Surah Taubah Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ توبہ کی آیت نمبر 1 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Taubah ayat 1 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ﴾
[ التوبة: 1]

Ayat With Urdu Translation

(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے

Surah Taubah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت ابو بکر صدیق ( رضي الله عنه )، حضرت علی ( رضي الله عنه ) اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے فرمان کے مطابق اعلان کر دیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی ہی اجازت نہیں ہوگی ( صحيح بخاري كتاب الصلاة، باب ما يستر من العورة، مسلم كتاب الحج باب لا يحج البيت مشرك )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


یہ سورت سب سے آخر رسول ﷺ پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر ( آیت یسفتونک الخ، ) اتری اور سب سے آخری سورت سورة براۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورة انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورة براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ ﷺ پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔ سورة انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورة براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا اور آپ ﷺ نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کردیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورة براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کردیں۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی ؓ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے۔ انشاء اللہ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔ جیسے فرمان ہے کہ ( فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ )التوبة:4) ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اوراقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہوچکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کردی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور ﷺ کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ009ھ کا ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کردیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ ﷺ کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابوبکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہوسکتی ہے ؟

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


تمہیدی کلمات سورۃ التوبہ کئی خطبات پر مشتمل ہے اور ان میں سے ہر خطبہ الگ پس منظر میں نازل ہوا ہے۔ جب تک ان مختلف خطبات کے پس منظر اور زمانۂ نزول کا الگ الگ تعین درست انداز میں نہ ہوجائے ‘ متعلقہ آیات کی درست توضیح و تشریح کرنا ممکن نہیں۔ چناچہ جن لوگوں نے اس سورت کی تفسیر کرتے ہوئے پوری احتیاط سے تحقیق نہیں کی ‘ وہ خود بھی مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کا باعث بنے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سورت قرآن حکیم کی مشکل ترین سورت ہے اور اس کی تفہیم کے لیے انتہائی محتاط تحقیق اور گہرے تدبر کی ضرورت ہے۔سورۃ التوبہ اور حضور ﷺ کی بعثت کے دو پہلو : محمد رسول اللہ ﷺ سے قبل ہر پیغمبر کو ایک خاص علاقے اور خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ‘ مگر آپ ﷺ اپنی قوم بنواسماعیل کی طرف بھی رسول بن کر آئے اور قیامت تک کے لیے پوری دنیا کے تمام انسانوں کی طرف بھی۔ یہ فضیلت تمام انبیاء و رسل میں صرف آپ ﷺ کے لیے مخصوص ہے کہ آپ ﷺ کو دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا ‘ ایک بعثت خصوصی اور دوسری بعثت عمومی۔ آپ ﷺ کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے سورة التوبة کی آیات میں بھی ایک بڑی خوبصورت تقسیم ملتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس سورت کے بھی بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ آپ ﷺ کی۔ بعثت کے خصوصی پہلو سے متعلق ہے ‘ جبکہ دوسرے حصے کا تعلق آپ ﷺ کی بعثت کے عمومی پہلو سے ہے۔ چناچہ سورت کے ان دونوں حصوں کے موضوعات و مضامین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حضور ﷺ کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے فلسفے کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔حضور ﷺ کی بعثت خصوصی : محمد عربی ﷺ کی خصوصی بعثت مشرکین عرب یا بنو اسماعیل کی طرف تھی۔ آپ ﷺ کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا اور آپ ﷺ نے ان لوگوں کے اندر رہ کر ‘ خود ان کی زبان میں ‘ اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا اور ان پر آخری حد تک اتمام حجت بھی کردیا۔ اسی ضمن میں پھر مشرکین عرب پر اللہ کے اس قدیم قانون کا نفاذ بھی عمل میں آیا کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ رسول اپنی دعوت کے سلسلے میں اس قوم پر اتمام حجت کر دے ‘ پھر اگر وہ قوم اپنے رسول کی دعوت کو رد کر دے تو اس پر عذاب استیصال مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرکین عرب پر عذاب استیصال کی نوعیت معروضی حالات کے پیش نظر پہلی قوموں کے مقابلے میں مختلف نظر آتی ہے۔ اس عذاب کی پہلی قسط غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کی ہزیمت و شکست کی صورت میں سامنے آئی جبکہ دوسری اور آخری قسط کا ذکر اس سورت کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ بہر حال اپنی بعثت خصوصی کے حوالے سے حضور ﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کردیا ‘ اور وہاں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں اقامت دین کا عملی نقشہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگیا۔ حضور ﷺ کی بعثت عمومی : نبی اکرم ﷺ کی بعثت عمومی پوری انسانیت کی طرف قیامت تک کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں دعوت کا آغاز آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ 6 ہجری کے بعد فرمایا۔ اس سے پہلے آپ ﷺ نے کوئی مبلغ یا داعی عرب سے باہر نہیں بھیجا ‘ بلکہ تب تک آپ ﷺ نے اپنی پوری توجہ جزیرہ نمائے عرب تک مرکوز رکھی اور اپنے تمام وسائل اسی خطہ میں دین کو غالب کرنے کے لیے صرف کیے۔ لیکن جونہی آپ ﷺ کو اس سلسلے میں ٹھوس کامیابی ملی ‘ یعنی قریش نے آپ ﷺ کو بطور فریق ثانی کے تسلیم کر کے آپ ﷺ سے صلح کرلی ‘ قرآن نے سورة الفتح کی پہلی آیت میں اس صلح کو فتح مبین“ قرار دیا ہے تو آپ ﷺ نے اپنی بعثت عمومی کے تحت دعوت کا آغاز کرتے ہوئے عرب سے باہر مختلف سلاطین و امراء کی طرف خطوط بھیجنے شروع کردیے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے جن فرمانرواؤں کو خطوط لکھے ‘ ان میں قیصر روم ‘ ایران کے بادشاہ کسریٰ ‘ مصر کے بادشاہ مقوقس اور حبشہ کے فرمانروا نجاشی یہ عیسائی حکمران اس نجاشی کا جانشین تھا جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ‘ اور جن کی غائبانہ نماز جنازہ حضور ﷺ نے خود پڑھائی تھی کے نام شامل ہیں۔ [ نوٹ : ماضی قریب میں یہ چاروں خطوط اصل متن کے ساتھ اصل شکل میں دریافت ہوچکے ہیں۔ ] آپ ﷺ کے انہی خطوط کے ردِّ عمل کے طور پر سلطنت روما کے ساتھ مسلمانوں کے ٹکراؤ کا آغاز ہوا ‘ جس کا نتیجہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں جنگ موتہ اور غزوۂ تبوک کی صورت میں نکلا۔ بہر حال ان تمام حالات و واقعات کا تعلق آپ ﷺ کی بعثت عمومی سے ہے ‘ جس کی دعوت کا آغاز آپ ﷺ کی زندگی مبارک ہی میں ہوگیا تھا ‘ اور پھر خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے واضح طور پر یہ فریضہ امت کے ہر فرد کی طرف منتقل فرما دیا۔ چناچہ اب تا قیام قیامت آپ ﷺ پر ایمان رکھنے والا ہر مسلمان دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کے لیے محنت و کوشش کا مکلف ہے۔موضوعات : مضامین و موضوعات کے حوالے سے یہ سورت دو حصوں پر مشتمل ہے ‘ جن کی تفصیل درج ذیل ہے :حصہ اول : یہ حصہ سورت کے پہلے پانچ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق رسول اللہ ﷺ کی بعثت خصوصی کے تکمیلی مرحلے سے ہے۔ آیات کی ترتیب کے مطابق اگرچہ یہ پانچ رکوع بھی مزید تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ‘ مگر موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ حصہ ہمیں دو خطبات پر مشتمل نظر آتا ہے ‘ جن کا الگ الگ تعارف ذیل کی سطور میں دیا جا رہا ہے۔پہلا خطبہ : پہلا خطبہ دوسرے اور تیسرے رکوع پر مشتمل ہے اور یہ فتح مکہ 8 ہجری سے پہلے نازل ہوا۔ ان آیات میں مسلمانوں کو فتح مکہ کے لیے نکلنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بہت نازک اور حساس تھا۔ مسلمان مہاجرین کی مشرکین مکہ کے ساتھ براہ راست قریبی رشتہ داریاں تھیں ‘ ان کے خاندان اور قبیلے مشترک تھے ‘ حتیٰ کہ بہت سے مسلمانوں کے اہل و عیال مکہ میں موجود تھے۔ کچھ غریب ‘ بےسہارا مسلمان ‘ جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اب سوال یہ تھا کہ اگر جنگ ہوگی ‘ مکہ پر حملہ ہوگا تو ان سب کا کیا بنے گا ؟ کیا گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا ؟ دوسری طرف قریش مکہ کا بظاہر یہ اعزاز بھی نظر آتا تھا کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے اور حجاج کی خدمت کرتے تھے۔ اس حوالے سے کہیں سادہ دل مسلمان اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے تو کہیں منافقین ان سوالات کی آڑ لے کر لگائی بجھائی میں مصروف تھے۔ چناچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پس منظر مدنظر رہنا چاہیے۔دوسرا خطبہ : دوسرا خطبہ پہلے ‘ چوتھے اور پانچویں رکوع پر مشتمل ہے اور یہ ذوالقعدہ 9 ہجری کے بعد نازل ہوا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس میں سے پہلی چھ آیات کو مقدم کر کے سورت کے آغاز میں لایا گیا ہے۔ یہ وہی آیات ہیں جن کے ساتھ حضور ﷺ نے حضرت علی رض کو قافلۂ حج کے پیچھے بھیجا تھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ 9 ہجری میں حضور ﷺ خود حج پر تشریف نہیں لے گئے تھے ‘ اس سال آپ ﷺ نے حضرت ابو بکرصدیق رض کو امیرحج بنا کر بھیجا تھا۔ حج کا یہ قافلہ ذوالقعدہ 9 ہجری میں روانہ ہوا اور اس کے روانہ ہونے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رض کو بھیجا کہ حج کے موقع پر علی الاعلان یہ احکامات سب کو سنا دیے جائیں۔ سن 9 ہجری کے اس حج میں مشرکین مکہ بھی شامل تھے۔ چناچہ وہاں حج کے اجتماع میں حضرت علی رض نے یہ آیات پڑھ کر سنائیں ‘ جن کے تحت مشرکین کے ساتھ ہر قسم کے معاہدے سے اعلان براءت کردیا گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ مشرکین عرب کے لیے چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیا گیا کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایمان لانا چاہیں تو لے آئیں ‘ ورنہ ان کا قتل عام ہوگا۔ یہ آیات چونکہ قرآن کریم کی سخت ترین آیات ہیں ‘ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے پس منظر کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ احکامات دراصل اس عذاب استیصال کے قائم مقام ہیں جو قوم نوح علیہ السلام ‘ قوم ہود علیہ السلام ‘ قوم صالح علیہ السلام ‘ قوم شعیب ‘ علیہ السلام قوم لوط علیہ السلام اور آل فرعون پر آیا تھا۔ ان تمام قوموں پر عذاب استیصال اللہ کے اس اٹل قانون کے تحت آیا تھا جس کا ذکر قبل ازیں بھی ہوچکا ہے۔ اس قانون کے تحت مشرکین مکہ اب عذاب استیصال کے مستحق ہوچکے تھے ‘ اس لیے کہ حضور ﷺ نے انہی کی زبان میں اللہ کے احکامات ان تک پہنچا کر ان پر حجت تمام کردی تھی۔ اس سلسلے میں اللہ کی مشیت کے مطابق ان کو جو مہلت دی گئی تھی وہ بھی ختم ہوچکی تھی۔ چناچہ ان پر عذاب استیصال کی پہلی قسط میدان بدر میں نازل کی گئی اور دوسری اور آخری قسط کے طور پر اب انہیں الٹی میٹم دے دیا گیا کہ تمہارے پاس سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے صرف چار ماہ ہیں۔ اس مدت میں ایمان لانا چاہو تو لے آؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ اس حکم کے اندر ان کے لیے یہ آپشن خود بخود موجود تھا کہ وہ چاہیں تو جزیرہ نمائے عرب سے باہر بھی جاسکتے ہیں ‘ مگر اب اس خطہ کے اندر وہ بحیثیت مشرک کے نہیں رہ سکتے ‘ کیونکہ اب جزیرہ نمائے عرب کو شرک سے بالکل پاک کردینے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت خصوصی کی تکمیلی شان کے ظہور کا وقت آن پہنچا تھا۔ایک اشکال کی وضاحت : یہاں ایک اشکال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ آیات کی موجودہ ترتیب خطبات کی زمانی ترتیب کے بالکل برعکس ہے۔ جو خطبہ پہلے 8 ہجری میں نازل ہوا ہے وہ سورت میں دوسرے رکوع سے شروع ہو رہا ہے ‘ جبکہ بعد 9 ہجری میں نازل ہونے والی آیات کو مقدم کر کے ان سے سورت کا آغاز کیا گیا ہے۔ پھر یہ دوسرا خطبہ بھی آیات کی ترتیب کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اس کی ابتدائی چھ آیات پہلے رکوع میں آگئی ہیں ‘ جبکہ بقیہ آیات چوتھے اور پانچویں رکوع میں ہیں۔ دراصل ترتیب آیات میں اس پیچیدگی کی وجہ قرآن کا وہ خاص اسلوب ہے جس کے تحت کسی انتہائی اہم بات کو موضوع کی منطقی اور روایتی ترتیب میں سے نکال کر شہ سرخی head line کے طور پر پہلے بیان کردیا جاتا ہے۔ اس اسلوب کو سمجھنے کے لیے سورة الأنفال کے آغاز کا انداز ذہن میں رکھیے۔ وہاں مال غنیمت کا مسئلہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا ‘ جس پر تفصیلی بحث تو بعد میں ہونا مقصود تھی ‘ لیکن اس ضمن میں بنیادی اصول سورت کی پہلی آیت میں بیان کردیا گیا اور مسئلے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع سے سورت کا آغاز فرمایا گیا۔ بالکل اسی انداز میں اس سورت کا آغاز بھی ایک انتہائی اہم مسئلے کے بیان سے کیا گیا ‘ البتہ اس مسئلے کی بقیہ تفصیل بعد میں چوتھے اور پانچویں رکوع میں بیان ہوئی۔ حصہ دوم : اس سورت کا دوسرا حصہ چھٹے رکوع سے لے کر آخر تک گیارہ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق حضور ﷺ کی بعثت عمومی سے ہے۔ اس لیے کہ اس حصے کا مرکزی موضوع غزوۂ تبوک ہے اور غزوۂ تبوک تمہید تھی ‘ اس جدوجہد کی جس کا آغاز اقامت دین کے سلسلے میں جزیرہ نمائے عرب سے باہر بین الاقوامی سطح پر ہونے والا تھا۔ اِن گیارہ رکوعوں میں سے ابتدائی چار رکوع تو وہ ہیں جو غزوۂ تبوک کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے سے متعلق ہیں ‘ چند آیات وہ ہیں جو تبوک جاتے ہوئے دوران سفر نازل ہوئیں ‘ چند آیات تبوک میں قیام کے دوران اور چندتبوک سے واپسی پر راستے میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ ان میں چند آیات ایسی بھی ہیں جو تبوک سے واپسی کے بعد نازل ہوئیں۔ آیت 1 بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے تمام معاہدے ختم کرنے کا دو ٹوک الفاظ میں اعلان ہے جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کر رکھے تھے۔ یہ اعلان چونکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا اور قطعی categorical انداز میں کیا گیا تھا ‘ اس لیے اس کے ساتھ کچھ شرائط یا استثنائی شقوں کا ذکر بھی کیا گیا جن کی تفصیل آئندہ آیات میں آئے گی۔ سورة التوبة کے ضمن میں ایک اور بات لائق توجہ ہے کہ یہ قرآن کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم“ نہیں لکھی جاتی۔ اس کا سبب حضرت علی رض نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ سورت تو ننگی تلوار لے کر یعنی مشرکین کے لیے قتل عام کا اعلان لے کر نازل ہوئی ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی صفات کے ساتھ اس کے مضامین کی مناسبت نہیں ہے۔

براءة من الله ورسوله إلى الذين عاهدتم من المشركين

سورة: التوبة - آية: ( 1 )  - جزء: ( 10 )  -  صفحة: ( 187 )

Surah Taubah Ayat 1 meaning in urdu

اعلان برات ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (یعنی جن کو) خدا کے سوا (پوجا کرتے تھے) پھر ان کو جہنم کے رستے
  2. اور اے قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ
  3. بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے
  4. جس چیز کے بدلے انہوں نے اپنے تئیں بیچ ڈالا، وہ بہت بری ہے، یعنی
  5. اور جو آگے بڑھنے والے ہیں (ان کا کیا کہنا) وہ آگے ہی بڑھنے والے
  6. (یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا
  7. (خدا) فرمائے گا کہ ہمارے حضور میں ردوکد نہ کرو۔ ہم تمہارے پاس پہلے ہی
  8. پھر لوگوں میں سے کسی نے تو اس کتاب کو مانا اور کوئی اس سے
  9. اور اگر تم سے کافر لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کو
  10. اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
surah Taubah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Taubah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Taubah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Taubah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Taubah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Taubah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Taubah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Taubah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Taubah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Taubah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Taubah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Taubah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Taubah Al Hosary
Al Hosary
surah Taubah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Taubah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers