Surah Ghafir Ayat 9 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾
[ غافر: 9]
اور ان کو عذابوں سے بچائے رکھ۔ اور جس کو تو اس روز عذابوں سے بچا لے گا تو بےشک اس پر مہربانی فرمائی اور یہی بڑی کامیابی ہے
Surah Ghafir Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) سیئات سے مرادیہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاوں سے یا برائیوں سےبچانا۔
( 2 ) یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہو جانا، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں۔ ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں، ایک تویہ کہ فرشتے ان کے لیےغائبانہ دعاکرتے ہیں۔ ( جس کی حدیث میں بڑی فضیلت واردہے ) دوسری، یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ جَعَلَنَا اللهُ مِنَ الَّذِينَ يُلْحِقُهُمُ اللهُ بِآبَائِهِمُ الصَّالِحِينَ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ کی بزرگی اور پاکی بیان کرنے پر مامور فرشتے۔عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے آس پاس کے تمام بہترین بزرگ فرشتے ایک طرف تو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام عیوب اور کل کمیوں اور برائیوں سے اسے دور بتاتے ہیں، دوسری جانب اسے تمام ستائشوں اور تعریفوں کے قابل مان کر اس کی حمد بجا لاتے ہیں۔ غرض جو اللہ میں نہیں اس کا انکار کرتے ہیں اور جو صفتیں اس میں ہیں انہیں ثابت کرتے ہیں۔ اس پر ایمان و یقین رکھتے ہیں۔ اس سے پستی اور عاجزی ظاہر کرتے ہیں اور کل ایمان دار مردوں عورتوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے مقرر کردیئے جو ان کے بن دیکھے ہر وقت ان کی تقصیروں کی معافی طلب کیا کرتے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کیلئے اس کی غیر حاضری میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور اس کیلئے دعا کرتا ہے کہ اللہ تجھے بھی یہی دے جو تو اس مسلمان کیلئے اللہ سے مانگ رہا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ امیہ بن صلت کے بعض اشعار کی رسول اللہ ﷺ نے تصدیق کی جیسے یہ شعر ہے زحل و ثور تحت وجل یمینہ والنسر للاخری و لیث مرصد یعنی حاملان عرش چار فرشتے ہیں دو ایک طرف دو دوسری طرف۔ آپ نے فرمایا سچ ہے پھر اس نے کہا والشمس تطلع کل اخر لیلتہ حمراء یصبح لونھا یتورد تابی فما تطلع لنا فی رسلھا الا معذبتہ والا تجلد یعنی سورج سرخ رنگ طلوع ہوتا ہے پھر گلابی ہوجاتا ہے، اپنی ہیئت میں کبھی صاف ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روکھا پھیکا ہی رہتا ہے، آپ نے فرمایا سچ ہے۔ اس کی سند بہت پختہ ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حاملان عرش چار فرشتے ہیں، ہاں قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ( وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17ۭ ) 69۔ الحاقة :17) ہاں اس آیت کے مطلب اور اس حدیث کے استدلال میں ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ بطحا میں رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک ابر کو گزرتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا کہ اس کا کیا نام ہے ؟ انہوں نے کہا سحاب۔ آپ ﷺ نے فرمایا اور اسے مزن بھی کہتے ہیں ؟ کہا ہاں ! فرمایا عنان بھی ؟ عرض کیا ہاں ! پوچھا جانتے ہو آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے ؟ صحابہ نے کہا نہیں، فرمایا اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا راستہ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر اسی طرح ساتوں آسمان ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے کھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے۔ پھر اس کے اوپر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ اس وقت آٹھ فرشتوں کے اوپر ہے۔ حضرت شہر بن حوشب کا فرمان ہے کہ حاملان عرش آٹھ ہیں جن میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہے ( سبحانک اللھم وبحمد لک الحمد علی حملک بعد عملک ) یعنی اے باری تعالیٰ تیری پاک ذات ہی کیلئے ہر طرح کی حمد وثناء ہے کہ تو باوجود علم کے پھر بردباری اور علم کرتا ہے۔ اور دوسرے چار کی تسبیح یہ ہے ( سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک ) یعنی اے اللہ باوجود قدرت کے تو جو معافی اور درگذر کرتا رہتا ہے اس پر ہم تیری پاکیزگی اور تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔ اسی لئے مومنوں کے استغفار میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیری رحمت و علم نے ہر چیز کو اپنی وسعت و کشادگی میں لے لیا ہے۔ بنی آدم کے تمام گناہ ان کی کل خطاؤں پر تیری رحمت چھائے ہوئے ہے، اسی طرح تیرا علم بھی ان کے جملہ اقوال و افعال کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ان کی کل حرکات و سکنات سے تو بخوبی واقف ہے۔ پس تو ان کے برے لوگوں کو جب وہ توبہ کریں اور تیری طرف جھکیں اور گناہوں سے باز آجائیں اور تیرے احکام کی تعمیل کریں نیکیاں کریں بدیاں چھوڑیں بخش دے، اور انہیں جہنم کے دردناک گھبراہٹ والے عذابوں سے نجات دے۔ انہیں مع ان کے والدین بیویوں اور بچوں کے جنت میں لے جا تاکہ ان کی آنکھیں ہر طرح ٹھنڈی رہیں۔ گو ان کے اعمال ان جتنے نہ ہوں تاہم تو ان کے درجات بڑھا کر اونچے درجے میں پہنچا دے۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے ( وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21 ) 52۔ الطور:21) ، یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور ان کے ایمان کی اتباع ان کی اولاد بھی کرے ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے اور ان کا کوئی عمل کم نہ کریں گے۔ درجے میں سب کو برابری دیں گے۔ تاکہ دونوں جانب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اور پھر یہ نہ کریں گے کہ درجوں میں بڑھے ہوؤں کو نیچا کردیں نہیں بلکہ نیچے والوں کو صرف اپنی رحمت و احسان کے ساتھ اونچا کردیں گے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں مومن جنت میں جاکر پوچھے گا کہ میرا باپ میرے بھائی میری اولاد کہاں ہے ؟ جواب ملے گا کہ ان کی نیکیاں اتنی نہ تھیں کہ وہ اس درجے میں پہنچتے، یہ کہے گا کہ میں نے تو اپنے لئے اور ان سب کیلئے عمل کئے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دے گا۔ پھر آپ نے اسی آیت ( رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۙ ) 40۔ غافر:8) کی تلاوت فرمائی۔ حضرت مطرف بن عبداللہ ؓ کا فرمان ہے کہ ایمانداروں کی خیر خواہی فرشتے بھی کرتے ہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ اور شیاطین ان کی بدخواہی کرتے ہیں۔ تو ایسا غالب ہے جس پر کوئی غالب نہیں اور جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جو تو چاہتا ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا۔ تو اپنے اقوال و افعال شریعت و تقدیر میں حکمت والا ہے، تو انہیں برائیوں کے کرنے سے دنیا میں اور ان کے وبال سے دونوں جہان میں محفوظ رکھ، قیامت کے دن رحمت والا وہی شمار ہوسکتا ہے جسے تو اپنی سزا سے اور اپنے عذاب سے بچالے حقیقتاً بڑی کامیابی پوری مقصد دری اور ظفریابی یہی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 9 { وَقِہِمُ السَّیِّاٰتِط وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ } ” اور انہیں بچا لے برائیوں سے۔ اور جسے تو ُ نے اس دن برائیوں سے بچالیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا۔ “ { وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } ” اور یقینا یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ “
وقهم السيئات ومن تق السيئات يومئذ فقد رحمته وذلك هو الفوز العظيم
سورة: غافر - آية: ( 9 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 468 )Surah Ghafir Ayat 9 meaning in urdu
اور بچا دے اُن کو برائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (اے جھٹلانے والو!) تم کسی قدر کھا لو اور فائدے اُٹھا لو تم بےشک گنہگار
- اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے
- کیا تم کو اس بات سے تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص
- بات یہ ہے کہ میں ان کفار کو اور ان کے باپ دادا کو متمتع
- اور قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق کا راستہ بتاتے اور
- الم
- کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو کون تم کو
- اور شراب کے چھلکتے ہوئے گلاس
- کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔
- یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں
Quran surahs in English :
Download surah Ghafir with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ghafir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ghafir Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers