۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بشارت دیتا ہے اور حکم فرماتا ہے کہ تم میں سے بیس ان کافروں میں سے دو سو پر غالب آئیں گے۔ ایک سو ایک ہزار پر غالب رہیں گے غرض ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے کا ہے۔ پھر حکم منسوخ ہوگیا لیکن بشارت باقی ہے جب یہ حکم مسلمانوں پر گراں گذرا۔ ایک دس کے مقابلے سے ذرا جھجھکا تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور فرمایا۔ اب اللہ نے بوجھ ہلکا کردیا۔ لیکن جتنی تعداد کم ہوئی اتنا ہی صبر ناقص ہوگیا پہلے حکم تھا کہ بیس مسلمان دو سو کافروں سے پیچھے نہ ہٹیں اب یہ ہوا کہ اپنے سے دگنی تعداد یعنی سو دو سو سے نہ بھاگیں۔ پس گرانی گذر نے پر ضعیفی اور ناتوانی کو قبول فرما کر اللہ نے تخفیف کردی۔ پس دگنی تعداد کے کافروں سے تو لڑائی میں پیچھے ہٹنا لائق نہیں ہاں اس سے زیادتی کے وقت طرح دے جانا جرم نہیں۔ ابن عمر فرماتے ہیں یہ آیت ہم صحابیوں کے بارے میں اتری ہے حضور ﷺ نے آیت پڑھ کر فرمایا پہلا حکم اٹھ گیا۔ ( مستدرک حاکم )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 66 اَلْءٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا ط۔یہ کس کمزوری کا ذکر ہے اور یہ کمزوری کیسے آئی ؟ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جہاں تک مہاجرین اور انصار میں سے ان صحابہ کرام رض کا تعلق ہے جو سابقون الاوّلُون میں سے تھے تو ان کے اندر معاذ اللہ کسی قسم کی بھی کوئی کمزوری نہیں تھی ‘ لیکن جو لوگ نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کی تربیت ابھی اس انداز میں نہیں ہوپائی تھی جیسے پرانے لوگوں کی ہوئی تھی۔ ان کے دلوں میں ابھی ایمان پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا اور مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں ایسے نئے لوگوں کا تناسب روز بروز بڑھ رہا تھا۔ مثلاً اگر پہلے ہزار لوگوں میں پچاس یا سو نئے لوگ ہوں تو اب ان کی تعداد خاصی زیادہ ہوتی جا رہی تھی۔ لہٰذا اوسط کے اعتبار سے مسلمانوں کی صفوں میں پہلے کی نسبت اب کمزوری آگئی تھی۔فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ج وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں گے تو وہ دو ہزار پر غالب آجائیں گے اللہ کے حکم سے۔
الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين وإن يكن منكم ألف يغلبوا ألفين بإذن الله والله مع الصابرين
سورة: الأنفال - آية: ( 66 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 185 )Surah Anfal Ayat 66 meaning in urdu
اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جیسا حال فرعوینوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا
- احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب)
- اور ثمود کو بھی۔ غرض کسی کو باقی نہ چھوڑا
- کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ (یوں ہی) بہشت میں داخل ہوجاؤ گے اور
- اور جس روز آگ کے سامنے کئے جائیں گے (اور کہا جائے گا) کیا یہ
- اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں
- کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا آسمان سے مینہ برساتا ہے تو زمین سرسبز ہوجاتی
- اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو
- اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ
- (اے پیغمبر ان سے) کہو کہ بھلا میں تم کو ایسی چیز بتاؤں جو ان
Quran surahs in English :
Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers