Surah baqarah Ayat 87 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ﴾
[ البقرة: 87]
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے ان کو مدد دی۔تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے، جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا، تو تم سرکش ہو جاتے رہے، اور ایک گروہ (انبیاء) کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) «وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ» کے معنی ہیں کہ موسیٰ ( عليه السلام ) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں انبیاکا یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) پر ختم ہوگیا۔ «بَيِّنَاتٌ» سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کو دیئے گئے۔ جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران ( آیت 49 ) میں ہے۔ رُوحُ الْقُدُسِ سے مراد حضرت جبریل ( عليه السلام ) ہیں، ان کو ( روح القدس )اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے، جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کو رُوحٌ کہا گیا ہے اور الْقُدُس سے ذات الٰہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے۔ ابن جریر نے اسی کو صحیح تر قرار دیا ہے، کیونکہ المائدۂ ( آیت 10 ) میں ( روح القدس ) اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اس لئے ( روح القدس ) سے انجیل مراد نہیں ہوسکتی ایک اور آیت میں حضرت جبریل ( عليه السلام ) کو «الرُّوحُ الأَمِينُ» فرمایا گیا ہے اور آنحضرت ( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت حسان! کے متعلق فرمایا :«اللَّهُمَّ! أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ»۔ ” اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔ “ ایک دوسری حدیث میں ہے «وَجِبْريلُ مَعَكَ»۔ ” جبریل ( عليه السلام ) تمہارے ساتھ ہیں۔ “ معلوم ہوا کہ روح القدس سے مراد حضرت جبریل ( عليه السلام ) ہی ہیں، ( فتح البیان، ابن کثیر بحوالہ اشرف الحواشی )
( 2 ) جیسے حضرت محمد ( صلى الله عليه وسلم ) اور حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کو جھٹلایا اورحضرت زکریا ویحییٰ علیھماالسلام کو قتل کیا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
خود پرست اسرائیلی بنی اسرائیل کے عناد وتکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چناچہ فرمایا آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) 5۔ المائدة:44) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ ؑ پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کردینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کردینا، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ آپ کی تائید پر روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس محمد بن کعب اسماعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ) 26۔ الشعرآء :193) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت حسان ؓ خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا ابوہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور سے یہ سنا ہے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمہارے ساتھ ہیں حضرت حسان کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے روح کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک ( ابن اسحاق ) ابن حبان میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جبرائیل ؑ نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشتوں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ) 42۔ الشوری :52) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی۔ امام ابن جریر ؒ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے اذ اید تک بروح القدس الخ اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چناچہ حضور ﷺ نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 87 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ یہاں لفظ الرُّسُل انبیاء کے معنی میں آیا ہے۔ نبی اور رسول میں کچھ فرق ہے ‘ اسے اختصار کے ساتھ سمجھ لیجیے۔ قرآن مجید کی اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ وہ تینوں مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوجاتے ہیں اور اپنا علیحدہ علیحدہ مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ضمن میں علماء کرام نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا یعنی جب ایک جوڑے کے دونوں لفظ اکٹھے استعمال ہوں گے تو دونوں کا مفہوم مختلف ہوگا ‘ اور جب یہ دونوں الگ الگ استعمال ہوں گے تو ایک معنی میں استعمال ہوجائیں گے۔ ان میں سے ایک جوڑا اسلام اور ایمان یا مسلم اور مؤمن کا ہے۔ عام طور پر مسلم کی جگہ مؤمن اور مؤمن کی جگہ مسلم استعمال ہوجاتا ہے ‘ لیکن سورة الحجرات میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں تو ان کا فرق واضح ہوگیا ہے۔ فرمایا : قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا۔۔ آیت 14 بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔۔ اسی طرح جہاد اور قتال کا معاملہ ہے۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم جدا بھی ہے لیکن ایک دوسرے کی جگہ بھی آجاتے ہیں۔اس ضمن میں تیسرا جوڑا نبی اور رسول کا ہے۔ یہ دونوں لفظ بھی اکثر ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں ‘ لیکن ان میں فرق بھی ہے۔ ہر نبی رسول نہیں ہوتا ‘ البتہ ہر رسول لازماً نبی ہوتا ہے۔ یعنی نبی عام ہے رسول خاص ہے۔ نبی کو جب کسی خاص قوم کی طرف معینّ طور پر بھیج دیا جاتا ہے تب اس کی حیثیت رسول کی ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت انتہائی اعلیٰ مرتبہ پر فائز ایک ولی اللہ کی ہے ‘ جس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عام ولی اللہ میں اور نبی میں فرق یہی ہے کہ نبی پر وحی آتی ہے ‘ ولی پر وحی نہیں آتی۔ لیکن کسی نبی کو جب کسی معین قوم کی طرف مبعوث کردیا جاتا تھا تو پھر وہ رسول ہوتا تھا۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا گیا : اِذْھَبَا اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی طٰہٰ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ ‘ یقیناً وہ سرکشی پر اتر آیا ہے۔ اسی طرح دوسرے رسولوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ مثلاً وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا الاعراف : 85 اور مدین کی طرف بھیجا ہم نے ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو۔ یہ فرق ہے نبی اور رسول کا۔ محض سمجھانے کے لیے بطور مثال عرض کر رہا ہوں کہ جیسے آپ کے یہاں خصوصی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل CSP cadre ہے ‘ ان میں سے کوئی ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے ‘ کسی کو جائنٹ سکریٹری کیّ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ‘ تو کوئی بطور O.S.D خدمات انجام دیتا ہے ‘ لیکن اس کا کا ڈر CSP برقرار رہتا ہے۔ اسی اعتبار سے ہر نبی ہر حال میں نبی ہوتا تھا ‘ لیکن اسے رسول کی حیثیت سے ایک اضافی ذمہ داری اور اضافی مرتبہ عطا کیا جاتا تھا۔نبی اور رسول کے فرق کے ضمن میں ایک بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ نبیوں کو قتل بھی کیا گیا ہے ‘ جبکہ رسول قتل نہیں ہوسکتے۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ط المُجادلۃ : 21 لازماً غالب رہیں گے َ میں اور میرے رسول۔ چناچہ جب بھی کسی قوم نے کسی رسول علیہ السلام کی جان لینے کی کوشش کی تو اس قوم کو ہلاک کردیا گیا اور رسول علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ نبیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نبی تھے ‘ قتل کردیے گئے ‘ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول تھے ‘ لہٰذا قتل نہیں کیے جاسکتے تھے ‘ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ‘ جو قیامت سے قبل دوبارہ زمین پر نزول فرمائیں گے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے راستے میں شہید ہونے کی شدید تمنا تھی۔ آپ ﷺ نے اپنی اس تمنا اور آرزو کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنْ اُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ 9 قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! میری بڑی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں تو اس میں قتل کردیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ! لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں نوٹ کیجیے کہ اگرچہ یہاں لفظ رسول آگیا ہے لیکن یہ نبی کے معنی میں آیا ہے : وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد لگاتار پیغمبر بھیجے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں ‘ درمیان میں جو پیغمبر prophets ہیں یہ سب انبیاء ہیں۔ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ حسِّی معجزات جس قدر حضرت مسیح علیہ السلام کو دیے گئے ویسے اور کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ ان کا تذکرہ آگے چل کر سورة آل عمران میں آئے گا۔ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی خاص تائید و نصرت حاصل تھی۔ معجزات کا ظہور کسی نبی یا رسول کی اپنی طاقت سے نہیں ہوتا ‘ اسی طرح کرامت کسی ولی اللہ کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی ‘ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا ظہور فرشتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اَفَکُلَّمَا جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لاَ تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ط۔ انبیاء و رسل کے ساتھ یہود نے جو طرز عمل روا رکھا ‘ خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو کچھ کیا ‘ یہاں اس پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ جب بھی کبھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر آیا تو تمہاری روش یہی رہی کہ تم نے استکبار کیا اور سرکشی کی ‘ وہی استکبار اور سرکشی جس کے باعث عزازیل ابلیس بن گیا تھا۔ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْز وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ۔ اللہ کے رسول چونکہ قتل نہیں ہوسکتے لہٰذا یہاں نبیوں کا قتل مراد ہے۔ مزید برآں ایک رائے یہ بھی دی گئی ہے کہ یہاں ماضی کا صیغہ قَتَلْتُمْ نہیں آیا ‘ بلکہ فعل مضارع تَقْتُلُوْنَ آیا ہے اور مضارع کے اندر فعل جاری رہنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ گویا تم ان کو قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ‘ بعض رسولوں کی تو جان کے درپے ہوگئے۔
ولقد آتينا موسى الكتاب وقفينا من بعده بالرسل وآتينا عيسى ابن مريم البينات وأيدناه بروح القدس أفكلما جاءكم رسول بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم ففريقا كذبتم وفريقا تقتلون
سورة: البقرة - آية: ( 87 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 13 )Surah baqarah Ayat 87 meaning in urdu
ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اپنے پروردگار کی عبادت کئے جاؤ یہاں تک کہ تمہاری موت (کا وقت) آجائے
- اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر اور مومنوں سے دوستی کرے گا تو
- البتہ ان کی عورت (کہ) اس کے لیے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ
- اور اسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار
- اور سب کے (سمجھانے کے لئے) ہم نے مثالیں بیان کیں اور (نہ ماننے پر)
- اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل
- اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو
- پھر ان کو جگا اُٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدّت وہ (غار میں) رہے
- کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے
- تو انسان کی کچھ پیش نہ چل سکے گی اور نہ کوئی اس کا مددگار
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers