Surah anaam Ayat 110 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ﴾
[ الأنعام: 110]
اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے) اور ان کو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے۔ ( ابن کثیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
معجزوں کے طالب لوگ صرف مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے اور اس لئے بھی کہ خود مسلمان شک شبہ میں پڑجائیں کافر لوگ قسمیں کھا کھا کر بڑے زور سے کہتے تھے کہ ہمارے طلب کردہ معجزے ہمیں دکھا دیئے جائیں تو واللہ ہم بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ہدایت فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ معجزے میرے قبضے میں نہیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے دکھائے چاہے نہ دکھائے ابن جریر میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ایک پتھر پر لکڑی مارتے تھے تو اس سے بارہ چشمے نکلے تھے اور حضرت عیسیٰ مردوں میں جان ڈال دیتے تھے اور حضرت ثمود نے اونٹنی کا معجزہ دکھایا تھا تو آپ بھی جو معجزہ ہم کہیں دکھا دیں واللہ ہم سب آپ کی نبوت کو مان لیں گے، آپ نے فرمایا کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ آپ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنادیں پھر تو قسم اللہ کی ہم سب آپ کو سچا جاننے لگیں گے۔ آپ کو ان کے اس کلام سے کچھ امید بندھ گئی اور آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی وہیں حضرت جبرائیل آئے اور فرمانے لگے سنئے اگر آپ چاہیں تو اللہ بھی اس صفا پہار کو سونے کا کر دے گا لیکن اگر یہ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ان سب کو فنا کر دے گا ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے عذابوں کو روکے ہوئے ہے ممکن ہے ان میں نیک سمجھ والے بھی ہوں اور وہ ہدایت پر آجائیں، آپ نے فرمایا نہیں اللہ تعالیٰ میں صفا کا سونا نہیں جاہتا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تو ان پر مہربانی فرما کر انہیں عذاب نہ کر اور ان میں سے جسے چاہے ہدایت نصیب فرما۔ اسی پر یہ آیتیں ( وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ) 6۔ الأنعام:111) تک نازل ہوئیں یہ حدیث گو مرسل ہے لیکن اس کے شاہد بہت ہیں چناچہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نُّرْسِلَ بالْاٰيٰتِ اِلَّآ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ ) 17۔ الإسراء:59) یعنی معجزوں کے اتارنے سے صرف یہ چیز مانع ہے کہ ان سے اگلوں نے بھی انہیں جھٹلا یا۔ انھا کی دوسری قرأت انھا بھی ہے اور لا یومنون کی دوسری قرأت لا تو منون ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اے مشرکین کیا خبر ممکن ہے خود تمہارے طلب کردہ معجزوں کے آجانے کے بعد بھی تمہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں خطاب مومنوں سے ہے یعنی اے مسلمانو تم نہیں جانتے یہ لوگ ان نشانیوں کے ظاہر ہو چکنے پر بھی بےایمان ہی رہیں گے۔ اس صورت میں انھا الف کے زیر کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور الف کے زبر کے ساتھ بھی یشعر کم کا معمول ہو کر اور لا یومنون کا لام اس صورت میں صلہ ہوگا جیسے آیت ( قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ) 7۔ الأعراف:12) میں۔ اور آیت ( وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) 21۔ الأنبياء:95) میں تو مطلب یہ ہوتا کہ اے مومنو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اپنی من مانی اور منہ مانگی نشانی دیکھ کر ایمان لائیں گے بھی ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھا معنی میں لعلھا کے ہے بلکہ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں انھا کے بدلے لعلھا ہی ہے، عرب کے محاورے میں اور شعروں میں بھی یہی پایا گیا ہے، امام ابن جرید ؒ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کے بہت سے شواہد بھی انہوں نے پیش کئے ہیں، واللہ اعلم پھر فرماتا ہے کہ ان کے انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے دل اور ان کی نگاہیں ہم نے پھیر دی ہیں، اب یہ کسی بات پر ایمان لانے والے ہی نہیں۔ ایمان اور ان کے درمیان دیوار حائل ہوچکی ہے، روئے زمین کے نشانات دیکھ لیں گے تو بھی بےایمان ہی رہیں گے اگر ایمان قسمت میں ہوتا تو حق کی آواز پر پہلے ہی لبیک پکار اٹھتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات سے پہلے یہ جانتا تھا کہ یہ کیا کہیں گے ؟ اور ان کے عمل سے پہلے جانتا تھا کہ یہ کیا کریں گے ؟ اسی لئے اس نے بتلا دیا کہ ایسا ہوگا فرماتا ہے آیت ( وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ) 35۔ فاطر:14) اللہ تعالیٰ جو کامل خبر رکھنے والا ہے اور اس جیسی خبر اور کون دے سکتا ہے ؟ اس نے فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے روز حسرت و افسوس کے ساتھ آرزو کریں گے کہ اگر اب لوٹ کر دنیا کی طرف جائیں تو نیک اور بھلے بن کر رہیں۔ لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے اگر بالفرض یہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی یہ ایسے کے ایسے ہی رہیں گے اور جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کریں گے، ہرگز نہ چھوڑیں گے، یہاں بھی فرمایا کہ معجزوں کا دیکھنا بھی ان کے لئے مفید نہ ہوگا ان کی نگاہیں حق کو دیکھنے والی ہی نہیں رہیں ان کے دل میں حق کیلئے کوئی جگہ خالی ہی نہیں۔ پہلی بار ہی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوا اسی طرح نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد بھی ایمان سے محروم رہیں گے۔ بلکہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں ہی بہکتے اور بھٹکتے حیران و سرگرداں رہیں گے۔ ( اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھے۔ آمین )۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 110 وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ اس قاعدے اور قانون کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں اگر وہ ان کو استعمال کرتا ہے تو ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کو علم سکھائیں گے تو آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔ آپ آنکھ کا استعمال کریں گے تو آنکھ صحت مند رہے گی ‘ اس کی بصارت برقرار رہے گی۔ اگر آنکھ پر پٹی باندھ دیں گے تو دو چار مہینے کے بعد بصارت زائل ہوجائے گی۔ انسانی جوڑوں کو حرکت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ‘ اگر آپ کسی جوڑ پر پلاسٹر چڑھا دیں گے تو کچھ مہینوں کے بعد اس کی حرکت ختم ہوجائے گی۔ چناچہ جو صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اگر وہ اس کا استعمال نہیں کرے گا تو وہ صلاحیت تدریجاً زائل ہوجائے گی۔ اسی طرح حق کو پہچاننے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو باطنی طور پر صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اب اگر ایک شخص پر حق منکشف ہوا ہے ‘ اس کے اندر اسے پہچاننے کی صلاحیت موجود ہے ‘ اس کے دل نے گواہی بھی دی ہے کہ یہ حق ہے ‘ لیکن اگر کسی تعصب کی وجہ سے ‘ کسی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب اس نے اس حق کو دیکھنے ‘ سمجھنے اور ماننے سے انکار کردیا ‘ تو اس کی وہ صلاحیت قدرے کم ہوجائے گی۔ اب اس کے بعد پھر دوبارہ کبھی حق کی کوئی چنگاری اس کے دل میں روشن ہوئی تو اس کا اثر اس پر پہلے سے کم ہوگا اور پھر تدریجاً وہ نوبت آجائے گی کہ حق کو پہچاننے کی وہ باطنی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سورة البقرة آیت 7 میں اس طرح بیان ہوا ہے : خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَّلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں پر اور ان کی سماعت پر ‘ اور ان کی آنکھوں کے آگے پردے ڈال دیے ہیں ‘ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اس لیے کہ جب ضد اور تعصب کی بنا پر وہ لوگ سمجھتے بوجھتے حق کا مسلسل انکار کرتے رہے تو ان کی حق کو پہچاننے کی صلاحیتیں سلب ہوگئیں۔ اب وہ اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اس کو point of no return کہتے ہیں۔ ہر معاملے میں واپسی کا ایک وقت ہوتا ہے ‘ لیکن وہ وقت گزر جانے کے بعد ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔یہی فلسفہ یہاں دوسرے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ان لوگوں پر حق منکشف ہوا ‘ اللہ نے حجت قائم کردی ‘ انہوں نے حق کو پہچان لیا ‘ ان کے دلوں ‘ ان کی روحوں اور باطنی بصیرت نے گواہی دے دی کہ یہ حق ہے ‘ اس کے بعد اگر وہ اس حق کو فوراً مان لیتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ انہوں نے نہیں مانا تو اللہ نے فرمایا کہ اس کی سزا کے طور پر ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے ‘ اب وہ سو معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔وَّنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۔ ۔یہی لفظ یَعْمَھُوْنَ ہم سورة البقرة کی آیت 15 میں پڑھ چکے ہیں ‘ جبکہ وہاں آیت 18 میں عُمْیٌ بھی آیا ہے۔ عَمِہَ یَعْمَہُ بصیرت سے محرومی یعنی باطنی اندھے پن کے لیے آتا ہے اور عَمِیَ یَعْمٰی بصارت سے محرومی یعنی آنکھوں سے اندھا ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ہم چھوڑ دیں گے ان کو ان کی باطنی ‘ ذہنی ‘ نفسیاتی اور اخلاقی گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے۔
ونقلب أفئدتهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أول مرة ونذرهم في طغيانهم يعمهون
سورة: الأنعام - آية: ( 110 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 141 )Surah anaam Ayat 110 meaning in urdu
ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ان کو دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت
- غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار
- اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے
- اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
- ابراہیم نے سلام علیک کہا (اور کہا کہ) میں آپ کے لئے اپنے پروردگار سے
- تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ تم ہمیں احمق
- تب انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف
- تاکہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کردے۔ گو مشرک ناخوش ہی ہوں
- کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد
- (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers