Surah Al Araaf Ayat 31 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ﴾
[ الأعراف: 31]
اے نبی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزّین کیا کرو اور کھاؤ اور پیؤ اور بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔
( 2 ) ” إِسْرَافٌ “ ( حد سے نکل جانا ) کسی چیز میں حتیٰ کہ کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے۔ ایک حدیث میں نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا ” جو چاہو، کھاوء۔ جو چاہو پہنو! البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبرسے “ ( صحيح بخاري، كتاب اللباس، باب قول الله تعالى قل من حرم زينة الله ) بعض سلف کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلا تُسْرِفُوا اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرمادی ہے۔ ( ابن کثیر )
بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لئے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت ( گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا ) ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ ( فتح القدیر ) جمعہ اور عید کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا حصہ ہے۔ ( ابن کثیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
برہنہ ہو کر طواف ممنوع قرار دے دیا گیا اس آیت میں مشرکین کا رد ہے وہ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے جیسے کہ پہلے گذرا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ننگے مرد دن کو طواف کرتے اور ننگی عورتیں رات کو، اس وقت عورتیں کہا کرتی تھیں کہ آج اس کے خاص جسم کا کل حصہ یا کچھ حصہ گو ظاہر ہو لیکن کسی کو وہ اس کا دیکھنا جائز نہیں کرتیں۔ پس اس کے برخلاف مسلمانوں کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا لباس پہن کر مسجدوں میں جاؤ، اللہ تعالیٰ زینت کے لینے کو حکم دیتا ہے اور زینت سے مراد لباس ہے اور لباس وہ ہے جو اعضاء مخصوصہ کو چھپالے اور جو اس کے سوا ہو مثلاً اچھا کپڑا وغیرہ۔ ایک حدیث میں ہے کہ یہ آیت جوتیوں سمیت نماز پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن ہے یہ غور طلب اور اس کی صحت میں بھی کلام ہے واللہ اعلم۔ یہ آیت اور جو کچھ اس کے معنی میں سنت میں وارد ہے اس سے نماز کے وقت زینت کرنا مستحب ثابت ہوتا ہے۔ خصوصاً جمعہ کے دن اور عید کے دن اور خوشبو لگانا بھی مسنون طریقہ ہے اس لئے کہ وہ زینت میں سے ہی ہے اور مسواک کرنا بھی۔ کیونکہ وہ بھی زینت کو پورا کرنے میں داخل ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سب سے افضل لباس سفید کپڑا ہے۔ جیسے کہ مسند احمد کی صحیح حدیث میں ہے حضور فرماتے ہیں سفید کپڑے پہنو وہ تمہارے تمام کپڑوں سے افضل ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دو۔ سب سرموں میں بہتر سرمہ اثمد ہے وہ نگاہ کو تیز کرتا ہے اور بالوں کو اگاتا ہے۔ سنن کی ایک اور حدیث میں ہے سفید کپڑوں کو ضروری جانو اور انہیں پہنو وہ بہت اچھے اور بہت پاک صاف ہیں انہی میں اپنے مردوں کو کفن دو۔ طبرانی میں مروی ہے کہ حضرت تمیم داری نے ایک چادر ایک ہزار کو خریدی تھی نمازوں کے وقت اسے پہن لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد آدھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام طب کو اور حکمت کو جمع کردیا ارشاد ہے کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہ کھا جو چاہ پی لیکن دو باتوں سے بچ اسراف اور تکبر۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کھاؤ پیو پہنو اور پڑھو لیکن صدقہ بھی کرتے رہو اور تکبر اور اسراف سے بچتے رہو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے کے جسم پر دیکھے۔ آپ فرماتے ہیں کھاؤ اور پہنو اور صدقہ کرو اور اسراف سے اور خود نمائی سے رکو، فرماتے ہیں انسان اپنے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرتا۔ انسان کو چند لقمے جس سے اس کی پیٹھ سیدھی رہے کافی ہیں اگر یہ بس میں نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ اپنے پیٹ کے تین حصے کرلے ایک کھانے کیلئے ایک پانی کیلئے ایک سانس کیلئے۔ فرماتے ہیں یہ بھی اسراف ہے کہ تو جو چاہے کھائے۔ لیکن حدیث غریب ہے۔ مشرکین جہاں ننگے ہو کر طواف کرتے تھے وہاں زمانہ حج میں چربی کو بھی اپنے اوپر حرام جانتے تھے اللہ نے دونوں باتوں کے خلاف حکم نازل فرمایا یہ بھی اسراف ہے کہ اللہ کے حلال کردہ کھانے کو حرام کرلیا جائے۔ اللہ کی دی ہوئی حلال روزی بیشک انسان کھائے پئے۔ حرام چیز کا کھانا بھی اسراف ہے اللہ کی مقرر کردہ حرام حلال کی حدوں سے گزر نہ جاؤ۔ نہ حرام کو حلال کرو نہ حلال کو حرام کہو۔ ہر ایک حکم کو اسی کی جگہ پر رکھو ورنہ مسرف اور دشمن رب بن جاؤ گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 31 یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ یہاں اچھے لباس کو زینت کہا گیا ہے ‘ جیسا کہ آیت 26 میں لباس کو رِیْشًا فرمایا گیا تھا ‘ یعنی لباس انسان کے لیے زیب وزینت کا ذریعہ ہے۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی قابل غور ہے کہ ابھی جن تین آیات 26 ‘ 27 اور 31 میں لباس کا ذکر ہوا ہے ‘ ان تینوں میں بنی آدم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لباس کا معاملہ پوری نوع انسانی سے متعلق ہے۔ بہر حال اس آیت میں جو اہم حکم دیا جا رہا ہے وہ نماز کے وقت بہتر لباس زیب تن کرنے کے بارے میں ہے۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں عام طور پر الٹی روش چلتی ہے۔ دفتر اور عام میل ملاقات کے لیے تو عموماً بہت اچھے لباس کا اہتمام کیا جاتا ہے ‘ لیکن مسجد جانا ہو تو میلے کچیلے کپڑوں سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جب تمہیں میرے دربار میں آنا ہو تو پورے اہتمام کے ساتھ آیا کرو ‘ اچھا اور صاف ستھرا لباس پہن کر آیا کرو۔وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ۔ بنی آدم سے کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی چیزیں تمہارے لیے ہی بنائی گئیں ہیں اور ان چیزوں سے جائز اور معروف طریقوں سے استفادہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ‘ لیکن اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کے بےجا استعمال اور اسراف سے اجتناب بھی ضروری ہے ‘ کیونکہ اسراف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ یہاں ایک طرف تو اسی رہبانی نظریہ کی نفی ہو رہی ہے جس میں اچھے کھانے ‘ اچھے لباس اور زیب و زیبائش کو سرے سے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور مفلسانہ وضع قطع اور ترک لذات کو روحانی ارتقاء کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے ‘ جبکہ دوسری طرف دنیوی نعمتوں کے بےجا اسراف اور ضیاع سے سختی سے منع کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں افراط وتفریط سے بچنے کے لیے ضروریات زندگی کے اکتساب و تصرف کے معیار اور فلسفے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلمان جہاں کہیں بھی رہتا بستا ہے اس کو دو صورتوں میں سے ایک صورت حال درپیش ہوسکتی ہے۔ اس کے ملک میں یا تو دین غالب ہے یا مغلوب۔ اب اگر آپ کے ملک میں اللہ کا دین مغلوب ہے تو آپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کے غلبے کی جدو جہد کریں اور اس کے لیے کسی باقاعدہ تنظیم میں شامل ہو کر اپنا بیشتر وقت اور صلاحیتیں اس جدوجہد میں لگائیں۔ ایسی صورت حال میں دنیوی طور پر ترقی کرنا اور پھلنا پھولنا آپ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے ‘ بلکہ آپ کی پہلی ترجیح دین کے غلبے کے لیے جدو جہد ہونی چاہیے اور آپ کا ماٹو اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الانعام ہونا چاہیے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ مادی لحاظ سے بہت بہتر معیار زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ اس لیے نہیں ہوگا کہ آپ رہبانیت یا ترک لذات کے قائل ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ دنیا اور دنیوی آسائشیں کمانے کے لیے نہ آپ کوشاں ہیں اور نہ ہی اس کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ تو شعوری طور پر ضروریات زندگی کو کم سے کم معیار پر رکھ کر اپنی تمام تر صلاحیتیں ‘ اپنا وقت اور اپنے وسائل دین کی سر بلندی کے لیے کھپا رہے ہیں۔ یہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ ایک مثبت جہادی نظریہ ہے۔ جیسے نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رض نے سختیاں جھیلیں اور اپنے گھر باراسی دین کی سر بلندی کے لیے چھوڑے۔ کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتوں کو نازل نہیں کرے گا ‘ بلکہ یہ کام انسانوں نے کرنا ہے ‘ مسلمانوں نے کرنا ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ انقلاب کے داعی بنے ہیں انہیں قربانیاں دینا پڑی ہیں ‘ انہیں سختیاں اٹھانا پڑی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی انقلاب قربانیوں کے بغیر نہیں آتا۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے انقلاب کے داعی بن کر نکلے ہیں تو آپ کا معیار زندگی خود بخود کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ البتہ اگر آپ کے ملک میں دین غالب ہوچکا ہے ‘ نظا مِ خلافت قائم ہوچکا ہے ‘ اسلامی فلاحی ریاست وجود میں آچکی ہے تو دین کی مزید نشر و اشاعت ‘ دعوت و تبلیغ اور نظام خلافت کی توسیع ‘ عوامی فلاح و بہبود کی نگرانی ‘ امن وامان کا قیام ‘ ملکی سرحدوں کی حفاظت ‘ یہ سب حکومت اور ریاست کی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسی اسلامی ریاست میں ایک فرد کی ذمہ داری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک حکومت کی طرف سے اسے مکلف کیا جائے۔ وہ کسی ٹیکس کی صورت میں ہو یا پھر کسی اور نوعیت کی ذمہ داری ہو۔ لیکن ایسی صورت حال میں ایک فرد ‘ ایک عام شہری آزاد ہے کہ وہ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی اپنی مرضی سے گزارے۔ اچھا کمائے ‘ اپنے بچوں کے لیے بہتر معیار زندگی اپنائے ‘ دنیوی ترقی کے لیے محنت کرے ‘ علمی و تحقیقی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو آزمائے یا روحانی ترقی کے لیے مجاہدہ کرے ‘ تمام راستے اس کے لیے کھلے ہیں۔
يابني آدم خذوا زينتكم عند كل مسجد وكلوا واشربوا ولا تسرفوا إنه لا يحب المسرفين
سورة: الأعراف - آية: ( 31 ) - جزء: ( 8 ) - صفحة: ( 154 )Surah Al Araaf Ayat 31 meaning in urdu
اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا کافر کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے (اور) ہم اس کے حق میں زمانے
- ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے اور (خدا سے) ڈرے تو خدا ڈرنے
- (اے سرکش) یہ اس (کفر) کی سزا ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے
- اور ناپاکی سے دور رہو
- کیا ان کا داؤں غلط نہیں کیا؟ (گیا)
- اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح
- تم تو صرف ڈرانے والے ہو
- اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن
- مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا
- کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers