Surah Ahqaf Ayat 9 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ﴾
[ الأحقاف: 9]
کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (کیا جائے گا) میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے
Surah Ahqaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آچکے ہیں۔
( 2 ) یعنی دنیا میں۔ میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجھے مجبور ہونا پڑے گا۔ مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا؟ تم جلد ہی سزا سے دوچار ہو گے یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی؟ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا؟ تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمان جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے بعض صحابہ ( رضي الله عنهم ) کی وفات پر، جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا، تو فرمایا ” وَاللهِ مَا أَدْرِي -وَأَنَا رَسُولُ اللهِ- مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ “ ( صحيح بخاري، مناقب الأنصار ، باب مقدم النبي وأصحابه إلى المدينة ) اللہ کی قسم، مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے۔ الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو۔ جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نبی اکرم ﷺ کا اظہار بےبسی مشرکوں کی سرکشی اور ان کا کفر بیان ہو رہا ہے کہ جب انہیں اللہ کی ظاہر و باطن واضح اور صاف آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے تکذیب و افترا، ضلالت و کفر گویا ان کا شیوہ ہوگیا ہے۔ جادو کہہ کر ہی بس نہیں کرتے بلکہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اسے تو محمد ﷺ نے گھڑ لیا ہے۔ پس نبی کی زبانی اللہ جواب دلواتا ہے کہ اگر میں نے ہی اس قرآن کو بنایا ہے اور میں اس کا سچا نبی نہیں تو یقینًا وہ مجھے میرے اس جھوٹ اور بہتان پر سخت تر عذاب کرے گا اور پھر تم کیا سارے جہان میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے اس کے عذابوں سے چھڑا سکے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا 22ۙ ) 72۔ الجن:22) ، یعنی تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ اس کے سوا کہیں اور مجھے پناہ کی جگہ مل سکے گی لیکن میں اللہ کی تبلیغ اور اس کی رسالت کو بجا لاتا ہوں۔ اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ۙ ) 69۔ الحاقة :44) ، یعنی اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا، تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی بھی اسے نہ بچا سکتا پھر کفار کو دھمکایا جا رہا ہے کہ تمہاری گفتگو کا پورا علم اس علیم اللہ کو ہے وہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اس کی دھمکی کے بعد انہیں توبہ اور انابت کی رغبت دلائی جا رہی ہے اور فرماتا ہے وہ غفور و رحیم ہے اگر تم اس کی طرف رجوع کرو اپنے کرتوت سے باز آؤ تو وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم پر رحم کرے گا۔ سورة فرقان میں بھی اسی مضمون کی آیت ہے۔ فرمان ہے آیت ( وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا ) 25۔ الفرقان:5) ، یعنی یہ کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور صبح شام لکھائی جا رہی ہیں تو کہہ دے کہ اسے اس اللہ نے اتارا ہے جو ہر پوشیدہ جو جانتا ہے خواہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو وہ غفور و رحیم ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی پہلا نبی تو نہیں۔ مجھ سے پہلے بھی تو دنیا میں لوگوں کی طرف رسول آتے رہے پھر میرے آنے سے تمہیں اس قدر اچنبھا کیوں ہوا ؟ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ بقول حضرت ابن عباس اس آیت کے بعد آیت ( لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا ۙ ) 48۔ الفتح:2) ، اتری ہے۔ اسی طرح حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت قتادہ بھی اسے منسوخ بتاتے ہیں۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آیت بخشش اتری جس میں فرمایا گیا تاکہ اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ بخشے تو ایک صحابی نے کہا حضور ﷺ یہ تو اللہ نے بیان فرما دیا کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے پس وہ ہمارے ساتھ کیا کرنے والا ہے ؟ اس پر آیت ( لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِيْمًا ۙ ) 48۔ الفتح:5) اتری یعنی تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں صحیح حدیث سے بھی یہ تو ثابت ہے کہ مومنوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ کو مبارک ہو فرمائیے ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری حضرت ضحاک اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا حکم دیا جاؤ اور کس چیز سے روک دیا جاؤں ؟ امام حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ آخرت کا انجام تو مجھے قطعًا معلوم ہے کہ میں جنت میں جاؤں گا ہاں دنیوی حال معلوم نہیں کہ اگلے بعض انبیاء کی طرح قتل کیا جاؤں یا اپنی زندگی کے دن پورے کر کے اللہ کے ہاں جاؤں ؟ اور اسی طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہیں دھنسایا جائے یا تم پر پتھر برسائے جائیں امام ابن جریر اسی کو معتبر کہتے ہیں اور فی الواقع ہے بھی یہ ٹھیک۔ آپ بالیقین جانتے تھے کہ آپ اور آپ کے پیرو جنت میں ہی جائیں گے اور دنیا کی حالت کے انجام سے آپ بیخبر تھے کہ انجام کار آپ کا اور آپ کے مخالفین قریش کا کیا حال ہوگا ؟ آیا وہ ایمان لائیں گے یا کفر پر ہی رہیں گے اور عذاب کئے جائیں گے یا بالکل ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے لیکن جو حدیث مسند احمد میں ہے حضرت ام العلاء فرماتی ہیں جنہوں نے حضور ﷺ سے بیعت کی تھی کہ جس وقت مہاجرین بذریعہ قرعہ اندازی انصاریوں میں تقسیم ہو رہے تھے اس وقت ہمارے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون آئے آپ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اور فوت بھی ہوگئے جب ہم آپ کو کفن پہنا چکے اور حضور ﷺ بھی تشریف لاچکے تو میرے منہ سے نکل گیا اے ابو السائب اللہ تجھ پر رحم کرے میری تو تجھ پر گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا تیرا اکرام ہی کرے گا۔ اس پر جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ یقینا اس کا اکرام ہی کرے گا۔ میں نے کہا حضور ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں مجھے کچھ نہیں معلوم پس آپ نے فرمایا سنو ان کے پاس تو ان کے رب کی طرف کا یقین آپہنچا اور مجھے ان کیلئے بھلائی اور خیر کی امید ہے قسم ہے اللہ کے باوجود رسول ہونے کے میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ اس پر میں نے کہا اللہ کی قسم اب اس کے بعد میں کسی کی برات نہیں کروں گی اور مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا لیکن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان بن مظعون کی ایک نہر بہہ رہی ہے میں نے آکر حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اعمال ہیں یہ حدیث بخاری میں ہے مسلم میں نہیں اور اس کی ایک سند میں ہے میں نہیں جانتا باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ دل کو تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ موقعہ کے لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی یہ جملہ ہے کہ مجھے اس بات سے بڑا صدمہ ہوا۔ الغرض یہ حدیث اور اسی کی ہم معنی اور حدیثیں دلالت ہیں اس امر پر کہ کسی معین شخص کے جنتی ہونے کا قطعی علم کسی کو نہیں نہ کسی کو ایسی بات زبان سے کہنی چاہیے۔ بجز ان بزرگوں کے جن کے نام لے کر شارع ؑ نے انہیں جنتی کہا ہے جیسے عشرہ مبشرہ اور حضرت ابن سلام اور عمیصا اور بلال اور سراقہ اور عبداللہ بن عمرو بن حرام جو حضرت جابر کے والد ہیں اور وہ ستر قاری جو بیرمعونہ کی جنگ میں شہید کئے گئے اور زید بن حارثہ اور جعفر اور ابن رواحہ اور ان جیسے اور بزرگ ؓ اجمعین۔ پھر فرماتا ہے نبی تم کہہ دو کہ میں تو صرف اس وحی کا مطیع ہوں جو اللہ کی جناب سے میری جانب آئے اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں کہ کھول کھول کر ہر شخص کو آگاہ کر رہا ہوں ہر عقلمند میرے منصب سے باخبر ہے۔ واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 9 { قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ } ” اے نبی ﷺ ! ان سے یہ بھی کہیے کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں ہوں “ بِدْعًا کے معنی نیا نویلا یا نرالاہونے کے ہیں۔ لفظ ” بدعت “ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ بدعت سے اصطلاحاً وہ چیز مراد ہے جو اصل میں دین کا حصہ نہ ہو بلکہ کسی وجہ سے دین میں رائج کردی گئی ہو۔ بہر حال یہاں حضور ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ میرا رسول ﷺ بن کر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے ‘ بلکہ میں تو آخری رسول ﷺ ہوں۔ بہت سے رسول علیہ السلام مجھ سے پہلے بھی دنیا میں آ چکے ہیں۔ سورة آلِ عمران میں حضور ﷺ کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے : { وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } آیت 144 ” اور محمد ﷺ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ‘ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں “۔ سورة المائدۃ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں : { مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ } آیت 75 ” مسیح علیہ السلام ابن مریم اور کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ ایک رسول علیہ السلام تھے ‘ ان علیہ السلام سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔ “ { وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ } ” اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور نہ یہ کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ “ اس سے آخرت کا معاملہ مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ آخرت کے بارے میں تو آنحضور ﷺ کو بہت واضح انداز میں بتادیا گیا تھا : { وَلَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔ الضحیٰ یعنی آپ ﷺ کے لیے آخرت یقینا دنیا سے بہت بہتر ہوگی۔ بلکہ آیت زیر مطالعہ کا اشارہ اس کش مکش کی طرف ہے جو حضور ﷺ اور مشرکین مکہ کے درمیان مسلسل جاری تھی۔ جیسے حضور ﷺ ایک امیدلے کر طائف تشریف لے گئے تھے لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ آپ ﷺ کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ نبوت کے دسویں سال جب جناب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ کے اپنے قبیلے بنو ہاشم نے بھی آپ ﷺ سے اظہارِ براءت کردیا۔ اس کے بعد مکہ میں دنیوی اعتبار سے آپ ﷺ کا کوئی حلیف یا حمایتی نہ رہا۔ ان حالات میں آپ ﷺ طائف تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کا خیال تھا کہ اہل طائف میں سے اگر کوئی بڑا سردار ایمان لے آیا تو میں اپنی دعوت کا مرکز وہاں منتقل کرلوں گا۔ لیکن اہل طائف کا رویہ اہل ِمکہ ّسے بھی بدتر نکلا۔ لہٰذا مکہ کے ماحول میں جاری کشیدگی کے حوالے سے یہاں آپ ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ اس چپقلش کے اندر آئندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے کیا پیش آنے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ { اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ} ” میں تو بس اسی کی پیروی کر رہا ہوں جو میری طرف وحی کی جا رہی ہے ‘ اور میں نہیں ہوں مگر ایک کھلا خبردار کردینے والا۔ “
قل ما كنت بدعا من الرسل وما أدري ما يفعل بي ولا بكم إن أتبع إلا ما يوحى إلي وما أنا إلا نذير مبين
سورة: الأحقاف - آية: ( 9 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 503 )Surah Ahqaf Ayat 9 meaning in urdu
اِن سے کہو، "میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں، میں نہیں جانتا کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہونا ہے اور میرے ساتھ کیا، میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اور میں ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور) اپنے پروردگار کے محو دیدار ہوں گے
- بےشک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
- مومنو! تمہاری عورتیں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھی) ہیں سو ان سے
- وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے
- اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ
- ہر گز نہیں وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا
- اور اے قوم! میں اس (نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں
- وہ ان لوگوں کی نگاہ میں دور ہے
- پھر نوح کے بعد ہم نے اور پیغمبر اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔ تو
- تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لو گے
Quran surahs in English :
Download surah Ahqaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ahqaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ahqaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers