Surah baqarah Ayat 187 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾
[ البقرة: 187]
روزوں کی راتوں میں تمہارے لئے اپنی عورتوں کے پاس جانا کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو خدا کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سےدرگزرفرمائی۔اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو۔ اور خدا نے جو چیز تمہارے لئے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو (خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ خدا کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح خدا اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ابتدائے اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشا کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی، سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھالیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ «الرَّفَثُ» سے مراد بیوی سے ہم بستری کرنا ہے «الْخَيْطُ الأَبْيَضُ» سے صبح صادق، اور «الخَيْطُ الأسْوَدُ» ( سیاہ دھاری ) سے مراد رات ہے ( ابن کثیر )
مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں روزہ رکھا جاسکتا ہے، کیوں کہ فجر تک اللہ تعالیٰ نے مذکورہ امور کی اجازت دی ہے اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ( ابن کثیر )
( 2 ) یعنی رات ہوتے ہی ( غروب شمس کے فوراً بعد ) روزہ افطار کرلو۔ تاخیر مت کرو، جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے۔ دوسرا یہ کہ وصال مت کرو۔ وصال کا مطلب ہے کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا۔ اس سے نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ ( کتب حدیث )۔
( 3 ) اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس وکنار کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ «عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ» سے استدلال کیا گیا ہے کہ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ازواج مطہرات نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔ اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں۔ البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے، تاکہ مردوں سے کسی طرح کا اختلاط نہ ہو، جب تک مسجد میں معقول، محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو، عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور عورتوں کو بھی اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک نفلی عبادت ہی ہے، جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو، اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔ فقہ کا اصول ہے : «دَرْءُ المَفَاسِدِ يُقَدَّمُ عَلَى جَلْبِ الْمَصَالحِ»۔ ” مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے۔ “
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہوگیا، اس میں صحابہ ؓ کو قدرے مشقت ہوئی جس یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے، ابن عباس ؓ عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادو زہری ضحاک، ابراہیم نخعی، سدی، عطا خراسانی، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ لباس سے مراد سکون ہے، ربیع بن انس لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھاپی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہوگا حضرت قیس بن صرمہ انصاری ؓ دن بھر کھتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے ؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آکر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا ؟ چناچہ جب آدھا دن ہوا تو حضرت قیس بھوک کے مارے بیہوش ہوگئے۔ حضور ﷺ کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ ؓ رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہوجایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہوگیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے آکر یہ واقعہ سنایا تو آپ نے فرمایا عمر تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ حضرت قیس نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھاپی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب مبارشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آگئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا، اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ سے بھی ایسا ہی قصور ہوگیا تھا ماکتب اللہ سے مراد اولاد ہے، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں جب من الفجر کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لئے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے، مسند احمد میں ہے حضرت عدی بن حاتم ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکئے تلے رکھ لئے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو حضرت ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے۔ یہ حدیث بخاری ومسلم میں بھی ہے، مطلب حضور ﷺ کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونون آجاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق ومغرب تک کی ہے، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے، بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہوگی واللہ اعلم۔ بخاری شریف میں حضرت عدی کا اسی طرح کا سوال اور آپ کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے،حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے ( بخاری ومسلم ) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے ( مسلم ) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں ( مسند احمد ) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہوجائے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لئے کھڑے ہوجایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں ( بخاری ومسلم ) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی۔ ( مسند احمد ) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے، مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہوجانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہوجانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہوگئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے جیسے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت علی، ابن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت ابوہریرہ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس، حضرت زید بن ثابت ؓ اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے، جیسے محمد بن علی بن حسین، ابو مجلز، ابراہیم نخعی، ابو الضحی، ابو وائل وغیرہ، شاگردان ابن مسعود، عطا، حسن، حاکم بن عیینہ، مجاہد، عروہ بن زبیر، ابو الشعثائ، جابر بن زیاد، اعمش اور جابر بن رشد کا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسنادیں اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کردی ہے وللہ الحمد ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کرسکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے، بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت بلال ؓ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہوجائے۔ مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ کو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہوجائے، ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے موذن حضرت بلال ؓ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضا لوٹا نے کے لئے ہوتی، فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو ( یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دو ہیں ایک تو بھیڑیے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے۔ حضرت عطا سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پینا حرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے جو روزہ دار کے لئے سب چیزیں حرام کردیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کردیتی ہے اور حج فوت ہوجاتا ہے ان دونون روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ مسئلہ : چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لئے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کرلے اور اپنا روزہ پورا کرلے اس پر کوئی حرج نہں، چاروں اماموں اور سلف وخلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے، بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ رکھتے آپ کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا، حضرت ام سلمہ والی روایت میں ہے پھر آپ نہ افطار کرتے تھے نہ قضا کرتے تھے، صحیح مسلم شریف میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یارسول اللہ ﷺ ہم تو آپ جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھ تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جب صبح کی اذان ہوجائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخار مسلم میں بھی حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے وہ فضل بن عباس سے روایت کرتے ہیں وہ نبی ﷺ سے سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ ، سالم، عطا، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہوگئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمدا غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا حضرت عروہ، طاؤس اور حسن یہی کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کرلے لیکن قضا لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں، ابراہیم نخعی یہی کہتے ہیں، خواجہ حسن بصری سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ والی حدیث حضرت عائشہ والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے۔ ابن حزم فرماتے ہیں اس کی ناسخ یہ آیت قرآنی ہے لیکن یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ اس آیت کا بعد میں ہونا تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ اس حیثیت سے تو بظاہر یہ حدیث اس آیت کے بعد کی ہے، بعض لوگ کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ ؓ والی حدیث میں لاکمال نفی کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے۔ اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہئے، بخاری مسلم میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ادھر سے رات آجائے اور ادھر سے دن چلا جائے تو روزے دار افطار کرلے بخاری مسلم میں حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے، مسند احمد حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں، امام ترمذی ؒ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشری بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کرلیا کرو اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ خود تو ملاتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ ﷺ اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے بخاری ومسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بےافطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملالینے کی ممانعت میں بخاری ومسلم میں حضرت انس حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ ؓ سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں، پس ثابت ہوا کہ امت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ کی ذات اس سے مستثنی تھی آپ کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی مدد کی جاتی تھی، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتا کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے لہا احادیث من ذکراک تشغلہا عن الشراب وتلہیہا عن الزاد یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رک رہنا چاہے تو یہ جائز ہے حضرت ابو سعید خدری ؓ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزے کو روزے سے مت ملاؤ جو ملنا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ تو ملا دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلا دیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے (بخاری مسلم ) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ عورت نبی ﷺ کے پاس آئی آپ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھالو اس نے کہا میں تو روزے سے ہوں آپ نے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا۔ تو آپ نے فرمایا آل محمد ﷺ کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں ؟ ( ابن جریر ) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے درپے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لئے ریاضت کے طور پر تھا واللہ اعلم۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ حضور ﷺ کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر نہ تھا کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں آپ نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا، پس ابن زبیر اور ان کے صاحبزادے عامر اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں، مروی ہے کہ حضرت ابن زبیر ؓ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست و چالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے، ابو العالیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کردیا رہی رات تو جو چاہے کھالے جو نہ چاہے نہ کھائے پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو ابن عباس ؓ کا قول ہے جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہوجائے حضرت ضحاک فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کرلیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا مجاہد اور قتادہ بھی یہی کہتے ہیں پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لئے گھر میں جائے مثلا پیشاب پاخانہ کے لئے یا کھانا کھانے کے لئے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لئے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لئے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ۔ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہئے یا رمضان کے آخر میں آنحضرت ﷺ بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو وفات آئی آپ کے بعد امہات المومنین آپ کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں ( بخاری ومسلم ) بخاری ومسلم میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آپ کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لئے حضور ساتھ ہو لئے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے۔ آپ نے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ ! ( کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہوسکتا ہے ؟ ) آپ نے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ اپنے اس واقعہ سے اپنی امت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ حضور ﷺ کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں واللہ اعلم۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس وکنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف کی حالت میں میری طرف جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کردیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کرلیا کرتی ہوں۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کردی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لئے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کرسکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں ؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) 57۔ الحدید :9) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ تعالیٰ تم پر رافت و رحمت کرنے والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 187 اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَام الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ ط۔ احکام روزہ سے متعلق یہ آیت بڑی طویل ہے۔ یہود کے ہاں شریعت موسوی میں روزہ شام کو ہی شروع ہوجاتا تھا اور رات بھی روزے میں شامل تھی۔ چناچہ تعلق زن و شو بھی قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے ہاں سحری وغیرہ کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ جیسے ہی رات کو سوتے روزہ شروع ہوجاتا اور اگلے دن غروب آفتاب تک روزہ رہتا۔ ہمارے ہاں روزے میں نرمی کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ رات کو روزے سے خارج کردیا گیا۔ روزہ بس دن کا ہے اور رات کے وقت روزے کی ساری پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ چناچہ رات کو تعلق زن و شو بھی قائم کیا جاسکتا ہے اور کھانے پینے کی بھی اجازت ہے۔ لیکن بعض مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ہمارے ہاں بھی روزے کے وہی احکام ہیں جو یہود کے ہاں ہیں۔ اس لیے ایسا بھی ہوتا تھا کہ روزوں کی راتوں میں بعض لوگ جذبات میں بیویوں سے مقاربت کرلیتے تھے ‘ لیکن دل میں سمجھتے تھے کہ شاید ہم نے غلط کام کیا ہے۔ یہاں اب ان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ تمہارے لیے روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ط۔ یہ بڑا لطیف کنایہ ہے کہ وہ تمہارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو۔ جیسے لباس میں اور جسم میں کوئی پردہ نہیں ایسے ہی بیوی میں اور شوہر میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ خود لباس ہی تو پردہ ہے۔ ویسے بھی مرد کے اخلاق کی حفاظت کرنے والی بیوی ہے اور بیوی کے اخلاق کی حفاظت کرنے والا مرد ہے۔ مجھے اقبال کا شعر یاد آگیا : نے پردہ نہ تعلیم ‘ نئی ہو کہ پرانی نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد بہرحال مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے ایک ضرورت بھی ہیں اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی بھی کرتے ‘ ہیں۔عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ تم ایک کام کر رہے تھے جو گناہ نہیں ہے ‘ لیکن تم سمجھتے تھے کہ گناہ ہے ‘ پھر بھی اس کا ارتکاب کر رہے تھے۔ اس طرح تم اپنے آپ سے خیانت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ فَتَابَ عَلَیْکُمْ تو اللہ نے تم پر نظر رحمت فرمائی وَعَفَا عَنْکُمْ ج۔ اس سلسلے میں جو بھی خطائیں ہوگئی ہیں وہ سب کی سب معاف سمجھو۔فَالْءٰنَ بَاشِرُوْہُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْص یعنی اولاد ‘ جو تعلق زن و شو کا اصل مقصد ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس تعلق زن و شو کو سکون و راحت کا ذریعہ بنایا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں لِتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا کے الفاظ آئے ہیں۔ اس تعلق کے بعد اعصاب کے تناؤ میں ایک سکون کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس میں یہی حکمت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہر سفر میں ایک زوجۂ محترمہ کو ضرور ساتھ رکھتے تھے۔ اس لیے کہ قائد اور سپہ سالار کو کسی وقت کسی ایسی پریشان کن صورت حال میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں کہ جذبات پر اور اعصاب پر دباؤ ہوتا ہے۔وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص۔ یہ پو پھٹنے کے لیے استعارہ ہے۔ یعنی جب سپیدۂ سحر نمایاں ہوتا ہے ‘ صبح صادق ہوتی ہے اس وقت تک کھانے پینے کی چھوٹ ہے۔ بلکہ یہاں وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا اور کھاؤ اور پیو امر کے صیغے آئے ہیں۔ سحری کرنے کی حدیث میں بھی تاکید آئی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے اور یہود کے روزے کے مابین سحری کا فرق ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے : تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَۃً 22 سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحری میں برکت ہے۔ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج۔ رات تک سے اکثر فقہاء کے نزدیک غروب آفتاب مراد ہے۔ اہل تشیع اس سے ذرا آگے جاتے ہیں کہ غروب آفتاب پر چند منٹ مزید گزر جائیں۔ وَلاَ تُبَاشِرُوْہُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْْمَسٰجِدِ ط۔ یہ رعایت جو تمہیں دی جا رہی ہے اس میں ایک استثناء ہے کہ جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو پھر اپنی بیویوں سے رات کے دوران بھی کوئی تعلق قائم نہ کرو۔ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا ط۔ بعض مقامات پر آتا ہے : تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز نہ کرو ان کو عبور نہ کرو۔ اصلاً حرام تو وہی شے ہوگی کہ حدود سے تجاوز کیا جائے۔ لیکن بہرحال احتیاط اس میں ہے کہ ان حدود سے دور رہا جائے to keep at a safe distance آخری حد تک چلے جاؤ گے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس حد کو عبورنہ کر جاؤ۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ اب اس رکوع کی آخری آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ تقویٰ کا معیار اور اس کی کسوٹی کیا ہے۔ روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے اور یہ سارے احکام تمہیں اسی لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہوجائے اور تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ ہے اکل حلال۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی نیکی نیکی نہیں ہے۔
أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم هن لباس لكم وأنتم لباس لهن علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر ثم أتموا الصيام إلى الليل ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون
سورة: البقرة - آية: ( 187 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 29 )Surah baqarah Ayat 187 meaning in urdu
تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں
- اور رعد اور فرشتے سب اس کے خوف سے اس کی تسبیح و تحمید کرتے
- اے نبی آدم (دیکھنا کہیں) شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ
- اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت دیں یا اس
- وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں
- اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے
- اور موسیٰ نے کہا کہ بھائیو! اگر تم خدا پر ایمان لائے ہو تو اگر
- پس جب پہلے (وعدے) کا وقت آیا تو ہم نے سخت لڑائی لڑنے والے بندے
- ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری آواز
- اور ان (کے مارنے ٹھوکنے) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers