Surah Shura Ayat 15 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ﴾
[ الشورى: 15]
تو (اے محمدﷺ) اسی (دین کی) طرف (لوگوں کو) بلاتے رہنا اور جیسا تم کو حکم ہوا ہے (اسی پر) قائم رہنا۔ اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا۔ اور کہہ دو کہ جو کتاب خدا نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تم میں انصاف کروں۔ خدا ہی ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے۔ ہم کو ہمارے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال کا۔ ہم میں اور تم میں کچھ بحث وتکرار نہیں۔ خدا ہم (سب) کو اکھٹا کرے گا۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
Surah Shura Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اس تفرق اور شک کی وجہ سے، جس کا ذکر پہلے ہوا، آپ ان کو توحید کی دعوت دیں اور اس پر جمے رہیں۔
( 2 ) یعنی انہوں نے اپنی خواہش سے جو چیزیں گھڑ لی ہیں، مثلاً بتوں کی عبادت وغیرہ، اس میں ان کی خواہش کے پیچھے مت چلیں۔
( 3 ) یعنی جب بھی تم اپنا کوئی معاملہ میرے پاس لاؤ گے تو اللہ کے احکام کے مطابق اس کا عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔
( 4 ) یعنی کوئی جھگڑا نہیں، اس لیے کہ حق ظاہر اور واضح ہوچکا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تمام انبیاء کی شریعت یکساں ہے۔اس آیت میں ایک لطیفہ ہے جو قرآن کریم کی صرف ایک اور آیت میں پایا جاتا ہے باقی کسی اور آیت میں نہیں وہ یہ کہ اس میں دس کلمے ہیں جو سب مستقل ہیں الگ الگ ایک ایک کلمہ اپنی ذات میں ایک مستقل حکم ہے یہی بات دوسری آیت یعنی آیت الکرسی میں بھی ہے پس پہلا حکم تو یہ ہوتا ہے کہ جو وحی تجھ پر نازل کی گئی ہے اور وہی وحی تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء پر آتی رہی ہے اور جو شرع تیرے لئے مقرر کی گئی ہے اور وہی تجھ سے پہلے تمام انبیاء کرام کے لئے بھی مقرر کی گئی تھی تو تمام لوگوں کو اس کی دعوت دے ہر ایک کو اسی کی طرف بلا اور اسی کے منوانے اور پھیلانے کی کوشش میں لگا رہ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و وحدانیت پر تو آپ استقامت کر اور اپنے ماننے والوں سے استقامت کر مشرکین نے جو کچھ اختلاف کر رکھے ہیں جو تکذیب و افتراء ان کا شیوہ ہے جو عبادت غیر اللہ ان کی عادت ہے خبردار تو ہرگز ہرگز ان کی خواہش اور ان کی چاہتوں میں نہ آجانا۔ ان کی ایک بھی نہ ماننا اور علی الاعلان اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کر کہ اللہ کی نازل کردہ تمام کتابوں پر میرا ایمان ہے میرا یہ کام نہیں کہ ایک کو مانوں اور دوسری سے انکار کروں، ایک کو لے لوں اور دوسری کو چھوڑ دوں۔ میں تم میں بھی وہی احکام جاری کرنا چاہتا ہوں جو اللہ کی طرف سے میرے پاس پہنچائے گئے ہیں اور جو سراسر عدل اور یکسر انصاف پر مبنی ہیں۔ معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ہمارا تمہارا معبود برحق وہی ہے اور وہی سب کا پالنہار ہے گو کوئی اپنی خوشی سے اس کے سامنے نہ جھکے لیکن دراصل ہر شخص بلکہ ہر چیز اس کے آگے جھکی ہوئی ہے اور سجدے میں پڑی ہوئی ہے ہمارے عمل ہمارے ساتھ۔ تمہاری کرنی تمہیں بھرنی۔ ہم تم میں کوئی تعلق نہیں جیسے اور آیت میں ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لئے میرے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں۔ تم میرے اعمال سے بری اور میں تمہارے اعمال سے بیزار۔ ہم تم میں کوئی خصومت اور جھگڑا نہیں۔ کسی بحث مباحثے کی ضرورت نہیں۔ حضرت سدی ؒ فرماتے ہیں یہ حکم تو مکہ میں تھا لیکن مدینے میں جہاد کے احکام اترے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور جہاد کی آیتیں ہجرت کے بعد کی ہیں قیامت کے دن اللہ ہم سب کو جمع کرے گا جیسے اور آیت میں ہے ( قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ 26 ) 34۔ سبأ :26) ، یعنی تو کہہ دے کہ ہمیں ہمارا رب جمع کرے گا پھر ہم میں حق کے ساتھ فیصلے کرے گا اور وہی فیصلے کرنے والا اور علم والا ہے پھر فرماتا ہے لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 15 { فَلِذٰلِکَ فَادْعُ } ” تو اے نبی ﷺ ! آپ اسی کی دعوت دیتے رہیے “ یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ اوپر آیت 13 میں اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کے حکم کی طرف ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے مسلسل دعوت دیتے رہیے۔ { وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ } ” اور جمے رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے “ آپ ﷺ کی رسالت کا مقصد اور مشن ہی چونکہ اقامت دین ہے ‘ اس لیے آپ ﷺ غلبہ حق کی جدوجہد کی اس راہ میں پوری استقامت اور تندہی کے ساتھ کھڑے رہیں۔ آپ ﷺ کے مخالفین تو چاہیں گے کہ آپ ﷺ کچھ نرم پڑنے کو تیار ہوں تو وہ بھی نرم پڑجائیں : { وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ۔ القلم۔ مگر آپ ہماری ہدایت و مشیت کے مطابق اپنے موقف پر جم کر کھڑے رہیں اور اس سفر میں کسی بھی موڑ پر کسی حال میں ‘ کبھی کوئی سمجھوتہ compromise نہ کریں : { وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْقف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ } الکہف : 29 ” اور آپ ﷺ ان سے کہہ دیجیے کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے ‘ تو اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ “ { وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْ } ” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ “ یہی بات پانچ چھ سال بعد سورة البقرة کے اندر ان الفاظ میں پھر سے دہرائی گئی : { وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتّبِعَ مِلَّتَہُمْط } آیت 120 ” اے نبی ﷺ ! یہ یہودی اور نصرانی آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ﷺ ان کے طریقے کی پیروی نہ کریں “۔ پرانے نظام کے ساتھ تو ان لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں ‘ آپ ﷺ کی دعوت کو آگے بڑھتا دیکھ کر انہیں اپنی سیادتیں اور چودھراہٹیں خطرے میں نظر آرہی ہیں۔ وہ تو چاہیں گے کہ آپ ﷺ ان کے پیچھے چلیں اور ان کی لیڈر شپ قائم رہے۔ آج بھی اپنے اپنے مفادات کو بچانے کی روش اقامت دین کی جدو جہد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آج بھی اگر اللہ کا کوئی بندہ اس دعوت کا علم َبلند کر کے مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ کا نعرہ لگاتا ہے تو اربابِ ُ جبہ ّو دستار کو اپنی مسندوں ‘ خانقاہوں اور گدیوں کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگتا ہے۔ چناچہ ان کے ” خاموش رد عمل “ سے ایسی جدوجہد کے َعلم برداروں کو یہ پیغام آپ سے آپ ہی موصول ہوجاتا ہے کہ ” ہم تمہارے پیچھے کیوں چلیں ‘ تم ہمارے پیچھے کیوں نہ چلو ؟ “ یاد رہے کہ اپنے مضمون اقامت دین کے اعتبار سے زیر مطالعہ تین آیات 13 ‘ 14 اور 15 بہت اہم ہیں۔ { وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ } ” اور آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو اللہ نے نازل کی ہے۔ “ قبل ازیں سورة حٰم السجدۃ میں دعوت کے حوالے سے قرآن کا چھ مرتبہ ذکر آچکا ہے۔ اب یہاں اس آیت میں سورة حٰم السجدۃ کے مضمون کا گویا خلاصہ آگیا ہے کہ دعوت چلے گی تو اس کتاب کے بل پر اور کسی کو استقامت نصیب ہوگی تو بھی اسی کتاب کے ذریعے سے۔ چناچہ اس کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیے ‘ اس کے معانی و مفہوم کو دل میں اتارئیے اور دوسروں تک پہنچائیے۔ قرآن میں حضور ﷺ کو بھی بار بار اسی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے : { اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ } العنکبوت : 45 ” تلاوت کرتے رہا کریں اس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے۔ “ { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ } ” اور آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ مجھے حکم ہوا کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔ “ آپ ﷺ ان پر واضح کردیجیے کہ میں صرف وعظ کہنے اور میٹھی میٹھی باتیں سنا کر لوگوں کا دل بہلانے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ میں معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے اور نظام توحید کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے آیا ہوں۔ اس جملے کے حوالے سے ہمیں بہت واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ حضور ﷺ کا اصل مشن کیا تھا اور آپ ﷺ کے اتباع کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آج ہمارے اوپر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کے اتباع کے تقاضے میلاد کی محفلیں سجا لینے یا بڑے بڑے جلوس نکال لینے سے پورے نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے سب غلط کاریاں چھوڑ کر خود کو دین کے احکام کا پابند بنانا ہوگا اور پھر اپنے تن من دھن کے ساتھ عدل اجتماعی نظامِ توحید کو معاشرے میں قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی صف میں شامل ہونا ہوگا۔ حضرت ابوبکر رض نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں دراصل حضور ﷺ کے اتباع کے اسی تقاضے { وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ } کے حوالے سے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا : لوگو ! تم میں سے ہر کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہوگا جب تک کہ میں اسے اس کا حق نہ دلوا دوں اور تم میں سے ہر قوی شخص میرے نزدیک کمزور ہوگا جب تک کہ میں اس سے حق دار کا حق وصول نہ کرلوں۔ { اَللّٰہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ } ” اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ‘ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ “ { لَا حُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَللّٰہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا } ” ہمارے درمیان کسی حجت بازی کی ضرورت نہیں ‘ اللہ ہمیں جمع کر دے گا۔ “ اللہ تعالیٰ یا تو ہمیں اسی دنیا میں اکٹھا کر دے گا اور اگر یہاں یہ ممکن نہ ہوا تو آخرت میں تو ہم اکٹھے ہو ہی جائیں گے۔ اس فقرے کا مفہوم سمجھنے کے لیے ان تنظیموں اور گروہوں کا تصور ذہن میں لائیے جو سب اخلاص اور نیک نیتی سے اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے ہر جماعت کا اپنا منصوبہ اور اپنا طریقہ کار ہے۔ ان سب کی مثال دراصل منیٰ سے میدانِ عرفات جانے والے حجاج ّکے قافلوں جیسی ہے۔ جہاں لاکھوں لوگ ہزاروں قافلوں میں مختلف راستوں اور مختلف شاہراہوں پر گامزن ہوتے ہیں۔ ان کے راستے بیشک مختلف ہیں مگر منزل سب کی ایک ہے۔ یہ قافلے جیسے جیسے اپنی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کے مابین فاصلہ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ میدانِ عرفات میں پہنچ کر وہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی مختلف جماعتیں اور تنظی میں جوں جوں اپنی منزل کی طرف بڑھیں گی ان کے باہمی اختلافات کم ہوتے چلے جائیں گے اور منزل مقصود پر پہنچ کر یہ سب اکٹھے ہوجائیں گے۔ اور اگر بالفرض وہ دنیا میں اکٹھے نہ ہو سکے تو بھی روز محشر تو سب اکٹھے ہوجائیں گے۔ چناچہ ان سب کو آپس میں تنقید کرنے کے بجائے زیر مطالعہ آیت کے الفاظ میں ایک دوسرے سے یوں کہنا چاہیے کہ دیکھو بھئی ہم سب اللہ کی رضا کے متلاشی ہیں۔ ہمارا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا بھی۔ باقی جہاں تک ہمارے باہمی اختلاف کا تعلق ہے اس حوالے سے ہمیں آپس میں کوئی حجت بازی نہیں کرنی چاہیے۔ تم لوگ اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جدوجہد کرتے جائو ‘ ہم اپنے طریق کار اور لائحہ عمل کے مطابق کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم سب اپنی اپنی کوششوں کے لیے ماجورہوں گے۔ تم لوگوں کو تمہاری جدوجہد کا صلہ مل جائے گا اور ہم اپنی محنت کا پھل پالیں گے۔ لیکن چونکہ ہم سب اپنے مشن اور اپنی جدوجہد میں مخلص ہیں اس لیے آج نہیں تو کل ہم سب ایک ہوجائیں گے۔ اگر ہمارا طریق کار غلط ہوا تو ایک دن حقیقت ہم پر واضح ہوجائے گی اور ہم رجوع کرلیں گے اور اگر آپ لوگوں کے لائحہ عمل میں کوئی کمی ہوئی تو کبھی نہ کبھی آپ کو بھی وہ نظر آہی جائے گی اور آپ بھی ضرور اس کی تلافی کرلیں گے ‘ اِن شاء اللہ ! { وَاِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ } ” اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ “ وہاں اللہ کی عدالت میں سب انسان اکٹھے کھڑے ہوں گے اور وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
فلذلك فادع واستقم كما أمرت ولا تتبع أهواءهم وقل آمنت بما أنـزل الله من كتاب وأمرت لأعدل بينكم الله ربنا وربكم لنا أعمالنا ولكم أعمالكم لا حجة بيننا وبينكم الله يجمع بيننا وإليه المصير
سورة: الشورى - آية: ( 15 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 484 )Surah Shura Ayat 15 meaning in urdu
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور اِن لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور اِن سے کہہ دو کہ: "اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اُس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بھلا جو شخص خدا کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح (مرتکب
- جب خدا کی مدد آ پہنچی اور فتح (حاصل ہو گئی)
- مگر شیطان کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا
- کہہ دو کہ خدا کی فرمانبرداری کرو اور رسول خدا کے حکم پر چلو۔ اگر
- اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے
- جو (قیامت کو) بڑی (تیز) آگ میں داخل ہو گا
- تو انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر نادم ہوئے
- بےشک یہ بڑی کامیابی ہے
- جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا
- اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا
Quran surahs in English :
Download surah Shura with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Shura mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Shura Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers