Surah Jasiah Ayat 25 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾
[ الجاثية: 25]
اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کی یہی حجت ہوتی ہے کہ اگر تم سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو (زندہ کر) لاؤ
Surah Jasiah UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
زمانے کو گالی مت دو دہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے کچھ جیتے ہیں کچھ مرتے ہیں قیامت کوئی چیز نہیں فلاسفہ اور علم کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دھریہ اور دوریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے اور ایسے کئی دور کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور بجز و ہم و خیال کے کوئی سند وہ پیش نہیں کرسکتے۔ ابو داؤد وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ دہر کو ( یعنی زمانے کو ) گالیاں دیتا ہے دراصل زمانہ میں ہی ہوں تمام کام میرے ہاتھ ہیں دن رات کا ہیر پھیر کرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے دہر ( زمانہ ) کو گالی نہ دو اللہ ہی زمانہ ہے۔ ابن جریر نے اسے ایک بالکل غریب سند سے وارد کیا ہے اس میں ہے اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ ہمیں دن رات ہی ہلاک کرتے ہیں وہی ہمیں مارتے جلاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے نقل فرمایا وہ زمانے کو برا کہتے تھے پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے ابن آدم ایذاء پہنچاتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں سب کام ہیں میں دن رات کا لے آنے لے جانے والا ہوں۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن آدم زمانے کو گالیاں دیتا ہے میں زمانہ ہوں دن رات میرے ہاتھ میں ہیں۔ اور حدیث میں ہے میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اس نے مجھے نہ دیا مجھے میرے بندے گالیاں دیں وہ کہتا ہے ہائے ہائے زمانہ اور زمانہ میں ہوں۔ امام شافعی اور ابو عبیدہ وغیرہ ائمہ لغت و تفسیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے عربوں کو جب کوئی بلا اور شدت و تکلیف پہنچتی تو وہ اسے زمانے کی طرف نسبت کرتے اور زمانے کو برا کہتے دراصل زمانہ خود تو کچھ کرتا نہیں ہر کام کا کرتا دھرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے اس کا زمانے کا گالی دینا فی الواقع اسے برا کہنا تھا جس کی ہاتھ میں اور جس کے بس میں زمانہ ہے جو راحت و رنج کا مالک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ عزاسمہ ہے پس وہ گالی حقیقی فاعل یعنی اللہ تعالیٰ پر پڑتی ہے اس لئے اس حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے یہ فرمایا اور لوگوں کو اس سے روک دیا یہی شرح بہت ٹھیک اور بالکل درست ہے امام ابن حزم وغیرہ نے اس حدیث سے جو یہ سمجھ لیا ہے کہ دہر اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے یہ بالکل غلط ہے واللہ اعلم پھر ان بےعلموں کی کج بخشی بیان ہو رہی ہے کہ قیامت قائم ہونے کی اور دوبارہ جلائے جانے کی بالکل صاف دلیلیں جب انہیں دی جاتی ہیں اور قائل معقول کردیا جاتا ہے تو چونکہ جب کچھ بن نہیں پڑتا جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اچھا پھر ہمارے مردہ باپ دادوں پردادوں کو زندہ کر کے ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا پیدا کیا جانا اور مرجانا تو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہو کہ تم کچھ نہ تھے اور اس نے تمہیں موجود کردیا پھر وہ تمہیں مار ڈالتا ہے تو جو ابتدا پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ جی اٹھانے پر قادر کیسے نہ ہوگا ؟ بلکہ عقلًا ہدایت ( واضح طور پر ) کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جو شروع شروع کسی چیز کو بنا دے اس پر دوبارہ اس کا بنانا بہ نسبت پہلی دفعہ کے بہت آسان ہوتا ہے، پس یہاں فرمایا کہ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا۔ وہ دنیا میں تمہیں دوبارہ لانے کا نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ۔ یہ تو دار عمل ہے دار جزا قیامت کا دن ہے یہاں تو ہر ایک کو تھوڑی بہت تاخیر مل جاتی ہے جس میں وہ اگر چاہے اس دوسرے گھر کے لئے تیاریاں کرسکتا ہے بس اپنی بےعلمی کی بناء پر تمہیں اس کا انکار نہ کرنا چاہیے تم گو اسے دور جان رہے ہو لیکن دراصل وہ قریب ہی ہے تم گو اس کا آنا محال سمجھ رہے ہو لیکن فی الواقع اس کا آنا یقینی ہے مومن باعلم اور ذی عقل ہیں کہ وہ اس پر یقین کامل رکھ کر عمل میں لگے ہوئے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 25{ وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ مَّا کَانَ حُجَّتَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتُوْا بِاٰبَـآئِنَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ } ” اور جب انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری روشن آیات تو نہیں ہوتی ان کی کوئی دلیل سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں کہ زندہ کر کے لے آئو ہمارے آباء و اَجداد کو اگر تم سچے ہو ! “ اس ضمن میں ان کے پاس واحد حجت اور دلیل یہی ہوتی ہے کہ چلو اگر تم ہمارے فوت شدہ آباء و اَجداد کو زندہ کر کے ہمارے پاس لے آئو تو ہم بعث بعد الموت کے تمہارے دعوے کو مان لیں گے۔
وإذا تتلى عليهم آياتنا بينات ما كان حجتهم إلا أن قالوا ائتوا بآبائنا إن كنتم صادقين
سورة: الجاثية - آية: ( 25 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 501 )Surah Jasiah Ayat 25 meaning in urdu
اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو اِن کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اگر تم کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح
- یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ (اسے) لکھتے جاتے ہیں
- کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک مرد کو
- کتاب جس کی آیتیں واضح (المعانی) ہیں (یعنی) قرآن عربی ان لوگوں کے لئے جو
- اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے
- تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کو پست کر دی جائے گی
- سن رکھو جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ اور
- اور نوجوان خدمت گار (جو ایسے ہوں گے) جیسے چھپائے ہوئے موتی ان کے آس
- انہوں نے ہماری تمام نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو اس طرح پکڑ
- یہ (محمدﷺ) بھی اگلے ڈر سنانے والوں میں سے ایک ڈر سنانے والے ہیں
Quran surahs in English :
Download surah Jasiah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Jasiah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Jasiah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers