Surah Al Anbiya Ayat 88 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ﴾
[ الأنبياء: 88]
تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان کو غم سے نجات بخشی۔ اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ہم نے یونس ( عليه السلام ) کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایاہے۔ ( جامع ترندی نمبر 5503 وصححہ الالبانی )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
یونس ؑ اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورة صافات میں بھی ہے اور سورة نون میں بھی ہے۔ یہ پیغمبر حضرت یونس بن متی ؑ تھے۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔ آپ نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی۔ آپ وہاں سے ناراض ہو کر چل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آجائے گا جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء ( علیہم السلام ) جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کردی۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھالیا گیا۔ جیسے فرمان ہے آیت ( فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ 98 ) 10۔ يونس:98) یعنی عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کو نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی۔ حضرت یونس ؑ یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکر طوفان کے آثار نمودار ہوئے۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہوجائے۔ قرعہ حضرت یونس ؑ کا نکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا۔ چناچہ خود قرآن میں ہے آیت ( فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ01401ۚ ) 37۔ الصافات:141) اب کہ حضرت یونس ؑ خود کھڑے ہوگئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ کو لقمہ کرگئی۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا۔ آپ اس کے لئے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ کے لئے قید خانہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں۔ آپ کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا۔ خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں نقدر کے یہی معنی حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک وغیرہ نے کئے ہیں امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت ( وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ۧ ) 65۔ الطلاق:7) سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت عطیہ عوفی ؒ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم اس پر مقدر نہ کریں گے قدر اور قدر دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت ( فَالْتَقَى الْمَاۗءُ عَلٰٓي اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ 12ۚ ) 54۔ القمر:12) بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب حضرت یونس ؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے۔ آپ نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں جاکر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ وہیں سجدے میں گرپڑے اور کہنے لگے بارالٰہی میں نے تیرے لئے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا۔ حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے جب آپ سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے۔ چناچہ آپ نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کردی اسے سن کر فرشتوں نے کہا بار الٰہا ! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزور ہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے۔ جواب ملا کہ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو کنارے پر اگل دے۔ تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہحضور ﷺ نے فرمایا کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تئیں یونس بن متع سے افضل کہے۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے۔ اوپر جو روایت گزری اسکی وہی ایک سند ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضور اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب حضرت یونس ؑ نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گومنے لگے فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے۔ جناب باری نے فرمایا کیا تم نے پہچانا نہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑھتے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے۔ استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کر تمام مشکلیں آسان کردیتے ہیں۔ خصوصا جو لوگ اس دعائے یونسی کو پڑھیں سیدالانبیاء رسول ﷺ فرماتے ہیں مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت سعد بن ابو وقاص ؓ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا حضرت عثمان ؓ وہاں تھے۔ میں نے سلام کیا آپ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب ؓ سے آکر شکایت کی آپ نے حضرت عثمان ؓ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ آپ نے فرمایا نہ یہ آئے نہ انہوں نے سلام کیا نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو۔ اس پر میں قسم کھائی تو آپ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی پھر کچھ خیال کرکے حضرت عثمان ؓ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ نے سے سنی تھی۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑجاتا ہے حضرت سعد ؓ نے فرمایا میں آپ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا بہ وقت گزرتا گیا اب حضور ﷺ وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ کے پیچے ہولیا جب آپ گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کون ابو اسحاق ؟ میں نے کہا جی ہاں یارسول میں ہی ہوں۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ دعا حضرت ذوالنون ؑ کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی ( لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 87ښ ) 21۔ الأنبیاء :87) سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی حضرت یونس ؑ اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے۔ ابو سعید فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں۔ ابن جریر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطا فرمائے وہ حضرت یونس بن متع کی دعا میں ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں میں نے کہا یارسول اللہ وہ حضرت یونس کے لئے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے فرمایا ان کے لئے خاص اور تمام مسلمانوں کے لئے عام جو بھی یہ دعا کرے۔ کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری ؒ سے پوچھا کہ ابو سعید اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ برادرزادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ پھر آپ نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ ”یعنی یہ معاملہ حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جو اہل ایمان بھی ہم کو اسی طرح پکاریں گے ہم ان کو مصائب سے نجات دیں گے۔
فاستجبنا له ونجيناه من الغم وكذلك ننجي المؤمنين
سورة: الأنبياء - آية: ( 88 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 329 )Surah Al Anbiya Ayat 88 meaning in urdu
تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اس
- کہہ دو کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ (یہ فی نفسہ حق
- تو وہ بولے کہ ہم خدا ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم
- اے نبی! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے
- جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس (کی وجہ) سے خوشحال۔ اور
- (یعنی قیامت کے روز) جس دن ان کی زبانیں ہاتھ اور پاؤں سب ان کے
- اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ان کے
- موسٰی نے کہا کہ مجھ میں اور آپ میں یہ (عہد پختہ ہوا) میں جونسی
- یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے
- تو قوم فرعون میں جو سردار تھے وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا علامہ جادوگر
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers