Surah Nisa Ayat 92 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ النساء کی آیت نمبر 92 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Nisa ayat 92 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾
[ النساء: 92]

Ayat With Urdu Translation

اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کردے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے ہاں اگر وہ معاف کردیں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لئے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا اور بڑی حکمت والا ہے

Surah Nisa Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یہ نفی، نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے جیسے ” وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ “ ( الأحزاب: 53 ) ” تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کو ایذا پہنچاو “ یعنی حرام ہے۔
( 2 ) غلطی کے اسباب ووجوہ متعدد ہو سکتے ہیں۔ مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہو جائے۔
( 3 ) یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چیزیں ہیں۔ ایک بطور کفّارہ واستغفار ہے۔ یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے ” دِيَةٌ “ ( خون بہا )۔ مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت ہے۔ اور دیت کی مقدار احادیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے، چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ ملحوظة: خیال رہے کہ قتل عمد میں قصاص یا دیت مغلظہ ہے اور دیتِ مغلظہ کی مقدار سو اونٹ ہے جو عمر اور وصف کے لحاظ سے تین قسم یا تین معیار کے ہوں گے۔ جب کہ قتل خطا میں صرف دیت ہے۔ قصاص نہیں ہے۔ اس دیت کی مقدار سو اونٹ ہے مگر معیار اتنا کڑا نہیں۔ علاوہ ازیں اس دیت کی قیمت سنن ابی داود کی حدیث میں دینار یا ہزار درہم اور ترمذی کی روایت میں بارہ ہزار درہم بتلائی گئی ہے۔ اسی طرح حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے اپنے دور خلافت میں قیمت دیت میں کمی بیشی اور مختلف پیشوں والوں کے اعتبار سے اس کی مختلف نوعیتیں مقرر فرمائی تھیں۔ ( ارواء الغلیل جلد: 8 ) جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دیت ( سو اونٹ ) کی بنیاد پر اس کی قیمت ہر دور کے اعتبار سے مقرر کی جائے گی۔ ( تفصیل کے لئے شروح حدیث وکتب فقہ ملاحظہ ہوں )
( 4 ) معاف کر دینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔
( 5 ) یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وراث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حق دار نہیں۔ بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس مسلمان نےاسلام قبول کرنے کے بعد چونکہ ہجرت نہیں کی، جب کہ ہجرت کی اس وقت بڑی تاکید تھی۔ اس کوتاہی کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے۔ ( فتح القدیر )
( 6 ) یہ ایک تیسری صورت ہے، اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے، بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد ( ذمی ) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔
( 7 ) یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار ( بغیر ناغہ کے ) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہوں گے۔ البتہ عذر شرعی کی وجہ سے ناغہ ہونے کی صورت میں نئے سرے سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو، سفر کے عذرشرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ ( ابن كثير )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


قتل مسلم، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا ارشاد ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں کہ کسی حال میں اپنے مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے صحیح میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے کی اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے کسی کو قتل کردیا ہو، دوسرے شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرے دین اسلام کو چھوڑ دینے والا جماعت سے علیحدہ ہونے والا۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ جب ان تینوں کاموں میں سے کوئی کام کسی سے واقع ہوجائے تو رعایا میں سے کسی کو اس کے قتل کا اختیار نہیں البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضا کا حق ہے، اس کے بعد استثناء منقطع ہے، عرب شاعروں کے کلام میں بھی اس قسم کے استثناء بہت سے ملتے ہیں، اس آیت کے شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابو جہل کا ماں کی طرف سے بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے بارے میں اتری ہے اس نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے وہ اسلام لانے کی وجہ سے سزائیں دے رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے لی، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا، حضرت عیاش ؓ کے دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے قتل کردوں گا اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہوگئے اور ہجرت بھی کرلی لیکن حضرت عیاش ؓ کو یہ معلوم نہ تھا، فتح مکہ والے دن یہ ان کی نظر پڑے یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں ان پر اچانک حملہ کردیا اور قتل کردیا اس پر یہ آیت اتری دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت ابو درداء ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ انہوں نے ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے قتل کر ڈالا، جب حضور ﷺ سے یہ واقعہ بیان ہوا تو حضرت ابو درداء ؓ نے اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے صرف جان بچانے کی غرض سے یہ کلمہ پڑھا تھا، آپ ناراض ہو کر فرمانے لگے کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے لیکن وہاں نام دوسرے صحابی کا ہے، پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے دیت دینا، اس غلام کے لئے بھی شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہوگا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہوگا جب تک کہ وہ اپنے ارادے سے ایمان کا قصد کرنے والا اور اتنی عمر کا نہ ہو، امام ابن جریر کا مختار قول یہ ہے کہ اگر اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوں تو جائز ہے ورنہ نہیں، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان ہونا شرط ہے چھوٹے بڑے کی کوئی قید نہیں، ایک انصاری سیاہ فام لونڈی کو لے کر حاضر حضور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ذمے ایک مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے آزاد کردوں، آپ نے اس لونڈی سے پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے کہا ہاں فرمایا کیا مرنے کے بعد جی اٹھنے کی بھی تو قائل ہے ؟ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو اس نے اسناد صحیح ہے اور صحابی کون تھے ؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں، یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے کہ آپ نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں ؟ جواب دیا آپ رسول اللہ ﷺ ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو۔ یہ ایماندار ہے پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے دوسرے خوں بہا دینا جو مقتول کے گھر والوں کو سونپ دیا جائے گا یہ ان کے مقتول کا عوض ہے یہ دیت سو اونٹ ہے پانچ سو قسموں کے، بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے اونٹ اور بیس تیسرے سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے خون بہا کا رسول ﷺ نے کیا ہے ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد۔ یہ حدیث بروایت حضرت عبداللہ موقوف بھی مروی ہے، حضرت علی ؓ اور ایک جماعت سے بھی یہی منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے یہ خون بہا قاتل کے عاقلہ اور اس کے عصبہ یعنی وارثوں کے بعد کے قریبی رشتہ داروں پر ہے اس کے اپنے مال پر نہیں امام شافعی فرماتے ہیں میرے خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں کہ حضور ﷺ نے دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے مذکور ہے امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ بہت سی ہیں، بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہوگیا اور وہ بھی مرگئی قصہ آنحضرت محمد ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے اور عورت مقتولہ کے بدلے دیت قاتلہ عورت کے حقیقی وارثوں کے بعد کے رشتے داروں کے ذمے ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے ہے۔ یعنی دیت کے اعتبار سے ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہوگی تین حصے ہونگے کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے بنو جذیمہ کی جنگ کے لئے حضرت خالد بن ولید ؓ کو حضور نے ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے جا کر انہیں دعوت اسلام دی انہوں نے دعوت تو قبول کرلی لیکن بوجہ لا علمی بجائے اسلمنا یعنی ہم مسلمان ہوئے کے " صبانا " کہا یعنی ہم بےدین ہوئے، حضرت خالد بن ولید ؓ نے انہیں قتل کرنا شروع کردیا جب حضور ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد کے اس فعل میں اپنی بیزاری اور برات تیرے سامنے ظاہر کرتا ہوں، پھر حضرت علی ؓ کو بلا کر انہیں بھیجا کہ جاؤ ان کے مقتولوں کی دیت چکاؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے بھی کوڑی کوڑی چکاؤ، اس سے ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہوگا۔ پھر فرمایا ہے کہ خوں بہا جو واجب ہے اگر اولیاء مقتول از خود اس سے دست بردار ہوجائیں تو انہیں اختیار ہے وہ بطور صدقہ کے اسے معاف کرسکتے ہیں۔ پھر فرمان ہے کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے اور اگر اس کے ولی وارث اس قوم میں سے ہوں جن سے تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے تو دیت دینی پڑے گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خون بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے نزدیک تو پوری دیت ہے بعض کے نزدیک آدھی بعض کے نزدیک تہائی، تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے کو آزاد کرنا بھی لازم ہے اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے نہ ہو تو اس کے ذمے دو مہینے کے روزے ہیں جو لگاتار پے درپے رکھنے ہوں گے اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا حیض یا نفاس کے بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے چھوڑ دیا تو پھر نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے، سفر کے بارے میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے دوسرے یہ کہ یہ عذر نہیں۔ پھر فرماتا ہے قتل خطا کی توبہ کی یہ صورت ہے کہ غلام آزاد نہیں کرسکتا تو روزے رکھ لے اور جسے روزوں کی بھی طاقت نہ ہو وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو ایک قول تو یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے جیسے کہ ظہار کے کفارے میں ہے، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لئے بیان نہیں کیا گیا کہ یہ ڈرانے اور خوف دلانے کا مقام ہے آسانی کی صورت اگر بیان کردی جاتی تو ہیبت و عظمت اتنی باقی نہ رہتی، دوسرا قول یہ ہے کہ روزے کے نیچے کچھ نہیں اگر ہوتا تو بیان کے ساتھ ہی بیان کردیا جاتا، حاجب کے وقت سے بیان کو موخر کرنا ٹھیک نہیں ( یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم ) اللہ علیم وحکیم ہے، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گذر چکی ہے۔ قتل عمداً اور قتل مسلم قتل خطا کے بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے یہ وہ گناہ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک کے ساتھ ملا دیا ہے فرماتا ہے ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 25۔ الفرقان:68) یعنی مسلمان بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں پکارتے اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے ہیں، دوسری جگہ فرمان ہے ( قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۚوَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ )الأنعام:151) یہاں بھی اللہ کے حرام کئے ہوئے کاموں کا ذکر کرتے ہیں شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں، بخاری مسلم میں ہے کہ سب سے پہلے خون کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا، ابو داؤد میں ہے ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے جب تک کہ خون ناحق نہ کرے اگر ایسا کرلیا تو تباہ ہوجاتا ہے، دوسری حدیث میں ہے ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل سے کم درجے کا ہے اور حدیث میں ہے اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے، اور حدیث میں ہے جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے، حضرت ابن عباس کا تو قول ہے کہ جس نے مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں تو ابن جیبر ابن عباس کے پاس آکر دریافت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں یہ آخری آیت ہے جسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا، اور آپ فرماتے ہیں کہ دوسری ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ) 25۔ الفرقان:68) جس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، پس جبکہ کسی شخص نے اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، حضرت مجاہد سے جب یہ قول عباس بیان ہوا تو فرمانے لگے مگر جو نادم ہو، سالم بن ابو الجعد فرماتے ہیں، حضرت ابن عباس جب نابینا ہوگئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اللہ کا اس پر غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لئے عذاب عظیم تیار ہے، اس نے پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے نیک عمل کرے اور ہدایت پر جم جائے تو ؟ فرمانے لگے اس کی ماں اسے روئے اسے توبہ اور ہدایت کہاں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے میں نے تمہارے نبی ﷺ سے بنا ہے اس کی ماں اسے روئے جس نے مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے وہ قیامت کے دن اسے دائیں یا بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے رحمن کے عرش کے سامنے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے کہے گا کہ اے اللہ اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ اس اللہ عظیم کی قسم جس کے ہاتھ میں عبداللہ کی جان ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور ﷺ کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری، اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ حضور ﷺ کے بعد کوئی وحی اترے گی حضرت زید بن ثابت، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبید بن عمیر، حسن، قتادہ، ضحاک بھی حضرت ابن عباس کے خیال کے ساتھ ہیں۔ ابن مردویہ میں ہے کہ مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا دوسرے ہاتھ سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ہوگا اور کہے گا میرے رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا پروردگار اس لئے کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے گا پس یہ میری راہ میں ہے۔ دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے لائے گا اور یہی کہے گا، قاتل جواباً کہے گا اس لئے کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے گا قاتل کا گناہ اس نے اپنے سر لے لیا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا جس گڑھے میں ستر سال تک تو نیچے چلا جائے گا۔ مسند احمد میں ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا۔ ابن مردویہ میں بھی ایسی ہی حدیث ہے اور وہ بالکل غریب ہے، محفوظ وہ حدیث ہے جو بحوالہ مسند بیان ہوئی۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے والا کافر ہے۔ یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔ حمید کہتے ہیں میرے پاس ابو العالیہ آئے میرے دوست بھی اس وقت میرے پاس تھے ہم سے کہنے لگے تم دونوں کم عمر اور زیادہ یادداشت والے ہو آؤ میرے ساتھ بشر بن عاصم کے پاس چلو جب وہاں پہنچے تو بشر سے فرمایا انہیں بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے سنانی شروع کی کہ عتبہ بن مالک لیثی نے کہا رسول ﷺ نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے پیچھے ایک لشکری بھاگا جب اس کے قریب ننگی تلوار لئے ہوئے پہنچ گیا تو اس نے کہا میں تو مسلمان ہوں۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی۔ اس واقعہ کی خبر حضور ﷺ کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی۔ ایک روز رسول اکرم ﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اس قاتل نے کہا حضور ﷺ اللہ کی قسم اس نے تو یہ بات محض قتل سے بچنے کے لئے کہی تھی آپ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیرلی اور خطبہ سناتے رہے۔ اس نے دوبارہ کہا آپ نے پھر منہ موڑ لیا، اس سے صبر نہ ہوسکا، تیسری باری کہا تو آپ نے اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے ٹپک رہی تھی، فرمانے لگے مومن کے قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں تین بار یہی فرمایا یہ روایت نسائی میں بھی ہے پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں دوسرا مذہب یہ کے کہ توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ اگر اس نے توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور مقتول کو اپنے پاس سے عوض دے کر اسے راضی کرلے گا اللہ فرماتا ہے ( اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَــنَّةَ وَلَا يُظْلَمُوْنَ شَـيْــــــًٔا ) 19۔ مریم :60) یہ خبر اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں اور اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں اور اس آیت کو مومنوں کے بارے میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39۔ الزمر:53) اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ پر محیط ہے خواہ کفر و شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو، جو اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ اس کی طرف مائل ہوگا جو توبہ کرے اللہ اسے معاف فرمائے گا۔ فرماتا ہے ( اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ) 39۔ الزمر:53) اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں اس کے سوا کے تمام گناہ جسے چاہے بخش دے۔ اللہ اس کی کریمی کے صدقے جائیے کہ اس نے اسی سورت میں اس آیت سے پہلے بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے ہیں اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے بعد ہی اسے دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تاکہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے کامل امید بندہ جائے واللہ اعلم۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ ایک بنی اسرائیلی نے ایک سو قتل کئے تھے۔ پھر ایک عالم سے پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے جو حائل ہے ؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر میں بسو چناچہ اس نے ہجرت کی مگر راستے میں ہی فوت ہوگیا اور رحمت کے فرشتے اسے لے گئے یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ ہوچکی ہے جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے تو اس امت مرحومہ کے لئے قاتل کی توبہ کے لئے دروازے بند کیوں ہوں ؟ ہم پر تو پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے اللہ نے ہمیں آزاد کردیا اور رحمتہ اللعالمین جیسے سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے اس سے مرادیہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سزا ضرور دی جائے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے لیکن سنداً وہ صحیح نہیں اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے مقابل میں نہیں تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے اور یہی طریقہ وعید کے بارے میں ہمارے نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب، اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا۔ چاہے اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے یا اس کے متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے معاف فرما دے۔ اس میں " عسی " ترجی کا مسئلہ ہے ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی امید گو اٹھ جائے پھر بھی وقوع پذیر ہوتا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے ایک بھی ممکن نہیں اور وہ قتل ہے، کیونکہ شرک وکفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے ثابت ہوچکا اور جو حدیثیں گذریں جن میں قاتل کو مقتول لے کر آئے گا وہ بالکل ٹھیک ہیں چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسان ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لئے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں۔ ممکن ہے کہ قاتل کے اور سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دئیے جائیں یا بعض دے دئیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حور و قصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگذر کرنے پر خوش ہوجائے اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے وغیرہ۔ واللہ اعلم۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے والے کے لئے کچھ تو دنیوی احکام ہیں اور کچھ اخروی۔ دنیا میں تو اللہ نے مقتول کے ولیوں کو اس پر غلیہ دیا ہے فرماتا ہے ( آیت ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا الخ، ) جو ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے پیچھے والوں کو غلبہ دیا ہے کہ انہیں اختیار ہے کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کردیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کرلیں اور اس کے جرمانہ میں سختی ہے جو تین قسموں پر مشتمل ہے۔ تیس تو چوتھے سال کی عمر میں لگے ہوئے اونٹ، تیس پانچویں سال میں لگے ہوئے، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے کہ کتب احکام میں ثابت ہیں، اس میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے پے درپے روزے رکھے یا کھانا کھلانا ہے یا نہیں ؟ پس امام شافعی اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے کہ جب خطا میں یہ حکم ہے تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہئے اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے کفارے کو پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضا قرار دیا ہے جیسے کہ اس پر اجماع ہے خطا میں، امام احمد کے اصحاب اور دوسرے کہتے ہیں قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے۔ اس لئے اس یعنی کفارہ نہیں اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے لئے ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے کی کوئی راہ نہیں، اسلئے کہ یہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث بھی ہے جو مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کیا تم قرآن لے کر پڑھتے ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا حضرت ہمارا مطلب یہ ہے کہ خود رسول ﷺ سے آپ نے جو سنی ہو کہا ہم حضور ﷺ کے پاس اپنوں میں سے ایک آدمی کی بابت حاضر ہوئے جس نے بوجہ قتل کے اپنے تئیں جہنمی بنا لیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو اس کے ایک ایک عضو کے بدلہ اس کا ایک ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد کردے گا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


اب ایک اور معاشرتی مسئلہ آ رہا ہے۔ اس وقت در اصل پورے عرب کے اندر ایک بھٹی دہک رہی تھی ‘ جگہ جگہ جنگیں لڑی جا رہی تھیں ‘ میدان لگ رہے تھے ‘ معرکے ہو رہے تھے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں تو صرف بڑے بڑے معرکوں اور غزوات کا ذکر ہوا ہے مگر حقیقت میں اس وقت پورا معاشرہ حالت جنگ میں تھا۔ ایک چومکھی جنگ تھی جو مسلسل جاری تھی۔ ان آیات سے اس وقت کے عرب معاشرے کی اصل صورت حال اور اس قبائلی معاشرے کے مسائل کی بہت کچھ عکاسی ہوتی ہے۔ اس طرح کے ماحول میں فرض کریں ‘ ایک شخص نے کسی دوسرے کو قتل کردیا۔ قاتل اور مقتول دونوں مسلمان ہیں۔ قاتل کہتا ہے کہ میں نے عمداً ایسا نہیں کیا ‘ میں نے تو شکار کی غرض سے تیر چلایا تھا مگر اتفاق سے نشانہ چوک گیا اور اس کو جا لگا۔ تو اب یہ مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا دو طرح کا ہوسکتا ہے ‘ قتل عمد یا قتل خطا۔ یہاں اس بارے میں وضاحت فرمائی گئی ہے۔آیت 92 وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا الاَّ خَطَءًاج خطا کے طور پر قتل کیا ہے ؟ نشانہ چوک گیا اور کسی کو جا لگا یاسڑک پر حادثہ ہوگیا ‘ کوئی شخص گاڑی کے نیچے آکر مرگیا۔ آپ تو اسے مارنا نہیں چاہتے تھے ‘ بس یہ سب کچھ آپ سے اتفاقی طور پر ہوگیا۔ چناچہ سعودی عرب میں حادثات کے ذریعے ہونے و الی اموات کے فیصلے اسی قانون قتل خطا کے تحت ہوتے ہیں۔ وہ قانون کیا ہے :وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ اور جو شخص کسی مؤمن کو قتل کر دے غلطی سے تو اس کے ذمہ ہے ایک مسلمان غلام کی گردن کا آزاد کرانا وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَہْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا ط“یعنی قتل خطا کے بدلے میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ دیت یعنی خون بہا ادا کیا جائے گا ‘ یہ مقتول کے ورثاء کا حق ہے۔ اور گناہ کے کفّارے کے طور پر ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہوگا ‘ یہ اللہ کا حق ہے۔ فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُم وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ط“کیونکہ کافر قبیلے کا آدمی تھا اور اگر اس کی دیت دی جائے گی تو وہ اس کے گھر والوں کو ملے گی جو کہ کافر ہیں ‘ لہٰذا یہاں دیت معاف ہوگئی ‘ لیکن ایک غلام کو آزاد کرنا جو اللہ کا حق تھا ‘ وہ برقرار رہے گا۔ وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ اور اگر وہ مقتول ہو کسی ایسی قوم سے جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الآی اَہْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ ج گویا یہ دو حق الگ الگ ہیں۔ ایک تو دیت ہے جو مقتول کے ورثاء کا حق ہے ‘ اس میں یہاں رعایت نہیں ہوسکتی ‘ البتہ جو حق اللہ کا اپنا ہے یعنی گناہ کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا ‘ تو اس میں اللہ نے نرمی کردی ‘ جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

وما كان لمؤمن أن يقتل مؤمنا إلا خطأ ومن قتل مؤمنا خطأ فتحرير رقبة مؤمنة ودية مسلمة إلى أهله إلا أن يصدقوا فإن كان من قوم عدو لكم وهو مؤمن فتحرير رقبة مؤمنة وإن كان من قوم بينكم وبينهم ميثاق فدية مسلمة إلى أهله وتحرير رقبة مؤمنة فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين توبة من الله وكان الله عليما حكيما

سورة: النساء - آية: ( 92 )  - جزء: ( 5 )  -  صفحة: ( 93 )

Surah Nisa Ayat 92 meaning in urdu

کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، الا یہ کہ اُس سے چوک ہو جائے، اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خونبہا دے، الا یہ کہ وہ خونبہا معاف کر دیں لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا جس سے تمہاری دشمنی ہو تو اس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو خون بہا دیا جائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا پھر جو غلام نہ پائے وہ پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و دانا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu


Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
surah Nisa Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Nisa Bandar Balila
Bandar Balila
surah Nisa Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Nisa Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Nisa Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Nisa Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Nisa Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Nisa Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Nisa Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Nisa Fares Abbad
Fares Abbad
surah Nisa Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Nisa Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Nisa Al Hosary
Al Hosary
surah Nisa Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Nisa Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, December 22, 2024

Please remember us in your sincere prayers