Surah Mujadila Ayat 22 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
[ المجادلة: 22]
جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔ اور وہ ان کو بہشتوں میں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ خدا ان سے خوش اور وہ خدا سے خوش۔ یہی گروہ خدا کا لشکر ہے۔ (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے
Surah Mujadila Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت میں کامل ہوتے ہیں، وہ اللہ اور رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کے دشمنوں سے محبت اور تعلق خاطر نہیں رکھتے۔ گویا ایمان اور اللہ اور رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کے دشمنوں کی محبت ونصرت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے ، مثلاً آل عمران: 28۔ سورۂ توبہ: 24 وغیرہ۔
( 2 ) اس لیے کہ ان کا ایمان ان کو ان کی محبت سے روکتا ہے اور ایمان کی رعایت ، ابوت، بنوت ، اخوت اور خاندان وبرادری کی محبت ورعایت سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) نے عملاً ایسا کرکے دکھایا۔ ایک مسلمان صحابی نے اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی اور اپنے چچا، ماموں اور دیگر رشتے داروں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا، اگر وہ کفر کی حمایت میں کافروں کے ساتھ لڑنے والوں میں شامل ہوتے۔ سیر وتواریخ کی کتابوں میں یہ مثالیں درج ہیں۔ اسی ضمن میں جنگ بدر کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے، جب اسیران بدر کے بارے میں مشورہ ہوا کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔ تو حضرت عمر ( رضي الله عنه )، نے مشورہ دیا تھا کہ ان کافر قیدیوں میں سے ہر قیدی کو اس کے رشتے دار کے سپرد کر دیا جائے جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔ اور اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر ( رضي الله عنه )، کا یہی مشورہ پسند آیا تھا۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ انفال آیت 67 کا حاشیہ )۔
( 3 ) یعنی راسخ اور مضبوط کر دیا ہے۔
( 4 ) روح سے مراد اپنی نصرت خاص، یا نور ایمان ہے جو انہیں ان کی مذکورہ خوبی کی وجہ سے حاصل ہوا۔
( 5 ) یعنی جب یہ اولین مسلمان، صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) ، ایمان کی بنیاد پر اپنے عزیز واقارب سے ناراض ہوگئے، حتیٰ کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل تک کرنے میں تامل نہیں کیا تو اس کے بدلے میں اللہ نے ان کو اپنی رضامندی سے نواز دیا۔ اور ان پر اس طرح اپنے انعامات کی بارش فرمائی کہ وہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے۔ اس لیے آیت میں بیان کردہ اعزاز۔ ” رضي الله عنهم ورضوا عنہ “ اگرچہ خاص صحابہ کرام کے بارے میں نازل نہیں ہوا ہے، تاہم وہ اس کا مصداق اولین اور مصداق اتم ہیں۔ اسی لیے اس کے لغوی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ صفات سے متصف ہر مسلمان ” رضي الله عنه “ کا مستحق بن سکتا ہے، جیسے لغوی معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان شخص پر علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ( دعائیہ جملے کے طور پر ) اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اہل سنت نے ان کے مفہوم لغوی سے ہٹ کر، ان کو صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) اور انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کے لیے بولنا، لکھنا جائز قرار نہیں دیا ہے۔ یہ گویا شعار ہیں۔ ( رضي الله عنهم ) ، صحابہ کے لیے اور علیہم الصلوٰۃ والسلام انبیائے کرام کے لیے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے رحمتہ اللہ علیہ ( اللہ کی رحمت اس پر ہو، یا اللہ اس پر رحم فرمائے ) کا اطلاق لغوی مفہوم کی رو سے زندہ اور مردہ دونوں پر ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کے ضرورت مند زندہ اور مردہ دونوں ہی ہیں۔ لیکن ان کا استعمال مردوں کے لیے خاص ہوچکا ہے۔ اس لیے اسے زندہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔
( 6 ) یعنی یہی گروہ مومنین فلاح سے ہمکنار ہوگا، دوسرے ان کی بہ نسبت ایسے ہی ہوں گے ، جیسے وہ فلاح سے بالکل محروم ہیں، جیسا کہ واقعی وہ آخرت میں محروم ہوں گے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جو حق سے پھرا وہ ذلیل و خوار ہوا اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ حق سے برگشتہ ہیں ہدایت سے دو رہیں اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں احکام شرع کی اطاعت سے الگ ہیں یہ لوگ انتہا درجے کے ذلیل بےوقار اور خستہ حال ہیں، رحمت رب سے دور اللہ کی مہربانی بھری نظروں سے اوجھل اور دنیا و آخرت میں برباد ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فیصلہ کرچکا ہے بلکہ اپنی پہلی کتاب میں ہی لکھ چکا ہے اور مقدر کرچکا ہے جو تقدیر اور جو تحریر نہ مٹے نہ بدلے نہ اسے ہیر پھیر کرنے کی کسی میں طاقت، کہ وہ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول اور اس کے مومن بندے دنیا اور آخرت میں غالب رہیں گے، جیسے اور جگہ ہے ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40۔ غافر:51) ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان دار بندوں کی ضرور ضرور مدد کریں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جس دن گواہ قائم ہوجائیں گے اور جس دن گنہگاروں کو کوئی عذر و معذرت فائدہ نہ پہنچائے گی ان پر لعنت برستی ہوگی اور ان کے لئے برا گھر ہوگا یہ لکھنے والا اللہ قوی ہے اور اس کا لکھا ہوا اٹل ہے وہ غالب وقہار ہے۔ اپنے دشمنوں پر ہر وقت قابو رکھنے والا ہے اس کا یہ اٹل فیصلہ اور طے شدہ امر ہے کہ دونوں جہان میں انجام کے اعتبار سے غلبہ و نصرت مومنوں کا حصہ ہے۔ پھر فرماتا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے دوست اللہ کے دشمنوں سے محبت رکھیں، ایک اور جگہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی دوست نہ بنائیں ایسا کرنے والے اللہ کے ہاں کسی گنتی میں نہیں، ہاں ڈر خوف کے وقت عارضی دفع کے لئے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی گرامی ذات سے ڈرا رہا ہے اور جگہ ہے اے نبی ﷺ آپ اعلان کر دیجئے عارضی دفع کے لئے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی گرامی ذات سے ڈرا رہا ہے اور جگہ ہے اے نبی ﷺ آپ اعلان کر دیجئے کہ اگر تمہارے باپ، دادا، بیٹے، پوتے، بچے، کنبہ، قبیلہ، مال دولت، تجارت حرفت، گھر بار وغیرہ تمہیں اللہ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ کے، اس کی راہ میں جہاد کی نسبت زیادہ عزیز اور محبوب ہیں تو تم اللہ کے عنقریب برس پڑنے والے عذاب کا انتظار کرو اس قسم کے فاسقوں کی رہبری بھی اللہ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ حضرت سعید بن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں یہ آیت حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ بن جراح ؓ کے بارے میں اتری ہے، جنگ بدر میں ان کے والد کفر کی حمایت میں مسلمانوں کے مقابلے پر آئے آپ نے انہیں قتل کردیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے آخری وقت میں جبکہ خلافت کے لئے ایک جماعت کو مقرر کیا کہ یہ لوگ مل کر جسے چاہیں خلیفہ بنالیں اس وقت حضرت ابو عبیدہ کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر یہ ہوتے تو میں انہی کو خلیفہ مقرر کرتا اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایک ایک صفت الگ الگ بزرگوں میں تھی، مثلاً حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے تو اپنے والد کو قتل کیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے قتل کا ارادہ کیا تھا اور حضرت معصب بن عمیر ؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا تھا اور حضرت عمر اور حضرت حمزہ اور حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا تھا واللہ اعلم۔ اسی ضمن میں یہ واقعہ بھی داخل ہوسکتا ہے کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ نے بدری قیدیوں کی نسبت مسلمانوں سے مشورہ کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تو فرمایا کہ ان سے فدیہ لے لیا جائے تاکہ مسلمانوں کی مالی مشکلات دور ہوجائیں مشرکوں سے جہاد کرنے کے لئے آلات حرب جمع کرلیں اور یہ چھوڑ دیئے جائیں کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل اسلام کی طرف پھیر دے، آخر ہیں تو ہمارے ہی کنبے رشتے کے۔ لیکن حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنی رائے اس کے بالکل برخلاف پیش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ جس مسلمان کا جو رشتہ دار مشرک ہے اس کے حوالے کردیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ وہ اسے قتل کر دے ہم اللہ تعالیٰ کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ان مشرکوں کی کوئی محبت نہیں مجھے فلاں رشتہ دار سونپ دیجئے اور حضرت علی کے حوالے عقیل کر دیجئے اور فلاں صحابی کو فلاں کافر دے دیجئے وغیرہ۔ پھر فرماتا ہے کہ جو اپنے دل کو دشمنان اللہ کی محب سے خالی کر دے اور مشرک رشتہ داروں سے بھی محبت چھوڑ دے وہ کامل الایمان شخص ہے جس کے دل میں ایمان نے جڑیں جمالی ہیں اور جن کی قسمت میں سعادت لکھی جا چکی ہے اور جن کی نگاہ میں ایمان کی زینت بچ گئی ہے اور ان کی تائید اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس کی روح سے کی ہے یعنی انہیں قوی بنادیا ہے اور یہی بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں جائیں گے جہاں سے کبھی نہ نکالے جائیں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی یہ اللہ سے خوش، چونکہ انہوں نے اللہ کے رشتہ کنبہ والوں کو ناراض کردیا تھا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ان سے راضی ہوگیا اور انہیں اس قدر دیا کہ یہ بھی خوش خوش ہوگئے۔ اللہ کا لشکر یہی ہے اور کامیاب گروہ بھی یہی ہے، جو شیطانی لشکر اور ناکام گروہ کے مقابل ہے، حضرت ابو حازم اعرج نے حضرت زہری ؒ کو لکھا کہ جاہ دو قسم کی ہے ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری کرتا ہے، جو حضرات عام لوگوں کی نگاہوں میں نہیں جچتے جن کی عام شہرت نہیں ہوتی جن کی صفت اللہ کے رسول ﷺ نے بھی بیان فرمائی ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گمنام متقی نیکو کار ہیں اگر وہ نہ آئیں تو پوچھ گچھ نہ ہو اور آجائیں تو آؤ بھگت نہ ہو ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، ہر سیاہ رنگ اندھیرے والے فتنے سے نکلتے ہیں یہ ہیں وہ اولیاء جنہیں اللہ نے اپنا لشکر فرمایا ہے اور جن کی کامیابی کا اعلان کیا ہے۔ ( ابن ابی حاتم ) نعیم بن حماد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعا میں فرمایا اے اللہ کسی فاسق فاجر کا کوئی احسان اور سلوک مجھ پر نہ رکھ کیونکہ میں نے تیری نازل کردہ وحی میں پڑھا ہے کہ ایماندار اللہ کے مخالفین کے دوست نہیں ہوتے، حضرت سفیان فرماتے ہیں علمائے سلف کا خیال ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو بادشاہ سے خلط ملط رکھتے ہوں ( ابو احمد عسکری ) الحمد اللہ سورة مجادلہ کی تفسیر ختم ہوئی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 22{ لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ } ” تم نہیں پائو گے ان لوگوں کو جو حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر کہ وہ محبت کرتے ہوں ان سے جو مخالفت کر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی “ یہ حکم ان کفار و مشرکین کے لیے ہے جو اسلام کی مخالفت میں فعال active اور سرگرم عمل ہوں۔ جہاں تک ان کفار و مشرکین کا تعلق ہے جو ایسی کسی جدوجہد میں بالفعل فعال نہ ہوں ‘ ان کے بارے میں حکم آگے سورة الممتحنة میں آئے گا۔ { وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْط } ” خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے ہوں یا ان کے بھائی ہوں یا ان کے رشتے دار ہوں۔ “ آیت کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے سورة التوبة کی آیت 24 کا مضمون بھی ذہن میں تازہ کرلیں :{ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ } ” اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘ تمہارے بیٹے ‘ تمہارے بھائی ‘ تمہاری بیویاں اور بیویوں کے لیے شوہر ‘ تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘ اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘ اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ‘ اگر یہ سب چیزیں تمہیں محبوب تر ہیں اللہ ‘ اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد سے ‘ تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔ اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔ “ ان آیات کا پیغام بہت واضح ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ایک بندئہ مسلمان کی محبت کا اصل امتحان عشق رسول ﷺ کے زبانی دعوے اور نعتیہ اشعار میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے نہیں ‘ بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے ہوگا۔ اگر تو وہ اس آیت میں مذکور اپنی آٹھ محبتوں کو تج کر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمربستہ ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں سچا ہے ‘ لیکن اگر وہ اس کے لیے عملاً تیار نہیں ہے تو اس کے زبانی دعو وں کی کوئی حیثیت نہیں۔ { اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ } ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے “ دلوں کے اندر ایمان لکھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان پختہ کردیا ہے۔ یعنی ایمان اب ان کے دلوں میں نقش کا لحجر پتھر پر لکیر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ { وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُط } ” اور اس نے ان کی مدد کی ہے اپنی طرف سے روح کے ساتھ “ روح سے مراد یہاں فرشتہ بھی ہوسکتا ہے ‘ الہام بھی ہوسکتا ہے اور اللہ کا خصوصی فضل بھی ہوسکتا ہے۔ غرض اللہ کی طرف سے غیر مرئی انداز میں مدد کی کوئی صورت بھی ہوسکتی ہے۔ { وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط } ” اور وہ داخل کرے گا انہیں ان باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی ‘ جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ “ { رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط } ” اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ “ اس کا ترجمہ ایسے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ” اللہ ان سے راضی ہوجائے گا اور وہ اس سے راضی ہوجائیں گے۔ “ { اُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِط } ” یہ لوگ ہیں اللہ کی جماعت ! “ { اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ } ” آگاہ ہو جائو ! یقینا اللہ کی جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ “ سورة المائدۃ میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ } کہ یقینا اللہ کی جماعت کے لوگ ہی غالب رہنے والے ہیں۔ اگر حزب اللہ کی جدوجہد کے نتیجے میں اللہ کا دین دنیا میں غالب ہوجاتا ہے تو یہ یقینا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اصل اور حقیقی کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے ‘ جس کی بشارت ” حزب اللہ “ والوں کو اس آیت میں دی جا رہی ہے۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! آمین یارَبَّ الْعَالمین !
لا تجد قوما يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله ولو كانوا آباءهم أو أبناءهم أو إخوانهم أو عشيرتهم أولئك كتب في قلوبهم الإيمان وأيدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الأنهار خالدين فيها رضي الله عنهم ورضوا عنه أولئك حزب الله ألا إن حزب الله هم المفلحون
سورة: المجادلة - آية: ( 22 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 545 )Surah Mujadila Ayat 22 meaning in urdu
تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ اُن کے باپ ہوں، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہل خاندان یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناتے کام آئیں گے اور نہ اولاد۔ اس روز
- خدا ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ ٹل نہ جائیں۔ اگر وہ
- (یہ کتاب خدائے) رحمٰن ورحیم (کی طرف) سے اُتری ہے
- اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں
- ہم اس بستی کے رہنے والوں پر اس سبب سے کہ یہ بدکرداری کرتے رہے
- کہ (اے محمدﷺ) تم اپنے پروردگار کے فضل سے دیوانے نہیں ہو
- اس روز تم (سب لوگوں کے سامنے) پیش کئے جاؤ گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ
- وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں (اسی طرح) تم
- وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں (اور اس سے
- جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے
Quran surahs in English :
Download surah Mujadila with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Mujadila mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Mujadila Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers