Surah yaseen Ayat 70 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لِّيُنذِرَ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ﴾
[ يس: 70]
تاکہ اس شخص کو جو زندہ ہو ہدایت کا رستہ دکھائے اور کافروں پر بات پوری ہوجائے
Surah yaseen Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔
( 2 ) یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہو جائے۔ لِيُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
شاعری پیغمبرانہ شان کے منافی۔ انسان کی جوانی جوں جوں ڈھلتی ہے پیری ضعیفی کمزوری اور ناتوانی آتی جاتی ہے، جیسے سورة روم کی آیت میں ہے۔ ( اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ﮨـعْفًا وَّشَيْبَةً ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ 54 ) 30۔ الروم:54) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں ناتوانی کی حالت میں پیدا کیا۔ پھر ناتوانی کے بعد طاقت عطا فرمائی پھر طاقت و قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا کردیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ خوب جاننے والا پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ اور آیت میں ہم تم میں سے بعض بہت بڑی عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تاکہ علم کے بعد وہ بےعلم ہوجائیں۔ پس مطلب آیت سے یہ ہے کہ دنیا زوال اور انتقال کی جگہ ہے یہ پائیدار اور قرار گاہ نہیں، پھر بھی کیا یہ لوگ عقل نہیں رکھتے کہ اپنے بچپن، پھر جوانی، پھر بڑھاپے پر غوکریں اور اس سے نتیجہ نکال لیں کہ اس دنیا کے بعد آخرت آنے والی ہے اور اس زندگی کے بعد میں دوبارہ پیدا ہونا ہے۔ پھر فرمایا نہ تو میں نے اپنے پیغمبر کو شاعری سکھائی نہ شاعری اس کے شایان شان نہ اسے شعر گوئی سے محبت نہ شعر اشعار کی طرف اس کی طبیعت کا میلان۔ اسی کا ثبوت آپ کی زندگی میں نمایاں طور پر ملتا ہے کہ کسی کا شعر پڑھتے تھے تو صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا تھا یا پورا یاد نہیں نکلتا تھا۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں اولاد عبدالمطلب کا ہر مرد عورت شعر کہنا جانتا تھا مگر رسول اللہ ﷺ اس سے کوسوں دور تھے ( ابن ابی حاتم ) دلائل بیہقی میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ عباس بن مرداس سلمی ؓ سے فرمایا تم نے بھی تو یہ شعر کہا ہے ؟ تجعل نھبی و نھب العبید، بین الاقرع و عینیتہ انہوں نے کہا حضور دراصل یوں ہے بین عینیتہ والا قرع آپ نے فرمایا چلو سب برابر ہے مطلب تو فوت نہیں ہوتا ؟ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ سہیلی نے روض الانف میں اس تقدیم تاخیر کی ایک عجیب توجیہ کی ہے وہ کہتے ہیں حضور ﷺ نے اقرع کو پہلے اور عینیہ کو بعد میں اس لیے ذکر کیا کہ عینیہ خلافت صدیقی میں مرتد ہوگیا تھا بخلاف اقرع کے کہ وہ ثابت قدم رہا تھا۔ واللہ اعلم۔ مغازی میں ہے کہ بدر کے مقتول کافروں کے درمیان گشت لگاتے ہوئے حضور ﷺ کی زبان سے نکلا نفلق ھاما ( آگے کچھ نہ فرماسکے۔ اس پر جناب ابوبکر نے پورا شعر پڑھ دیا )۔ من رجال اعزۃ علینا وھم کانوا اعق واظلما یہ کسی عرب شاعر کا شعر ہے جو حماسہ میں موجود ہے۔ مسند احمد میں ہے کبھی کبھی رسول اللہ ﷺ طرفہ کا یہ شعر بہت پڑھتے تھے ویاتیک بالا خبار من لم تزود اس کا پہلا مصرعہ یہ ہے ستبدی لک الا یام ما کنت جاہلا یعنی زمانہ تجھ پر وہ امور ظاہر کردے گا جن سے تو بیخبر ہے اور تیرے پاس ایسا شخص خبریں لائے گا جسے تو نے توشہ نہیں دیا، حضرت عائشہ سے سوال ہوا کہ کیا حضور ﷺ شعر پڑھتے تھے، آپ نے جواب دیا کہ سب سے زیادہ بغض آپ کو شعروں سے تھا ہاں کبھی کبھی بنو قیس والے کا کوئی شعر پڑھتے لیکن اس میں بھی غلطی کرتے تقدیم تاخیر کردیا کرتے۔ حضرت ابوبکر فرماتے حضور ﷺ یوں نہیں ہے تو آپ فرماتے نہ شاعر ہوں نہ شعر گوئی میرے شایان شان ( ابن ابی حاتم ) دوسری روایت میں شعر اور آگے پیچھے کا ذکر بھی ہے یعنی ویاتیک بالا خبار مالم تذود کو آپ نے من لم تزود الاخبار پڑھا تھا، بہیقی کی ایک روایت میں ہے کہ پورا شعر کبھی آپ نے نہیں پڑھازیادہ سے زیادہ ایک مصرعہ پڑھ لیتے تھے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے خندق کھودتے ہوئے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار پڑھے۔ سو یاد رہے کہ آپ کا یہ پڑھنا صحابہ کے ساتھ تھا۔ وہ اشعاریہ ہیں۔ لاھم لو لاانت ما اھتدینا ولا تصدقناولا صلینا فانذلن سکینتہ علینا وثبت الاقدام ان لا قینا ان الاولی قد بغوا علینا اذا ارادوا فتنتہ ابینا حضور لفظ ابینا کو کھینچ کر پڑھتے اور سارے ہی بلند آواز سے پڑھتے، ترجمہ ان اشعار کا یہ ہے کوئی غم نہیں اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے نہ صدقے دیتے اور نہ نمازیں پڑھتے۔ اب تو ہم پر تسکین نازل فرما۔ جب دشمنوں سے لڑائی چھڑ جائے تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما، یہی لوگ ہم پر سرکشی کرتے ہیں ہاں جب کبھی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم انکار کرتے ہیں اسی طرح ثابت ہے کہ حنین والے دن آپ نے اپنے خچر کو دشمنوں کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا۔ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب اس کی بابت یہ یاد رہے کہ اتفاقیہ ایک کلام آپ کی زبان سے نکل گیا جو وزن شعر پر اترا۔ نہ کہ قصداً آپ نے شعر کہا، حضرت جندب بن عبداللہ فرماتے ہیں ہم حضور ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھے آپ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی تو آپ نے فرمایا۔ ھل انت الا اصبح دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے۔ اور تو راہ اللہ میں خون آلود ہوئی ہے۔ یہ بھی اتفاقیہ ہے قصداً نہیں۔ اسی طرح ایک حدیث الا المم کی تفسیر میں آئے گی کہ آپ نے فرمایا۔ ان تغفر اللھم تغفر جما وای عبدلک ما الما یعنی اے اللہ تو جب بخشے تو ہمارے سبھی کے سب گناہ بخش دے، ورنہ یوں تو تیرا کوئی بندہ نہیں جو چھوٹی چھوٹی لغزشوں سے بھی پاک ہو پس یہ سب کے سب اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کی تعلیم آپ کو شعر گوئی کی نہ تھی۔ بلکہ رب العالمین نے تو آپ کو قرآن عظیم کی تعلیم دی تھی جس کے پاس بھی باطل پھٹک نہیں سکتا۔ قرآن حکیم کی یہ پاک نظم شاعری سے منزلوں دور تھی۔ اسی طرح کہانت سے اور گھڑ لینے سے اور جادو کے کلمات سے جیسے کہ کفار کے مختلف گروہ مختلف بولیاں بولتے تھے۔ آپ کی تو طبیعت ان لسانی صنعتوں سے معصوم تھی۔ ﷺ۔ ابو داؤد میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا میرے نزدیک یہ تینوں باتیں برابر ہیں، تریاق کا پینا، گنڈے کا لٹکانا اور شعر بنانا۔ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں شعر گوئی سے آپ کو طبعاً نفرت تھی۔ دعا میں آپ کو جامع کلمات پسند آتے تھے اور اس کے سوا چھوڑ دیتے تھے ( احمد ) ابو اداؤد میں ہے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا اس کے لیے شعروں سے بھر لینے سے بہتر ہے۔ ( ابوداؤد ) مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے جس نے عشاء کی نماز کے بعد کسی شعر کا ایک مصرع بھی باندھا اس کی اس رات کی نماز نامقبول ہے۔ یہ یادر ہے کہ شعر گوئی کی قسمیں ہیں، مشرکوں کی ہجو میں شعر کہنے مشروع ہیں۔ حسان بن ثابت ؓ، حضرت کعب بن مالک ؓ ، حضرت کعب بن مالک ؓ ، حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ وغیرہ جیسے اکابرین صحابہ نے کفار کی ہجو میں اشعار کے کلام میں ایسے اشعار پائے جاتے ہیں۔ چناچہ امیہ بن صلت کے اشعار کی بابت فرمان رسول ﷺ ہے کہ اس کے شعر تو ایمان لاچکے ہیں لیکن اس کا دل کافر ہی رہا۔ ایک صحابی نے آپ کو امیہ کے ایک سو بیت سنائے ہر بیت کے بعد آپ فرماتے تھے اور کہو۔ ابو داؤد میں حضور کا ارشاد ہے کہ بعض بیان مثل جادو کے ہیں اور بعض شعر سراسر حکمت والے ہیں۔ پس فرمان ہے کہ جو کچھ ہم نے انہیں سکھایا ہے وہ سراسر ذکر و نصیحت اور واضح صاف اور روشن قرآن ہے، جو شخص ذرا سا بھی غور کرے اس پر یہ کھل جاتا ہے۔ تاکہ روئے زمین پر جتنے لوگ موجود ہیں یہ ان سب کو آگاہ کردے اور ڈرا دے جیسے فرمایا ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ 19ۘ ) 6۔ الأنعام:19) تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈرادوں اور جسے بھی یہ پہنچ جائے۔ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 17 ) 11۔ ھود :17) یعنی جماعتوں میں سے جو بھی اسے نہ مانے وہ سزاوار دوزخی ہے۔ ہاں اس قرآن سے اور نبی ﷺ کے فرمان سے اثر وہی لیتا ہے۔ جو زندہ دل اور اندرونی نور والا ہو۔ عقل و بصیرت رکھتا ہو اور عذاب کا قول تو کافروں پر ثابت ہے ہی۔ پس قرآن مومنوں کے لیے رحمت اور کافروں پر اتمام حجت ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 70 { لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا } ” تاکہ وہ خبردار کر دے اس کو جو زندہ ہو “ یہاں ” زندہ ہونے “ سے مراد روح کا زندہ ہونا ہے۔ یہ مضمون اگرچہ قبل ازیں بھی متعدد مقامات پر بیان ہوچکا ہے ‘ لیکن اس آیت میں یہ واضح ترا نداز میں آیا ہے۔ گویا کچھ انسان جیتے جی مردہ ہوتے ہیں ‘ جیسے ابوجہل اور ابو لہب بحیثیت انسان زندہ نہیں تھے ‘ وہ صرف حیوانی سطح پر زندہ تھے ‘ جبکہ ان کے اندر ان کی روحوں کی موت واقع ہوچکی تھی۔ چناچہ قرآن کا انذار صرف اسی انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جس کے اندر اس کی روح زندہ ہو اور اس کی فطرت مسنح نہ ہوچکی ہو۔ یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ” فطرت “ کے مترادف کے طور پر ” خلقت “ کا لفظ استعمال کرلیا جاتا ہے اور اسی کو فارسی زبان میں ” سرشت “ بھی کہتے ہیں۔ لیکن زیر بحث مضمون کی وضاحت کے لیے جس سیاق وسباق میں لفظ ” فطرت “ کا حوالہ آیا ہے اس کا مفہوم لفظ ِ ” خلقت “ سے یکسر مختلف ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ” خلقت “ کا تعلق عالم ِخلق یعنی مٹی اور زمین سے ہے ‘ اس لیے یہ ضعف اور خامیوں سے عبارت ہے۔ مثلاً قرآن کے مطابق انسان کمزور النساء : 28 بھی ہے اور جلد باز بنی اسرائیل : 11 بھی۔ گویا انسانی خلقت میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس انسانی ” فطرت “ کا تعلق ” روح “ سے ہے جو اللہ کی طرف سے انسان میں پھونکی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَاط } الروم : 30 ” یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے “۔ چناچہ فطرت کمزوریوں اور خامیوں سے پاک ہے ‘ کیونکہ اس کا تعلق عالم امر یا عالم ِبالا سے ہے۔ { وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ } ” اور کافروں پر قول واقع ہوجائے۔ “ یعنی ان پر حجت تمام ہوجائے اور وہ عذاب کے مستحق ہوجائیں۔
Surah yaseen Ayat 70 meaning in urdu
تاکہ وہ ہر اُس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حجت قائم ہو جائے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے
- اور جس دن کافر دوزخ کے سامنے کئے جائیں گے (تو کہا جائے گا کہ)
- اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ
- اس سبب سے کہ مال اور بیٹے رکھتا ہے
- اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ہیں
- اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور
- وہ اس میں چلائیں گے کہ اے پروردگار ہم کو نکال لے (اب) ہم نیک
- پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائے گا)
- طہٰ
- کہہ دو کہ اگر تم مرنے یا مارے سے بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو
Quran surahs in English :
Download surah yaseen with the voice of the most famous Quran reciters :
surah yaseen mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter yaseen Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers