Surah taha Ayat 119 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ﴾
[ طه: 119]
اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ
Surah taha UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
انسان کو انسان کیوں کہا جاتا ہے ؟ حضرت عباس ؓ ما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا۔ مجاہد اور حسن فرماتے ہیں اس حکم کو حضرت آدم ؑ نے چھوڑ دیا۔ پھر حضرت آدم ؑ کی شرافت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ سورة بقرۃ سورة اعراف سورة حجر اور سورة کہف میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جاچکی ہے اور سورة ص میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان تمام سورتوں میں حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لئے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے، اس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کردیا۔ اس وقت حضرت آدم ؑ کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حضرت حوا ؑ کا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آنا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑجاؤ گے۔ روزی کی تلاش کی محنت سر پڑجائے گی۔ یہاں تو بےمحنت ومشقت روزی پہنچ رہی ہے۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ناممکن ہے کہ ننگے رہو اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو۔ پھر یہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے اگر شیطان کے بہکاوے میں آگئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آجائیں گی۔ لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلادیا۔ پہلے ہی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے فرما دیا تھا کہ جنت کے تمام میوے کھانا لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا۔ مگر شیطان نے انہیں اس قدر پھسلایا کہ آخرکار یہ اس درخت میں سے کھا بیٹھے۔ اس نے دھوکہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جو اس درخت کو کھا لیتا ہے وہ ہمیشہ یہیں رہتا ہے۔ صادق ومصدوق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلا جائے گا لیکن تاہم وہ ختم نہ ہوگا اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ( مسند احمد وابوداؤد طیالسی ) دونوں نے درخت میں سے کچھ کھایا ہی تھا کہ لباس اتر گیا اور اعضا ظاہر ہوگئے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو گندمی رنگ کا لمبے قدوقامت والازیادہ بالوں والا بنایا تھا کھجور کے درخت جتنا قد تھا ممنوع درخت کو کھاتے ہی لباس چھن گیا۔ اپنے ستر کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ادھر ادھر چھپنے لگے، ایک درخت میں بال الجھ گئے، جلدی سے چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے جب اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ آدم کیا مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کلام رحمان سن کر ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ مارے شرمندگی کے سرچھپانا چاہتا ہوں۔ اچھا اب یہ تو فرما دے کہ توبہ اور رجوع کے بعد بھی جنت میں پہنچ سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے۔ آدم نے اپنے رب سے چند کلمات لے لئے جس کی بنا پر اللہ نے اسے پھر سے اپنی مہربانی میں لے لیا۔ یہ روایت منقطع ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے۔ جب حضرت آدم ؑ و حضرت حوا ؑ سے لباس چھن گیا تو اب جنت کے درختوں کے پتے اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی رہنمائی کی۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کرلیا۔ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت آدم ؑ میں گفتگو ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ فرمانے لگے آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انہیں مشقت میں ڈال دیا۔ حضرت آدم ؑ جواب دیا اے موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر اور مقرر کرلیا تھا۔ پس حضرت آدم ؑ نے اس گفتگو میں حضرت موسیٰ ؑ کو لاجواب کردیا۔ اور روایت میں حضرت موسیٰ ؑ کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی۔ اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا۔ حضرت آدم ؑ کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کرلیا بتلاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی ؟ جواب دیا آپ سے چالیس سال پہلے پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ حضرت آدم ؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا کہا ہاں۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امر کا الزام کیوں دیتے ہو ؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اب یہاں قصہ آدم و ابلیس پانچویں مرتبہ بیان ہونے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے سورة البقرة رکوع : 4 ‘ سورة الأعراف رکوع : 2 ‘ سورة بنی اسرائیل رکوع : 7 اور سورة الحجر رکوع : 3 میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔
Surah taha Ayat 119 meaning in urdu
نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- آسمان اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز
- اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ
- جو نیکو کار ہیں اور وہ ایسی شراب نوش جان کریں گے جس میں کافور
- اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ (تو) صالح نے کہا
- اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان
- اور ابراہیمؑ کو (یاد کرو) جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی
- جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا
- مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی۔ تو ہم نے نوح کو اور جو
- ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی
- (یعنی) ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ دیا گیا ہے
Quran surahs in English :
Download surah taha with the voice of the most famous Quran reciters :
surah taha mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter taha Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers