Surah Furqan Ayat 74 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾
[ الفرقان: 74]
اور وہ جو (خدا سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا
Surah Furqan Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی انہیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار، جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
( 2 ) یعنی ایسا اچھا نمونہ کہ خیرمیں وہ ہماری اقتدا کریں۔ٍ
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عباد الرحمن کے اوصاف عباد الرحمن کے اور نیک اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یعنی شرک نہیں کرتے، بت پرستی سے بچتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے فسق و فجور نہیں کرتے کفر سے الگ رہتے ہیں لغو اور باطل کاموں سے پرہیز کرتے ہیں گانا نہیں سنتے مشرکوں کی عیدیں نہیں مناتے خیانت نہیں کرتے بری مجلسوں میں نشست نہیں رکھتے شرابیں نہیں پیتے شراب خانوں میں نہیں جاتے اس کی رغبت نہیں کرتے حدیث میں بھی ہے کہ سچے مومن کو چاہئے کہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر دور شراب چل رہا ہو اور یہ بھی مطلب ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ بخاری ومسلم میں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ بتادوں ؟ تین دفعہ یہی فرمایا صحابہ ؓ نے کہا ہاں یارسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا اس وقت تک آپ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اب اس سے الگ ہو کر فرمانے لگے سنو اور جھوٹی بات کہنا سنو اور جھوٹی گواہی دینا اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے دل میں کہنے لگے کاش رسول اللہ ﷺ اب خاموش ہوجاتے۔ زیادہ ظاہر لفظوں سے تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کے پاس نہیں جاتے۔ اللہ کے ان بزرگ بندوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتیں سن کر ان کے دل ہل جاتے ہیں ان کے ایمان اور توکل بڑھ جاتے ہیں بخلاف کفار کے کہ ان پر کلام الٰہی کا اثر نہیں ہوتا وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہیں رہتے۔ نہ اپنا کفر چھوڑتے ہیں نہ سرکشی، طغیانی اور جہالت و ضلالت سے باز آتے ہیں ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور بیمار دل والوں کی گندگی ابھر آتی ہے پس کافر اللہ کی آیتوں سے بہرے اور اندھے ہوجاتے ہیں۔ ان مومنوں کی حالت ان کے برعکس ہے نہ یہ حق سے بہرے ہیں نہ حق سے اندھے ہیں۔ سنتے ہیں سمجھتے ہیں نفع حاصل کرتے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں لیکن اندھا پن بہرا پن نہیں چھوڑتے۔ حضرت شعبی ؒ سے سوال ہوا کہ ایک شخص آتا ہے اور دوسروں کو سجدے میں پاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ کس آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا ہے ؟ تو کیا وہ بھی ان کیساتھ سجدہ کرلے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی یعنی سجدہ نہ کرے اس لیے کہ اس نے نہ سجدے کی آیت پڑھی نہ سنی نہ سوچی تو مومن کا کوئی کام اندھا دھند نہ کرنا چاہئے جب تک اسکے سامنے کسی چیز کی حقیقت نہ ہو اسے شامل نہ ہونا چائیے۔ پھر ان بزرگ بندوں کی ایک دعا بیان ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں کہ ان کی اولادیں بھی ان کی طرح رب کی فرمانبردار عبادت گزار موحد اور غیر مشرک ہوں تاکہ دنیا میں بھی اس نیک اولاد سے ان کا دل ٹھنڈا رہے اور آخرت میں بھی یہ انہیں اچھی حالت میں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس دعا سے ان کی غرض خوبصورتی اور جمال نہیں بلکہ نیکی اور خوش خلقی کی ہے۔ مسلمان کی سچی خوشی اسی میں ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو دوست احباب کو اللہ کا فرماں بردار دیکھے۔ وہ ظالم نہ ہو بدکار نہ ہو۔ سچے مسلمان ہوں۔ حضرت مقداد ؓ کو دیکھ کر ایک صاحب فرمانے لگے ان کی آنکھوں کو مبارک باد ہو جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی زیارت کی ہے۔ کاش کہ ہم بھی حضور ﷺ کو دیکھتے اور تمہاری طرح فیض صحبت حاصل کرتے۔ اس پر حضرت مقداد ؓ ناراض ہوئے تو نفیر کہتے ہیں مجھے تعجب معلوم ہوا کہ اس بات میں کوئی برائی نہیں پھر یہ خفا کیوں ہو رہے ہیں ؟ اتنے میں حضرت مقداد ؓ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس چیز کی آرزو کرتے ہیں کہ جو قدرت نے انہیں نہیں دی۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ اگر اس وقت ہوتے تو ان کا کیا حال ہوتا ؟ واللہ وہ لوگ بھی تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے جنہوں نے نہ آپ کی تصدیق نہ تابعداری کی اور اوندھے منہ جہنم میں گئے۔ تم اللہ کا یہ احسان نہیں مانتے کہ اللہ نے تمہیں اسلام میں اور مسلمان گھروں میں پیدا کیا۔ پیدا ہوتے ہی تمہارے کانوں میں اللہ کی توحید اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت پڑی اور ان بلاؤں سے تم بچالئے گئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئی تھیں۔ حضور ﷺ تو ایسے زمانے میں مبعوث ہوئے تھے جس وقت دنیا کی اندھیر نگری اپنی انتہا پر تھی۔ اس وقت دنیا والوں کے نزدیک بت پرستی سے بہتر کوئی مذہب نہ تھا۔ آپ فرقان لے کر آئے حق وباطل میں تمیز کی۔ باپ بیٹے جدا ہوگئے۔ مسلمان اپنے باپ دادوں بیٹوں پوتوں دوست احباب کو کفر پر دیکھتے ان سے انہیں کوئی محبت پیار نہیں ہوتا تھا بلکہ کڑہتے تھے کہ یہ جہنمی ہیں اسی لئے ان کی دعائیں ہوتی تھیں۔ اس دعا کا آخر یہ ہے کہ ہمیں لوگوں کا رہبر بنا دے کہ ہم انہیں نیکی کی تعلیم دیں، لوگ بھلائی میں ہماری اقتدا کریں۔ ہماری اولاد ہماری راہ چلے تاکہ ثواب بڑھ جائے اور ان کی نیکیوں کا باعث بھی ہم بن جائیں۔ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم فرماتے ہیں کہ انسان کے مرتے ہی اس کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں مگر تین چیزیں۔ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے یا علم جس سے اس کے بعد نفع اٹھایا جائے یا صدقہ جاریہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 74 وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ ” یعنی جس راستے پر ہم چل رہے ہیں ‘ ہمارے اہل و عیال کو بھی اسی راستے پر چلنے والا بنادے تاکہ ان کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں ‘ کیونکہ اللہ کے ان نیک بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو اسی میں ہوگی کہ ان کے گھر والے بھی اللہ کے فرمانبردار بندے بنیں اور اللہ کی بندگی کے راستے کو اختیار کریں۔ اس کے برعکس اگر گھر کا سربراہ اللہ کے دین پر چلنے والا ہو اور اس کے اہل و عیال کی ترجیحات کچھ اور ہوں تو گھر کے اندر کشیدگی اور کش مکش کا ماحول پیدا ہوجائے گا جو ان میں سے کسی کے لیے بھی باعث سکون نہیں ہوگا۔وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ”اس کا یہ مطلب نہیں کہ ”عباد الرحمن “ امامت اور پیشوائی کے لیے بےقرار ہیں بلکہ اس دعا کو اس حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کے بیوی بچے اس کے تابع اور پیروکار ہوتے ہیں۔ چناچہ گھر کے سربراہ کی دعا اور خواہش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اہل و عیال کو بھی متقی بنا دے۔ اس امامت کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ میدان حشر میں ہر انسان کے اہل و عیال اور اس کی نسل کے لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں گے۔ عباد الرحمن کی یہ دعا اس لحاظ سے بھی برمحل ہے کہ اے اللہ ! میدان حشر میں ہم جن لوگوں کے سربراہ یا لیڈر بنیں ان کو بھی نیک اور پرہیزگار بنا دے ‘ تاکہ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ جنت میں داخل ہو کر ہماری خوشی اور اطمینان کا باعث بنیں۔ ایسانہ ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والی نسلوں کے لوگ جہنم کے مستحق ٹھہریں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ 1 کہ تم میں سے ہر شخص کی حیثیت ایک چرواہے کی سی ہے اور تم میں سے ہر کوئی اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہوگا۔ اس لحاظ سے ہر آدمی کے اہل و عیال اس کی رعیت ہیں اور اپنی اس رعیت کے بارے میں وہ مسؤل ہوگا۔ چناچہ ان کی ہدایت کے لیے اسے کوشش بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی۔
والذين يقولون ربنا هب لنا من أزواجنا وذرياتنا قرة أعين واجعلنا للمتقين إماما
سورة: الفرقان - آية: ( 74 ) - جزء: ( 19 ) - صفحة: ( 366 )Surah Furqan Ayat 74 meaning in urdu
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ "اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ہم کو سیدھے رستے چلا
- کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی
- اور کافر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار جنوں اور انسانوں میں سے جن لوگوں
- تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان کو غم سے نجات بخشی۔
- کیا اُن کو اس (امر) سے ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے اُن سے پہلے
- مومنو پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے
- (اے پیغمبر، یہ نیا قبلہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز
- جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس (کی وجہ) سے خوشحال۔ اور
- اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ ان
- اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے نازل فرمائی
Quran surahs in English :
Download surah Furqan with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Furqan mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Furqan Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers