Surah baqarah Ayat 220 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
[ البقرة: 220]
(یعنی) دنیا اور آخرت (کی باتوں) میں (غور کرو) ۔ اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے۔ اور اگر تم ان سے مل جل کر رہنا (یعنی خرچ اکھٹا رکھنا) چاہو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون۔ اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا۔بےشک خدا غالب (اور) حکمت والا ہے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب یتیموں کا مال ظلما کھانے والوں کے لئے وعید نازل ہوئی تو صحابہ کرام ( رضي الله عنه ) م ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی، اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس وعید کے مستحق نہ قرار پاجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن کثیر )
( 2 ) یعنی تمہیں بغرض اصلاح وبہتری بھی، ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حرمت شراب کیوں ؟ جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورة بقرہ کی یہ آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ) 2۔ البقرۃ :219) نازل ہوئی حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورة نساء کی آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ) 4۔ النساء:43) نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر اس پر سورة مائدہ کی آیت ( انما الخمر۔ الخ ) اتری جب فاروق اعظم ؓ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ ( فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ) 5۔ المائدة:91) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد، ترمذی اور نسائی وغیرہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے ( انتہینا انتہینا ) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہ والی اور روایتیں سورة مائدہ کی آیت ( انما الخمر ) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورة مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہوجائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں، اسی طرح اس کی خریدو فروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہوجائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہوجائے، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چناچہ آخرکار سورة مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے ؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورة مائدہ میں آئے گا، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورة نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورة مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہوگئی۔عفو اور اس کی وضاحتیں ( فل العفو ) کی ایک قرأت قل العفو بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہوسکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں، حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ثعلبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ حضور ﷺ ! ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مال دار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں ؟ جس کے جواب میں آیت ( قل العفو ) کہا گیا یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے، حضرت طاؤس کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو، ربیع کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حضرت حسن فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لئے بیٹھ جاؤ، چناچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا حضور ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا حضرت ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی کرسکتا ہے۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور اور حاجت مندوں پر، اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لئے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لئے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ابن عباس کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہوگیا، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے، ٹھیک قول یہی ہے۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بےرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہوجاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور وتدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے۔ یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری۔ پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت ( وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6۔ الأنعام:152) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ) 4۔ النساء:10)۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کردیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہوجائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیاں یتیم بھی تنگ آگئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آکر حضور ﷺ سے عرض کی جس پر یہ آیت ( قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ) 2۔ البقرۃ :220) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی، ابو داود و نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے، حضرت صدیقہ ؓ فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لئے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہئے، قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تمہیں تکلیف ومشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کردی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لئے مباح قرار دیا، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لاسکتا ہے، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے، یہ مسائل انشاء اللہ وضاحت کے ساتھ سورة نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 220 فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط۔ تمہارا یہ غور و فکر دنیا کے بارے میں بھی ہونا چاہیے اور آخرت کے بارے میں بھی۔ دنیا میں بھی اسلام رہبانیت نہیں سکھاتا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ نہ کھاؤ ‘ نہ پیو ‘ چلے کشی کرو ‘ جنگلوں میں نکل جاؤ ! نہیں ‘ اسلام تو متمدن زندگی کی تعلیم دیتا ہے ‘ گھر گھرہستی اور شادی بیاہ کی ترغیب دیتا ہے ‘ بیوی بچوں کے حقوق بتاتا ہے اور ان کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں آخرت کی بھی فکر کرنی چاہیے ‘ اور دنیا و آخرت کے معاملات میں ایک نسبت و تناسب ratio proportion قائم رہنا چاہیے۔ دنیا کی کتنی قدر و قیمت ہے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی کتنی قدر و قیمت ہے ‘ اس کا صحیح طور پر اندازہ کرنا چاہیے۔ اگر یہ اندازہ غلط ہوگیا اور کوئی غلط تناسب قائم کرلیا گیا تو ہرچیز تلپٹ ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر ایک دوا کے نسخے میں کوئی چیز کم تھی ‘ کوئی زیادہ تھی۔ اگر آپ نے جو چیز کم تھی اسے زیادہ کردیا اور جو زیادہ تھی اسے کم کردیا تو اب ہوسکتا ہے یہ نسخۂ شفا نہ رہے ‘ نسخہ ہلاکت بن جائے۔وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی ط قُلْ اِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ ط ان کی مصلحت کو پیش نظر رکھنا بہتر ہے ‘ نیکی ہے ‘ بھلائی ہے۔ اصل میں لوگوں کے سامنے سورة بنی اسرائیل کی یہ آیت تھی : وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ الاَّ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ آیت 34 اور مال یتیم کے قریب تک نہ پھٹکو ‘ مگر ایسے طریقے پر جو یتیم کے حق میں بہتر ہو۔ چناچہ وہ مال یتیم کے بارے میں انتہائی احتیاط کر رہے تھے اور انہوں نے یتامٰی کی ہنڈیاں بھی علیحدہ کردی تھیں کہ مبادا ان کے حصے کی کوئی بوٹی ہمارے پیٹ میں چلی جائے۔ لیکن اس طرح یتامٰیکی دیکھ بھال کرنے والے لوگ تکلیف اور حرج میں مبتلا ہوگئے تھے۔ کسی کے گھر میں یتیم پرورش پا رہا ہے تو اس کا خرچ الگ طور پر اس کے مال میں سے نکالا جا رہا ہے اور اس کے لیے الگ ہنڈیا پکائی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اس حکم سے یہ مقصد نہیں تھا ‘ مقصد یہ تھا کہ تم کہیں ان کے مال ہڑپ نہ کر جاؤ ‘ ان کے لیے اصلاح اور بھلائی کا معاملہ کرنا بہتر طرزعمل ہے۔وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ط۔ وہ جانتا ہے کہ کون بدنیتی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور کون یتیم کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ یہ ہنڈیا علیحدہ کر کے بھی گڑبڑ کرسکتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو ہنڈیا مشترک کر کے بھی حق پر رہ سکتا ہے۔وَلَوْ شَاء اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ط۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں مشقت اور سختی سے بچایا اور تم پر آسانی فرمائی۔اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ وہ انتہائی مشقت پر مبنی سخت سے سخت حکم بھی دے سکتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ زبردست ہے ‘ لیکن وہ انسانوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا ‘ بلکہ اس کے ہر حکم کے اندر حکمت ہوتی ہے۔ اور جہاں حکمت نرمی کی متقاضی ہوتی ہے وہاں وہ رعایت دیتا ہے۔
في الدنيا والآخرة ويسألونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير وإن تخالطوهم فإخوانكم والله يعلم المفسد من المصلح ولو شاء الله لأعنتكم إن الله عزيز حكيم
سورة: البقرة - آية: ( 220 ) - جزء: ( 2 ) - صفحة: ( 35 )Surah baqarah Ayat 220 meaning in urdu
پوچھتے ہیں: یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ کہو: جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو، وہی اختیار کرنا بہتر ہے اگر تم اپنا اور اُن کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے، دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے اللہ چاہتا تو اس معاملے میں تم پر سختی کرتا، مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور نہ زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں۔ خدا جس کو چاہتا ہے سنا دیتا
- اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔
- ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں اور وہ ان سے منہ پھرتے رہے
- اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو خدا کی پناہ
- لیکن ہم نے (موسٰی کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت
- میں تو تمہارا امانت دار ہوں
- اور جب الله کے ہاں سے ان کے پاس کتاب آئی جو ان کی (آسمانی)
- پس انہوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اسی وقت صریح اژدہا بن گئی
- اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف
- پھر نوح کے بعد ہم نے اور پیغمبر اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔ تو
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers