Surah Al Ala Ayat 16 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا﴾
[ الأعلى: 16]
مگر تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو
Surah Al Ala UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جس نے صلوۃ کو بروقت ادا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کرلیا احکام اسلام کی تابعداری کی نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پالی رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کی گواہی دے اس کے سوال کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا ( بزار ) ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے حضرت ابو العالیہ نے ایک مرتبہ الو خلدہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا جب میں گیا تو مجھ سے کہا کچھ کھالیا ہے میں نے کہا ہاں، فرمایا نہا چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں فرمایا زکوٰۃ فطر ادا کرچکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے۔ اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے، حضرت ابو الاحواص فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آجائے تو اسے خیرات دے دے پھر یہی آیت پڑھی۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کرلیا اور اپنے رب کو راضی کرلیا پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے دنیا ذلیل ہے فانی ہے آخرت شریف ہے باقی ہے کوئی عاقل ایسا نہیں کرسکتا کہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کرلے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں نہ ہو دنیا اس کا مال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں ابن جریر میں ہے کہ حضرت عرفجہ ثقفی اس سورت کو حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہوگئے کہ یہاں کی زینت کو یہاں کی عورتوں کو یہاں کے کھانے پینے کو ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں یا تو یہ فرمان حضرت عبداللہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں واللہ اعلم۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا تم اے لوگو ! باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو ، مسند احمد پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی یہ تھا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا ( بزار ) نسائی میں حضرت عباس سے یہ مروی ہے اور جب آیت ( وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ 37ۙ ) 53۔ النجم:37) نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے سورة نجم میں ہے آیت ( اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰى 36ۙ ) 53۔ النجم:36) آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد سبح اسم کی یہ آیتیں ہیں بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے قد افلح سے ابقی تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔ الحمد اللہ سورة سبح کی تفسیر ختم ہوئی واللہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمہ
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 16{ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۔ } ” بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ “ دراصل انسان کی اخروی کامیابی یا ناکامی کا تمام تر انحصار اس کی ترجیحات پر ہے۔ اگر تو وہ اپنے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھتا ہے اور دنیوی مفادات کے حوالے سے قناعت پسندی کی حکمت عملی پر کاربند رہتا ہے تو وہ کامیاب ہے اور اگر اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے تو اس کا راستہ تباہی اور بربادی کا راستہ ہے۔ اس آیت میں اس حوالے سے ہم جیسے دنیادار مسلمانوں کے اصل مرض کی نشاندہی کردی گئی ہے کہ ہم دنیوی زندگی کے مفادات کو آخرت کے معاملات پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا نفع اور نقصان ہمیں نقد نظر آتا ہے جبکہ آخرت کی راحت اور تکلیف ہمیں سامنے نظر نہیں آتی۔ اس لیے دنیا کا معمولی سا مفاد ہم آخرت کے بہت بڑے عذاب کے بدلے میں بھی حاصل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ جیسے سورة النساء کی آیت 10 میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جو لوگ ظلم و زیادتی سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔ لیکن آج دنیا میں جو کوئی ایسا مال کھاتا ہے اسے ایسا کرتے ہوئے تو محسوس نہیں ہو تاکہ وہ آگ کے انگارے پیٹ میں بھر رہا ہے ‘ اس لیے جب وہ ایسے مال کو اپنی پہنچ میں دیکھتا ہے تو اسے غصب کرنے سے باز نہیں رہتا۔ انسان کی اس طبعی اور جبلی کمزوری یا خامی کا ذکر سورة القیامہ میں بایں الفاظ آیا ہے : { کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ - وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۔ } ” ہرگز نہیں ! اصل میں تم لوگ عاجلہ جلد ملنے والی چیز سے محبت کرتے ہو۔ اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ “
Surah Al Ala Ayat 16 meaning in urdu
مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو (کتاب) خدا نے (اب) نازل فرمائی
- وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند
- (یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے رستے کی طرف) لوٹ
- (اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور
- یا اس کی طرف (آسمان سے) خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا
- جب کہ اپنے تیئں غنی دیکھتا ہے
- فرمایا کہ موسیٰ اسے ڈال دو
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لیے خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ
- مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے
- (تو) جن لوگوں پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے
Quran surahs in English :
Download surah Al Ala with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Ala mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Ala Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers