Surah maryam Ayat 23 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا﴾
[ مريم: 23]
پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مرچکتی اور بھولی بسری ہوگئی ہوتی
Surah maryam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کر سکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوگا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ وزاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مریم ( علیہا السلام ) اور حضرت جبرائیل ؑ۔مروی ہے کہ جب آپ فرمان الہٰی تسلیم کر چکیں اور اس کے آگے گردن جھکا دی تو حضرت جبرائیل ؑ نے ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری۔ جس سے انہیں بحکم رب حمل ٹھہر گیا اب تو سخت گبھرائیں اور یہ خیال کلیجہ مسوسنے لگا کہ میں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ لاکھ اپنی برات پیش کروں لیکن اس انوکھی بات کو کون مانے گا ؟ اسی گھبراہٹ میں آپ تھیں کسی سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا تھا ہاں جب آپ اپنی خالہ حضرت زکریا ( علیہا السلام ) کی بیوی کے پاس گئیں تو وہ آپ سے معانقہ کرکے کہنے لگیں بچی اللہ کی قدرت سے اور تمہارے خالو کی دعا سے میں اس عمر میں حاملہ ہوگئی ہوں۔ آپ نے فرمایا خالہ جان میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا اور میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتی ہوں چونکہ یہ گھرانہ نبی کا گھرانہ تھا۔ وہ قدرت الہٰی پر اور صداقت مریم پر ایمان لائیں۔ اب یہ حالت تھی کہ جب کبھی یہ دونوں پاک عورتیں ملاقات کرتیں تو خالہ صاحبہ یہ محسوس فرماتیں کہ گویا ان کا بچہ بھانجی کے بچے کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے۔ ان کے مذہب میں یہ جائز بھی تھا اسی وجہ سے حضرت یوسف ؑ کے بھائیوں نے اور آپ کے والد نے آپ کو سجدہ کیا تھا۔ اور اللہ نے فرشتوں کو حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ہماری شریعت میں یہ تعظیم اللہ کے لیے مخصوص ہوگئی اور کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہوگیا کیونکہ یہ تعظیم الہٰی کے خلاف ہے۔ اس کی جلالت کے شایان شان نہیں۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ ؑ خالہ زاد بھائی تھے۔ دونوں ایک ہی وقت حمل میں تھے۔ حضرت یحییٰ ؑ کی والدہ اکثر حضرت مریم سے فرماتی تھیں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں اس سے حضرت عیسیٰ ؑ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے ہاتھوں اپنے حکم سے مردوں کو زندہ کردیا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کردیا۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ آپ نو مہینے تک حمل میں رہے۔ عکرمہ ؒ فرماتے ہیں آٹھ ماہ تک۔ اسی لئے آٹھ ماہ کے حمل کا بچہ عموما زندہ نہیں رہتا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں حمل کے ساتھ ہی بچہ ہوگیا۔ یہ قول غریب ہے۔ ممکن ہے آپ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا ہو کیونکہ حمل کا الگ ہونے کا اور دردزہ کا ذکر ان آیتوں میں " " کے ساتھ ہے اور " " تعقیب کے لئے آتی ہے۔ لیکن تعقیب ہر چیز کی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے عام انسانوں کی پیدائش کا حال آیت قرآن ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ۚ ) 23۔ المؤمنون :12) میں ہوا ہے کہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا پھر اسے بصورت نطفہ رحم میں ٹھہرایا پھر نطفے کو پھٹکی بنایا پھر اس پھٹکی کو لو تھڑا بنایا، پھر اس لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کیں۔ یہاں بھی دو جگہ " " ہے اور ہے بھی تعقیب کے لیے۔ لیکن حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دو حالتوں میں چالیس دن کا فاصلہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت میں ہے ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ 63ۚ ) 22۔ الحج:63) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے۔ پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پانی برسنے کے بعد سبزہ اگتا ہے۔ حالانکہ " " یہاں بھی ہے پس تعقیب ہر چیز کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ مثل عادت عورتوں کے آپ نے حمل کا زمانہ پورا گزارا مسجد میں ہی۔ مسجد کے خادم ایک صاحب اور تھے جن کا نام یوسف نجار تھا۔ انہوں نے جب مریم ( علیہا السلام ) کا یہ حال دیکھا تو دل میں کچھ شک سا پیدا ہوا لیکن حضرت مریم کے زہد وتقوی، عبادت وریاضت، خشیت الہٰی اور حق بینی کو خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ برائی دل سے دور کرنی چاہی، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے حمل کا اظہار ہوتا گیا اب تو خاموش نہ رہ سکے ایک دن با ادب کہنے لگے کہ مریم میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ناراض نہ ہونا بھلا بغیر بیج کے کسی درخت کا ہونا، بغیر دانے کے کھیت کا ہونا، بغیر باپ کے بچے کا ہونا ممکن بھی ہے ؟ آپ ان کے مطلب کو سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ یہ سب ممکن ہے سب سے پہلے جو درخت اللہ تعالیٰ نے اگایاوہ بغیر بیج کے تھا۔ سب سے پہلے جو کھیتی اللہ نے اگائی وہ بغیر دانے کی تھی، سب سے پہلے اللہ نے آدم ؑ کو پیدا کیا وہ بےباپ کے تھے بلکہ بےماں کے بھی ان کی تو سمجھ میں آگیا اور حضرت مریم ( علیہا السلام ) اور اللہ کی قدرت کو نہ جھٹلا سکے۔ اب حضرت صدیقہ نے جب دیکھا کہ قوم کے لوگ ان پر تہمت لگا رہے ہیں تو آپ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر دور دراز چلی گئیں۔ امام محمد بن اسحاق ؒ فرماتے ہیں جب حمل کے حالات ظاہر ہوگئے قوم نے پھبتیاں پھینکی، آوازے کسنے اور باتیں بنانی شروع کردیں اور حضرت یوسف نجار جیسے صالح شخص پر یہ تہمت اٹھائی تو آپ ان سب سے کنارہ کش ہوگئیں نہ کوئی انہیں دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں۔ جب دردزہ اٹھا تو آپ کجھور کے ایک درخت کی جڑ میں آبیٹھیں کہتے ہیں کہ یہ خلوت خانہ بیت المقدس کی مشرقی جانب کا حجرہ تھا۔ یہ بھی قول ہے کہ شام اور مصر کے درمیان آپ پہنچ چکی تھیں اس وقت بچہ ہونے کا درد شروع ہوا۔ اور قول ہے کہ بیت المقدس سے آپ آٹھ میل چلی گئی تھیں اس بستی کا نام بیت لحم تھا۔ معراج کے واقعہ کے بیان میں پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کی جگہ بھی بیت لحم تھا۔ واللہ اعلم۔ مشہور بات بھی یہی ہے اور نصرانیوں کا تو اس پر اتفاق ہے اور اس حدیث میں بھی ہے اگر یہ صحیح ہو۔ اس وقت آپ موت کی تمنا کرنے لگیں کیونکہ دین کے فتنے کے وقت یہ تمنا بھی جائز ہے۔ جانتی تھیں کہ کوئی انہیں سچا نہ کہے گا انکے بیان کردہ واقعہ کو ہر شخص گھڑنت سمجھے گا۔ دنیا آپ کو پریشان کر دے گی اور عبادت واطمینان میں خلل پڑے گا۔ ہر شخص برائی سے یاد کرے گا اور لوگوں پر برا اثر پڑے گا۔ تو فرمانے لگیں کاش کہ میں اس حالت سے پہلے ہی اٹھالی جاتی بلکہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی اس قدر شرم وحیا دامن گیر ہوئی کہ آپ نے اس تکلیف پر موت کو ترجیح دی اور تمنا کی کہ کاش میں کھوئی ہوئی اور یاد سے اتری ہوئی چیز ہوجاتی کہ نہ کوئی یاد کرے۔ نہ ڈھونڈے، نہ ذکر کرے، احادیث میں موت مانگنے کی ممانعت وارد ہے۔ ہم نے ان روایتوں کو آیت ( تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ01001 ) 12۔ يوسف:101) ، کی تفسیر بیان کردیا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 23 فَاَجَآءَ ہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ ولادت کے وقت جب درد زہ کی شدت بڑھی تو حضرت مریم نے سہارے کے لیے ایک کھجور کے تنے کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ یہ درد کی شدت کو برداشت کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر عورت وضع حمل کے وقت کسی چیز کو مضبوطی سے تھام لے تو اس میں درد کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّااللہ کی وہ بندی ممکنہ اندیشوں سے کانپ رہی تھی کہ اب میں اس بچے کا کیا کروں گی ؟ لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی ؟ دنیا کیا کہے گی ؟ کاش یہ وقت آنے سے پہلے ہی مجھے موت آگئی ہوتی اور میری یاد تک لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوچکی ہوتی۔
فأجاءها المخاض إلى جذع النخلة قالت ياليتني مت قبل هذا وكنت نسيا منسيا
سورة: مريم - آية: ( 23 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 306 )Surah maryam Ayat 23 meaning in urdu
پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھُجور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا وہ کہنے لگی " کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ
- (جنہوں نے) یہ (کہا) کہ خدا کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کردو
- اور ہم ہر ایک اُمت میں سے گواہ نکال لیں گے پھر کہیں گے کہ
- تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ
- اور جب شام کو انہیں (جنگل سے) لاتے ہو اور جب صبح کو (جنگل) چرانے
- کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو، جس
- پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائے گا)
- میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور
- ذوالقرنین نے کہا کہ خرچ کا جو مقدور خدا نے مجھے بخشا ہے وہ بہت
- وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں ان ہی میں سے (محمدﷺ) کو پیغمبر
Quran surahs in English :
Download surah maryam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah maryam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter maryam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers