Surah Shura Ayat 8 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾
[ الشورى: 8]
اور اگر خدا چاہتا تو ان کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کا نہ کوئی یار ہے اور نہ مددگار
Surah Shura Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت و مشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لیے اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، جس نے اس آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگیا،اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چنانچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قیامت کا آنا یقینی ہے یعنی جس طرح اے نبی آخر الزماں تم سے پہلے انبیاء پر وحی الٰہی آتی رہی تم پر بھی یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے۔ یہ عربی میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو احکام الٰہی اور اللہ کے عذاب سے آگاہ کر دے نیز تمام اطراف عالم کو۔ آس پاس سے مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت ہے مکہ شریف کو ام القرٰی اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے اس کے دلائل بہت سے ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں ہاں ! یہاں پر ایک دلیل جو مختصر بھی ہے اور صاف بھی ہے سن لیجئے۔ ترمذی نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ میں ہے حضرت عبداللہ بن عدی فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا آپ مکہ شریف کے بازار خزروع میں کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ اے مکہ قسم ہے اللہ کی ساری زمین سے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے اگر میں تجھ میں سے نہ نکالا جاتا تو قسم ہے اللہ کی ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ امام ترمذی ؒ اس حدیث کو حسن صحیح فرماتے ہیں اور اس لئے کہ تو قیامت کے دن سے سب کو ڈرا دے جس دن تمام اول و آخر زمانے کے لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے۔ جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں جس دن کچھ لوگ جنتی ہوں گے اور کچھ جہنمی یہ وہ دن ہوگا کہ جنتی نفع میں رہیں گے اور جہنمی گھاٹے میں دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے آیت ( ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ01003 ) 11۔ ھود :103) یعنی ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو آخرت کا وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے۔ ہم تو اسے تھوڑی سی مدت معلوم کے لئے مؤخر کئے ہوئے ہیں۔ اس دن کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بات تک نہ کرسکے گا ان میں سے بعض تو بدقسمت ہوں گے اور بعض خوش نصیب۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس ایک مرتبہ دو کتابیں اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر آئے اور ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا ہمیں تو خبر نہیں آپ فرمائیے۔ آپ نے اپنی داہنے ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العالمین کی کتاب ہے جس میں جنتیوں کے نام ہیں مع ان کے والد اور ان کے قبیلہ کے نام کے اور آخر میں حساب کر کے میزان لگا دی گئی ہے اب ان میں نہ ایک بڑھے نہ ایک گھٹے۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ جہنمیوں کے ناموں کا رجسٹر ہے انکے نام ان کی ولدیت اور ان کی قوم سب اس میں لکھی ہوئی ہے پھر آخر میں میزان لگا دی گئی ہے ان میں بھی کمی بیشی ناممکن ہے۔ صحابہ نے پوچھا پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ؟ جب کہ سب لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو بھلائی کی نزدیکی لئے رہو۔ اہل جنت کا خاتمہ نیکیوں اور بھلے اعمال پر ہی ہوگا گو وہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور نار کا خاتمہ جہنمی اعمال پر ہی ہوگا گو وہ کیسے ہی کاموں کا مرتکب رہا ہو۔ پھر آپ نے اپنی دونوں مٹھیاں بند کرلیں اور فرمایا تمہارا رب عزوجل بندوں کے فیصلوں سے فراغت حاصل کرچکا ہے ایک فرقہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کیا گویا کوئی چیز پھینک رہے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ یہی حدیث اور کتابوں میں بھی ہے کسی میں یہ بھی ہے کہ یہ تمام عدل ہی عدل ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب آدم ؑ کو پیدا کیا اور ان کی تمام اولاد ان میں سے نکالی اور چیونٹیوں کی طرح وہ میدان میں پھیل گئی تو اسے اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا ایک حصہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا۔ پھر انہیں پھیلا دیا دوبارہ انہیں سمیٹ لیا اور اسی طرح اپنی مٹھیوں میں لے کر فرمایا ایک حصہ جنتی اور دوسرا جہنمی یہ روایت موقوف ہی ٹھیک ہے واللہ اعلم۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نامی صحابی بیمار تھے ہم لوگ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے۔ دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں آپ سے تو رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا ہے کہ اپنی مونچھیں کم رکھا کرو یہاں تک کہ مجھ سے ملو اس پر صحابی نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ حدیث رلا رہی ہے کہ حضور ﷺ سے سنا ہے اللہ تعالیٰ اپنی دائیں مٹھی میں مخلوق لی اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بھی اور فرمایا یہ لوگ اس کے لئے ہیں یعنی جنت کے لئے اور یہ اس کے لئے ہیں یعنی جہنم کے لئے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ پس مجھے خبر نہیں کہ اللہ کی کس مٹھی میں میں تھا ؟ اس طرح کی اثبات تقدیر کی اور بہت سی حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی طریقے پر کردیتا یعنی یا تو ہدایت پر یا گمراہی پر لیکن رب نے ان میں تفاوت رکھا بعض کو حق کی ہدایت کی اور بعض کو اس سے بھلا دیا اپنی حکمت کو وہی جانتا ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت تلے کھڑا کرلے ظالموں کا حمایتی اور مددگار کوئی نہیں۔ ابن جریر میں ہے اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ ( علیہ الصلوۃ والسلام ) نے عرض کی کہ اے میرے رب تو نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا پھر ان میں سے کچھ کو تو جنت میں لے جائے گا اور کچھ اوروں کو جہنم میں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب ہی جنت میں جاتے جناب باری نے ارشاد فرمایا موسیٰ اپنا پیرہن اونچا کرو آپ نے اونچا کیا پھر فرمایا اور اونچا کرو آپ نے اور اونچا کیا فرمایا اور اوپر اٹھاؤ جواب دیا اے اللہ اب تو سارے جسم سے اونچا کرلیا سوائے اس جگہ کے جس کے اوپر سے ہٹانے میں خیر نہیں فرمایا بس موسیٰ اسی طرح میں بھی اپنی تمام مخلوق کو جنت میں داخل کروں گا سوائے ان کے جو بالکل ہی خیر سے خالی ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 8 { وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَہُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً } ” اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں ایک ہی امت بنا دیتا “ اللہ ایسے بھی کرسکتا تھا کہ دنیا کے تمام انسان مومن ہوتے۔ { وَّلٰکِنْ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ } ” لیکن اللہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے۔ “ ان الفاظ کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : ” لیکن اللہ داخل کرتا ہے اپنی رحمت میں اس کو جو چاہتا ہے “۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت یا مغفرت اور جنت کی نعمتیں صرف اسی کو عطا کرتا ہے جو ان کی خواہش رکھتا ہو اور اپنی محنت کی صورت میں ان کی قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہو۔ اس حوالے سے سورة التوبة کی آیت 111 کے یہ الفاظ بھی ہر اہل ِایمان کے پیش نظررہنے چاہئیں : { اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط } ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “ { وَالظّٰلِمُوْنَ مَا لَہُمْ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ } ” اور جو ظالم کافر و مشرک ہوں گے ان کے لیے نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ کوئی مددگار۔ “
ولو شاء الله لجعلهم أمة واحدة ولكن يدخل من يشاء في رحمته والظالمون ما لهم من ولي ولا نصير
سورة: الشورى - آية: ( 8 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 483 )Surah Shura Ayat 8 meaning in urdu
اگر اللہ چاہتا تو اِن سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے، اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے نہ مدد گار
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کہے گا کہ خدا کی قسم تُو تو مجھے ہلاک ہی کرچکا تھا
- اور خدا ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم
- کیا انہوں نے اس کے سوا کارساز بنائے ہیں؟ کارساز تو خدا ہی ہے اور
- کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا
- اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے
- اور جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں بیٹھ جاؤ تو (خدا کا شکر کرنا
- کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا ہی گواہ کافی ہے جو چیز آسمانوں
- اور ہم نے ان سے پہلے بہت سی اُمتیں ہلاک کردیں۔ وہ لوگ (ان سے)
- اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ
- اور زمین کو ہم ہی نے بچھایا تو (دیکھو) ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں
Quran surahs in English :
Download surah Shura with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Shura mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Shura Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers