Surah waqiah Ayat 92 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ﴾
[ الواقعة: 92]
اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے
Surah waqiah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغازسورت میں أَصْحَابُ الْمَشْئَمَة ِکہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر ونفاق کی سزا یا اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
احوال موت یہاں وہ احوال بیان ہو رہے ہیں جو موت کے وقت سکرات کے وقت دنیا کی آخری ساعت میں انسانوں کے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا اللہ کا مرقب ہے یا اس سے کم درج کا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔ یا بالکل بدنصیب ہے جو اللہ سے جاہل رہا اور راہ حق سے غافل رہا۔ فرماتا ہے کہ جو مقربین بارگاہ الٰہی ہیں، جو احکام کے عامل تھے، نافرمانیوں کے تارک تھے انہیں تو فرشتے طرح طرح کی خوشخبریاں سناتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے براء کی حدیث گذری کہ رحمت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں اے پاک روح پاک جسم والی روح چل راحت و آرام کی طرف چل کبھی نہ ناراض ہونے والے رحمن کی طرف۔ روح سے مرد راحت ہے اور ریحان سے مراد آرام ہے۔ غرض دنیا کے مصائب سے راحت مل جاتی ہے ابدی سرور اور سچی خوشی اللہ کے غلام کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے وہ ایک فراخی اور وسعت دیکھتا ہے اس کے سامنے رزق اور رحمت ہوتی ہے وہ جنت عدن کی طرف لپکتا ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں جنت کی ایک ہری بھری شاخ آتی ہے اور اس وقت مقرب اللہ کی روح قبض کی جاتی ہے۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں مرنے سے پہلے ہی ہر مرنے والے کو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے ( یا اللہ ! ہمارے اس وقت میں تو ہماری مدد کر ہمیں ایمان سے اٹھا اور اپنی رضامندی کی خوشخبری سنا کر سکون و راحت کے ساتھ یہاں سے لے جا آمین ) گو سکرات کے وقت کی احادیث ہم سورة ابراہیم کی آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ 27 ) 14۔ ابراھیم :27) ، کی تفسیر میں وارد کرچکے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کا بہترین موقعہ ہے اس لئے یہاں ایک ٹکڑا بیان کرتے ہیں۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ حضرت ملک الموت ؑ سے فرماتا ہے میرے فلاں بندے کے پاس جا اور اسے میرے دربار میں لے آ میں نے اسے رنج راحت و آرام تکلیف خوشی ناخوشی غرض ہر آزمائش میں آزما لیا اور اپنی مرضی کے مطابق پایا بس اب میں اسے ابدی راحت دینا چاہتا ہوں جا اسے میرے خاص دربار میں پیش کر۔ ملک الموت پانچ سو رحمت کے فرشتے اور جنت کے کفن اور جنتی خوشبوئیں ساتھ لے کر اس کے پاس آتے ہیں گو ریحان ایک ہی ہوتا ہے لیکن سرے پر بیس قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کی جداگانہ مہک ہوتی ہے سفید ریشم ساتھ ہوتا ہے جس میں مشک کی لپٹیں آتی ہیں، الخ۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ کی قرأت فروح رے کے پیش سے تھی۔ لیکن تمام قاریوں کی قرأت رے کے زبر سے ہے یعنی فروح مسند میں ہے حضرت ام ہانی نے رسول مقبول ؑ سے پوچھا کیا مرنے کے بعد ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے ؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا روح ایک پرند ہوجائے گی جو درختوں کے میوے چگے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اس وقت اپنے اپنے جسم میں چلی جائیگی، اس حدیث میں ہر مومن کے لئے بہت بڑی بشارت ہے۔ مسند احمد میں بھی اس کی شاہد ایک حدیث ہے جس کی اسناد بہت بہتر ہے اور متن بھی بہت قوی ہے اور صحیح روایت میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں، ساری جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی رہتی ہیں اور عرش تلے لٹکی ہوئی قندیلوں میں آ بیٹھتی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابو یعلی ایک جنازے میں گدھے پر سوار جا رہے تھے آپ کی عمر اس وقت بڑھاپے کی تھی سر اور داڑھی کے بال سفید تھے اسی اثناء میں آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو برا جانتا ہے اللہ بھی اس کی ملاقات سے کراہت کرتا ہے صحابہ یہ سن کر سر جھکائے رونے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا روتے کیوں ہوں ؟ صحابہ نے کہا حضور ﷺ بھلا موت کون چاہتا ہے ؟ فرمایا سنو سنو مطلب سکرات کے وقت سے ہے اس وقت نیک مقرب بندے کو تو راحت و انعام اور آرام دہ جنت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جس پر وہ تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جلد اللہ سے ملے تاکہ ان نعمتوں سے مالا مال ہوجائے پس اللہ بھی اس کی ملاقات کی تمنا کرتا ہے اور اگر بد بندہ ہے تو اسے موت کے وقت گرمی پانی اور جہنم کی مہمانی کی خبر دی جاتی ہے جس سے یہ بیزار نہ ہوؤں پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر وہ سعادت مندوں سے ہے تو موت کے فرشتے اسے سلام کہتے ہیں تجھ پر سلامتی ہو تو اصحاب یمین میں سے ہے، اللہ کے عذاب سے تو سلامتی پائے گا اور خود فرشتے بھی اسے سلام کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَـقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ 13ۚ ) 46۔ الأحقاف :13) یعنی سچے پکے توحید والوں کے پاس ان کے انتقال کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارت دیتے ہیں کہ کچھ ڈر خوف نہیں کچھ رنج غم نہ کر جنت تیرے لئے حسب وعدہ تیار ہے، دنیا اور آخرت میں ہم تیری حمایت کے لئے موجود ہیں جو تمہارا جی چاہے تمہارے لئے موجود ہے جو تمنا تم کرو گے پوری ہو کر رہے گی، غفور و رحیم اللہ کے تم ذی عزت مہمان ہو۔ بخاری میں ہے یعنی تیرے لئے مسلم ہے کہ تو اصحاب یمین میں سے ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سلام یہاں دعا کے معنی میں ہو، واللہ اعلم اور اگر مرنے والا حق کی تکذیب کرنے والا اور ہدایت سے کھویا ہوا ہے تو اس کی ضیافت اس گرم حمیم سے ہوگی جو آنتیں اور کھال تک جھلسا دے پھر چاروں طرف سے جہنم کی آگ گھیر لے گی جس میں جلتا بھنتا رہے گا۔ پھر فرمایا یہ یقینی باتیں ہیں جن کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ پس اپنے بڑے رب کے نام کی تسبیح کرتا رہے۔ مسند میں ہے اس آیت کے اترنے پر آپ نے فرمایا اسے رکوع میں رکھو اور آیت ( سبح اسم ربک الاعلی ) اترنے پر فرمایا اسے سجدے میں رکھو۔ آپ فرماتے ہیں جس نے حدیث ( سبحان اللہ العظیم وبحمدہ ) کہا اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگایا جاتا ( ترمذی ) صحیح بخاری شریف کے ختم پر یہ حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں میزان میں بوجھ ہیں اللہ کو بہت پیارے ہیں۔ دعا ( سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ) الحمد للہ سورة واقعہ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ قبول فرمائے ( اور ہمارے کل واقعات کا انجام بھلا کرے۔ )
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 92{ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ۔ } ” اور اگر وہ تھا جھٹلانے والوں اور گمراہوں میں سے۔ “ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قبل ازیں دوسرے رکوع میں جب اس گروہ کا ذکر ہوا تو وہاں ان لوگوں کو ” اَیُّھَا الضَّآلُّـــوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ “ کہہ کر مخاطب فرمایا گیا تھا ‘ لیکن یہاں پر انہیں ” الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ “ کہا گیا ہے۔ یعنی یہاں پر الفاظ کی ترتیب بدل گئی ہے۔ بظاہر اس کی توجیہہ یہ سمجھ آتی ہے کہ سزا کے حوالے سے ان کے بڑے اور اصل جرم کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ حق کو جھٹلا دینے کے مقابلے میں گمراہی نسبتاً چھوٹا جرم ہے ‘ کیونکہ کسی گمراہ اور بھٹکے ہوئے شخص کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھا دے تو ممکن ہے وہ اسے قبول کرلے۔ لیکن جو حق کو جھٹلا دے اس کا سیدھے راستے پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔
Surah waqiah Ayat 92 meaning in urdu
اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو ان کی قوم کے لوگ (بولے تو) یہ بولے اور اس کے سوا ان
- اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی
- وہی جان بخشتا اور (وہی) موت دیتا ہے اور تم لوگ اسی کی طرف لوٹ
- جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ
- (اے پیغمبر) اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے۔
- اور ان (اہلِ کتاب) میں بعضے ایسے ہیں کہ کتاب (تورات) کو زبان مروڑ مروڑ
- اور جب انہوں نے کہا کہ اے خدا اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق
- سو جیسے (برے) دن ان سے پہلے لوگوں پر گزر چکے ہیں اسی طرح کے
- اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور
- ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا اور ان کی حالت درست کر دے گا
Quran surahs in English :
Download surah waqiah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah waqiah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter waqiah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers