Surah taha Ayat 85 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ﴾
[ طه: 85]
فرمایا کہ ہم نے تمہاری قوم کو تمہارے بعد آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے ان کو بہکا دیا ہے
Surah taha Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حضرت موسیٰ ( عليه السلام ) کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالٰی نے طور پر موسیٰ ( عليه السلام ) کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کر دیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ أَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ سے واضح ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بنی اسرائیل کا دریا پار جانا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے موسیٰ ہمارے لئے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کردیجئے۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے پورے چالیس ہوگئے دن رات روزے سے رہتے تھے اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کیا۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں آرہے ہیں میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضامندی حاصل کرلوں اور اس میں بڑھ جاؤں۔ موسیٰ ؑ کے بعد پھر شرک۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی ہے اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا حضرت موسیٰ ؑ کو عطا فرمانے کے لئے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھی جیسے فرمان ہے ( وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ01405 ) 7۔ الأعراف:145) یعنی ہم نے اس کے لئے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا۔ حضرت موسیٰ ؑ کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم وغصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ غم واندوہ رنج وغصہ آپ کو بہت آیا۔ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک و انعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا۔ اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لئے ہوئے تھے ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چناچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیزگاری کے پھینک دئیے۔ ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت ہارون ؑ نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت ہارون ؑ کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایک جا ہوجائیں اور پگل کر ایک ڈلا بن جائے پھر جب موسیٰ ؑ آجائیں جیسا وہ فرمائیں کیا جائے۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور حضرت ہارون ؑ نے کہا آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے آپ کو کیا خبر تھی آپ نے دعا کی اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلے چناچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہوگیا پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔ حضرت ہارون ؑ ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا۔ آپ نے پوچھا کیا کررہے ہو ؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ خود اسے ایسا ہی کردے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور اس کی پرستش شروع کردی۔ اس کے سامنے سجدے میں گرپڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے موسیٰ بھول کر اور کہیں اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارے رب یہی ہیں۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بےجان چیز ہے ان کی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے نہ دنیا آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں۔ آواز جو نکلتی تھی اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی اسی کی آواز آتی تھی۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لئے بڑا گناہ کرلیا۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لئے شرک شروع کردیا۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ان عراقیوں کو دیکھو بنت رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر کو تو قتل کردیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں ؟
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 85 قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ ”اگرچہ یہاں صراحت کے ساتھ ایسے الفاظ استعمال نہیں ہوئے مگر انداز سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی اس عجلت پسندی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی قوم کو فتنے میں مبتلا کردیا۔وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ”اس انداز تخاطب میں یہ تفصیل بھی مضمر ہے کہ اگر آپ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ ساتھ رہتے ‘ ان کا تزکیہ کرتے رہتے ‘ وہ لوگ آپ علیہ السلام کی تعلیم و تربیت سے مسلسل بہرہ مند ہوتے رہتے تو یقیناً ان کی عقل و فہم مزید پختہ ہوتی اور اس طرح اس فتنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن جب آپ علیہ السلام انہیں چھوڑ کر آگئے تو اس کے نتیجے میں ایک فتنہ گر شخص کو اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔سامری کے بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اس کا تعلق قبطی قوم سے تھا اور کسی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے ساتھ مل چکا تھا۔ لیکن اس سلسلے میں معتبر رائے یہی ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہی تھا مگر منافق تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اسے خاص کد تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ابو عامر راہب کو حضور ﷺ سے کد تھی۔ ابو عامر راہب کا ذکر سورة التوبة کے مطالعے کے دوران آیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ خزرجی تھا۔ ابتدائی عمر میں بہت نیک اور عبادت گزار تھا ‘ بعد میں اس نے عیسائیت قبول کر کے رہبانیت اختیار کرلی۔ حضور ﷺ سے اسے خصوصی طور پر بغض تھا اور اس کا یہ بغض اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی آپ علیہ السلام کے خلاف جدوجہد اور سازشوں میں مصروف رہا۔ چناچہ جیسا کردار ابوعامر راہب کا امت محمد ﷺ میں رہا ‘ اس سے ملتا جلتا کردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں سامری کا تھا۔
Surah taha Ayat 85 meaning in urdu
فرمایا "اچھا، تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- انہوں نے کہا کہ کچھ نقصان (کی بات) نہیں ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ
- اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر
- اور تم کیا سمجھے کہ سقر کیا ہے؟
- اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو
- اور وہ اور اس کے لشکر ملک میں ناحق مغرور ہورہے تھے اور خیال کرتے
- یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں تمہارا پروردگار جو صاحب عزت ہے اس سے (پاک
- بڑے آدمی کہیں گے کہ تم (بھی اور) ہم (بھی) سب دوزخ میں (رہیں گے)
- اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خدا پورا پورا صلہ
- جو شخص دنیا (میں عملوں) کی جزا کا طالب ہو تو خدا کے پاس دنیا
- اور تمہارا پروردگار (قیامت کے دن) ان سب کو جمع کرے گا وہ بڑا دانا
Quran surahs in English :
Download surah taha with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taha mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taha Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers