Surah al imran Ayat 160 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
[ آل عمران: 160]
اور خدا تمہارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں
Surah al imran UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کردیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ما صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ ) 4۔ النساء:155) میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے آیت ( عما قلیل ) میں اسی طرح یہاں ہے، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم دل ہوا ہے، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں یہ حضور ﷺ کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے آیت ( لقد جاء کم ) الخ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو امامہ باہلی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ بعض مومن وہ ہیں جن کے لئے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے، ( فظاً ) سے مراد یہاں سخت کلام ہے۔ کیونکہ اس کے بعد ( غلیظ القلب ) کا لفظ ہے، یعنی سخت دل، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہوجاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنادیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لئے محبت اور نرمی عطا فرمائی، اور تاکہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی صفوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام سخت دل بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگذر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا، چناچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگذر کر، ان کے لئے استغفار کر، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر، اسی لئے حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرو، اسی لئے حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لئے مشورہ لیا اور صحابہ نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک انعماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ ؑ کے صحابیوں کی طرح کہہ دیں کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے، اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو ؟ اور منذر بن عمرو نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہئے چناچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کرلی جائے ؟ تو حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کرلیا اور مصالحت چھوڑ دی، اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں ؟ تو حضرت صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چناچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانو مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے اور آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی جدائی کے لئے حضرت علی اور حضرت اسامہ سے مشورہ لیا، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی حضور ﷺ صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھی، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت میں حضرت ابوبکر و عمر سے مشورہ کرنے کا حکم ہے ( حاکم ) یہ دونوں حضور ﷺ کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں ( کلبی ) مسند احمد میں ہے رسول ﷺ نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہوجائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا، حضور ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا ( ابن مردویہ ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے، ابو داؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے، امام ترمذی علیہ الرحمہ اسے حسن کہتے ہیں، اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہئے بھلی بات کا مشورہ دے ( ابن ماجہ ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گذرا ہے کہ آیت ( ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ) 3۔ آل عمران:26) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہئے۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں کے کہا شاید رسول اللہ ﷺ نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری ( ترمذی ) اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے حضور ﷺ پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت ( وما کان ) اتری، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار ﷺ پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کرسکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپالے اور امت تک نہ پہنچائے۔ یغل کے معنی اور خائن یغل کو " یے " کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں، چناچہ حضرت قتادہ اور حضرت ربیع سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری ( ابن جریر ) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بابت کچھ سخت وعید ہے چناچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمین دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کرلے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے، بیوی نہ ہو تو کرسکتا ہے، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہوگا، یہ حدیث ابو داؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے، ابن جریر کی حدیث میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہہ دوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تجھے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہوگا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد ﷺ اے محمد ﷺ میں کہوں گا میں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کرچکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہوگا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہہ دوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لئے ہوئے حاضر ہوگا اور کہہ رہا ہو یا محمد ﷺ یا محمد ﷺ میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتاچکا تھا، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے ابن البتیہہ کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی ﷺ منبر پر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے تحفے کا یہ اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہوگا۔ گائے ہے تو بول رہی ہوگی بکری ہے تو چیخ رہی ہوگی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے، ترمذی میں ہے حضرت معاذ بن جبل میں ؓ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لئے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو، مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے حضور ﷺ سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کردینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہوچکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہوگا، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری حضرت سعید بن عبادہ ؓ کھڑے ہو کر کہنے لگے حضور ﷺ میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں، فرمایا کیوں ؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے، یہ حدیث مسلم اور ابو داؤد میں بھی ہے حضرت رافع فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چناچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے۔ ( مسند احمد ) حضرت عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہوگی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے ( مسند احمد ) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے، حضرت ابو مسعود انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ ﷺ نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابو مسعود جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو، میں نے کہا حضور ﷺ پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں ( ابو داؤد ) ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت ( ومن یغلل یات بما غل یوم القیامتہ ) مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام آنے لگے اور کہنے لگے فاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کرلی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کردو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چناچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کردی، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں، ابن جریر میں ہے کہ ایک دن حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن انیس سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے، ابن جریر میں حضرت سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لئے حضور ﷺ نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو حضرت سعد کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چناچہ حضور ﷺ نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا، مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسلم بن عبدالملک کے ساتھ روم کی جنگ میں حضرت سالم بن عبداللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردار لشکر نے حضرت سالم سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو ، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو ، چناچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا حضرت سالم سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کردو، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے، امام علی بن مدینی اور امام بخاری وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے، امام دارقطنی فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت سالم کا اپنا فتویٰ ہے، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے، حضرت حسن بھی یہی کہتے ہیں حضرت علی فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے، ابوحنیفہ مالک شافعی اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے، امام بخاری فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کردیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا، واللہ اعلم، مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریفوں کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو حضرت ابن مسعود فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ ﷺ کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ ﷺ کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں ؟ امام وکیع بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں، ابو داؤد میں ہے کہ آنحضور ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ حضرت بلال ؓ کو حکم دیتے ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے حضرت بلال کی منادی سنی تھی ؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا ؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا۔ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے مستحق ہونے والے اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہوچکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں، وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت ( وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ) 6۔ الأنعام:32) ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہوگی۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کرسکیں پوچھ گچھ کرسکیں ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کرسکیں، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ) 30۔ الروم:21) یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ) 41۔ فصلت :6) کہہ دے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے، اور فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ) 25۔ الفرقان:20) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ) 6۔ الأنعام:130) یعنی اے جنو اور انسانو کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں، پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے۔ اس رسول ﷺ کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 159 فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ ج۔اس سورة مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو ‘ صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں ‘ جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں ‘ ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں ‘ ان کی عزت نفس بھی ہے ‘ لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے ‘ سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں ‘ بلکہ رضاکار volunteers ہیں۔ آنحضور ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ ﷺ ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ r کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی !فَاعْفُ عَنْہُمْ چونکہ بعض صحابہ رض سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا ‘ لہٰذا آنحضور ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ ﷺ ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی ‘ بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط۔مشورے کے بعد جب آپ ﷺ ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔ غزوۂ احد سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے مشورہ کیا تھا ‘ اس وقت کچھ لوگوں کی رائے وہی تھی جو آنحضور ﷺ کی رائے تھی ‘ یعنی مدینہ میں محصور ہو کر جنگ کی جائے۔ لیکن کچھ حضرات نے کہا ہم تو کھلے میدان میں جنگ کرنا چاہتے ہیں ‘ ہمیں تو شہادت کی موت چاہیے تو حضور ﷺ نے ان کی رعایت کی اور باہر نکلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس کے فوراً بعد جب آپ ﷺ حضرت عائشہ رض کے حجرے سے برآمد ہوئے تو خلاف معمول آپ ﷺ نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ اس سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ سخت معاملہ پیش آنے والا ہے۔ چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ حضور ﷺ ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں ‘ جو آپ ﷺ کی رائے ہے آپ اس کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد جنگ کیے بغیر انہیں اتار دے۔ یہ آیت گویا نبی اکرم ﷺ کے طرز عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔
إن ينصركم الله فلا غالب لكم وإن يخذلكم فمن ذا الذي ينصركم من بعده وعلى الله فليتوكل المؤمنون
سورة: آل عمران - آية: ( 160 ) - جزء: ( 4 ) - صفحة: ( 71 )Surah al imran Ayat 160 meaning in urdu
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (غرض موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے) اس نے کہا کہ موسیٰ تمہارا پروردگار
- کہہ دو کہ جو شخص گمراہی میں پڑا ہوا ہے خدا اس کو آہستہ آہستہ
- (پہلے تو سب) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا (لیکن وہ آپس میں اختلاف کرنے
- پیغمبر نے کہا اگرچہ میں تمہارے پاس ایسا (دین) لاؤں کہ جس رستے پر تم
- اور اس کے بعد زمین کو پھیلا دیا
- یا جو خدا نے لوگوں کو اپنے فضل سے دے رکھا ہے اس کا حسد
- کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار
- مگر یہ ہماری رحمت اور ایک مدت تک کے فائدے ہیں
- اور موت کی بےہوشی حقیقت کھولنے کو طاری ہوگئی۔ (اے انسان) یہی (وہ حالت) ہے
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers