Surah taha Ayat 86 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي﴾
[ طه: 86]
اور موسیٰ غصّے اور غم کی حالت میں اپنی قوم کے پاس واپس آئے (اور) کہنے لگے کہ اے قوم کیا تمہارے پروردگار نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا (میری جدائی کی) مدت تمہیں دراز (معلوم) ہوئی یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے غضب نازل ہو۔ اور (اس لئے) تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا (اس کے) خلاف کیا
Surah taha Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انہیں بلایا گیا تھا۔
( 2 ) کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔
( 3 ) قوم نے موسیٰ ( عليه السلام ) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کر دی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بنی اسرائیل کا دریا پار جانا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب دریا پار کر کے نکل گئے تو ایک جگہ پہنچے جہاں کے لوگ اپنے بتوں کے مجاور بن کر بیٹھے ہوئے تھے تو بنی اسرائیل کہنے لگے موسیٰ ہمارے لئے بھی ان کی طرح کوئی معبود مقرر کردیجئے۔ آپ نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو یہ تو برباد شدہ لوگ ہیں اور ان کی عبادت بھی باطل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیس روزوں کا حکم دیا۔ پھر دس بڑھا دئیے گئے پورے چالیس ہوگئے دن رات روزے سے رہتے تھے اب آپ جلدی سے طور کی طرف چلے بنی اسرائیل پر اپنے بھائی ہارون کو خلیفہ مقرر کیا۔ وہاں جب پہنچے تو جناب باری تعالیٰ نے اس جلدی کی وجہ دریافت فرمائی۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ بھی طور کے قریب ہی ہیں آرہے ہیں میں نے جلدی کی ہے کہ تیری رضامندی حاصل کرلوں اور اس میں بڑھ جاؤں۔ موسیٰ ؑ کے بعد پھر شرک۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے چلے آنے کے بعد تیری قوم میں نیا فتنہ برپا ہوا اور انہوں نے گوسالہ پرستی شروع کردی ہے اس بچھڑے کو سامری نے بنایا اور انہیں اس کی عبادت میں لگا دیا ہے اسرائیلی کتابوں میں ہے کہ سامری کا نام بھی ہارون تھا حضرت موسیٰ ؑ کو عطا فرمانے کے لئے تورات کی تختیاں لکھ لی گئی تھی جیسے فرمان ہے ( وَكَتَبْنَا لَهٗ فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَّتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ۚ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَا ۭ سَاُورِيْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِيْنَ01405 ) 7۔ الأعراف:145) یعنی ہم نے اس کے لئے تختیوں میں ہر شے کا تذکرہ اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی تھی اور کہہ دیا کہ اسے مضبوطی سے تھام لو اور اپنی قوم سے بھی کہو کہ اس پر عمدگی سے عمل کریں۔ میں تمہیں عنقریب فاسقوں کا انجام دکھا دوں گا۔ حضرت موسیٰ ؑ کو جب اپنی قوم کے مشرکانہ فعل کا علم ہوا تو سخت رنج ہوا اور غم وغصے میں بھرے ہوئے وہاں سے واپس قوم کی طرف چلے کہ دیکھو ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے باوجود ایسے سخت احمقانہ اور مشرکانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ غم واندوہ رنج وغصہ آپ کو بہت آیا۔ واپس آتے ہی کہنے لگے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تم سے تمام نیک وعدے کئے تھے تمہارے ساتھ بڑے بڑے سلوک و انعام کئے لیکن ذرا سے وقفے میں تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے بلکہ تم نے وہ حرکت کی جس سے اللہ کا غضب تم پر اتر پڑا تم نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اس کا مطلق لحاظ نہ رکھا۔ اب بنی اسرائیل معذرت کرنے لگے کہ ہم نے یہ کام اپنے اختیار سے نہیں کیا بات یہ ہے کہ جو زیور فرعونیوں کے ہمارے پاس مستعار لئے ہوئے تھے ہم نے بہتر یہی سمجھا کہ انہیں پھینک دیں چناچہ ہم نے سب کے سب بطور پرہیزگاری کے پھینک دئیے۔ ایک روایت میں ہے کہ خود حضرت ہارون ؑ نے ایک گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر ان سے فرمایا کہ وہ زیور سب اس میں ڈال دو۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضرت ہارون ؑ کا ارادہ یہ تھا کہ سب زیور ایک جا ہوجائیں اور پگل کر ایک ڈلا بن جائے پھر جب موسیٰ ؑ آجائیں جیسا وہ فرمائیں کیا جائے۔ سامری نے اس میں وہ مٹی ڈال دی جو اس نے اللہ کے قاصد کے نشان سے لی تھی اور حضرت ہارون ؑ نے کہا آئیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیئے کہ وہ میری خواہش قبول فرما لے آپ کو کیا خبر تھی آپ نے دعا کی اس نے خواہش یہ کی کہ اس کا ایک بچھڑا بن جائے جس میں سے بچھڑے کی سی آواز بھی نکلے چناچہ وہ بن گیا اور بنی اسرائیل کے فتنے کا باعث ہوگیا پس فرمان ہے کہ اسی طرح سامری نے بھی ڈال دیا۔ حضرت ہارون ؑ ایک مرتبہ سامری کے پاس سے گزرے وہ اس بچھڑے کو ٹھیک ٹھاک کر رہا تھا۔ آپ نے پوچھا کیا کررہے ہو ؟ اس نے کہا وہ چیز بنا رہا ہوں جو نقصان دے اور نفع نہ دے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ خود اسے ایسا ہی کردے اور آپ وہاں سے تشریف لے گئے سامری کی دعا سے یہ بچھڑا بنا اور آواز نکالنے لگا۔ بنی اسرائیل بہکاوے میں آگئے اور اس کی پرستش شروع کردی۔ اس کے سامنے سجدے میں گرپڑتے اور دوسری آواز پر سجدے سے سر اٹھاتے۔ یہ گروہ دوسرے مسلمانوں کو بھی بہکانے لگا کہ دراصل اللہ یہی ہے موسیٰ بھول کر اور کہیں اس کی جستجو میں چل دئیے ہیں وہ یہ کہنا بھول گئے کہ تمہارے رب یہی ہیں۔ یہ لوگ مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھ گئے۔ ان کے دلوں میں اس کی محبت رچ گئی۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ سامری اپنے سچے اللہ اور اپنے پاک دین اسلام کو بھول بیٹھا۔ ان کی بیوقوفی دیکھئے کہ یہ اتنا نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا تو محض بےجان چیز ہے ان کی بات کا نہ تو جواب دے نہ سنے نہ دنیا آخرت کی کسی بات کا اسے اختیار نہ کوئی نفع نقصان اس کے ہاتھ میں۔ آواز جو نکلتی تھی اس کی وجہ بھی صرف یہ تھی کہ پیچے کے سوراخ میں سے ہوا گزر کر منہ کے راستے نکلتی تھی اسی کی آواز آتی تھی۔ اس بچھڑے کا نام انہوں نے بہموت رکھ چھوڑا تھا۔ ان کی دوسری حماقت دیکھئے کہ چھوٹے گناہ سے بچنے کے لئے بڑا گناہ کرلیا۔ فرعونیوں کی امانتوں سے آزاد ہونے کے لئے شرک شروع کردیا۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ کسی عراقی نے عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا کہ کپڑے پر اگر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ان عراقیوں کو دیکھو بنت رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر کو تو قتل کردیں اور مچھر کے خون کے مسئلے پوچھتے پھریں ؟
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا ط ”اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ تم لوگوں کو اپنی کتاب کی صورت میں جامع ہدایت عطا فرمائے گا۔ میں تو اللہ کے اس وعدے کے مطابق طور پر گیا تھا کہ تمہارے لیے اس کی کتاب اور ہدایت لے کر آؤں :اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ ”گویا تمہاری یہ حرکت اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
فرجع موسى إلى قومه غضبان أسفا قال ياقوم ألم يعدكم ربكم وعدا حسنا أفطال عليكم العهد أم أردتم أن يحل عليكم غضب من ربكم فأخلفتم موعدي
سورة: طه - آية: ( 86 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 317 )Surah taha Ayat 86 meaning in urdu
موسیٰؑ سخت غصّے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا جا کر اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہنے لگے کہ
- کیا انہوں نے اس کو نہیں دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے ہے یعنی
- (پھر) شیطان نے کہا مجھے تو تُو نے ملعون کیا ہی ہے میں بھی تیرے
- خدا ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہے۔ وہی زندگانی بخشتا
- پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون
- اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت
- بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا
- اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور اور
- اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں
- آسمان کی قسم جو مینہ برساتا ہے
Quran surahs in English :
Download surah taha with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taha mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taha Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers