Surah Maidah Ayat 51 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
[ المائدة: 51]
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
Surah Maidah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس میں یہود ونصاریٰ سے موالات ومحبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے سمجھا جائے گا۔ ( مزید دیکھئے سورۂ آل عمران آیت 28 اور آیت 118 کا حاشیہ )
( 2 ) قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کا اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض وعناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔
( 3 ) ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری ( رضي الله عنه ) اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبداللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ ( رضي الله عنه ) نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کردیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
دشمن اسلام سے دوستی منع ہے دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ " وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے "۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا لوگو ! تمہیں اس سے بچنا چاہئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے۔ ابن عباس سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آگئے تو پھر ہماری تباہی کردیں گے، اس لئے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہوجائے، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دے دے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہوگئے۔ ( ویقول ) تو جمہور کی قرأت ہے۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے۔ یقول تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی ( یقول ) ہے تو یہ ( فعسی ) پر عطف ہوگا گویا ( وان یقول ) ہے۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے، دوسرے نے کہا، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں " لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور ﷺ نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور ﷺ ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ تو آپ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے "۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت ﷺ سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں، مجھے اللہ رسول ﷺ کی دوستی کافی ہے۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں، دور کی سوچنے کا عادی ہوں، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑجائے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا، اس پر یہ آیتیں اتریں۔ ایک روایت میں ہے کہ " جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کرلو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بےبہرہ ہیں، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہوجانا، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتادیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہوچکا ہے۔ جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آگئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا، حضور ﷺ میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے، حضور ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، اس نے پھر کہا، آپ نے منہ موڑ لیا، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! میں نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے۔ آخر حضور ﷺ نے فرمایا، جا وہ سب تیرے لئے ہیں "۔ ایک روایت میں ہے کہ " جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور ﷺ سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور ﷺ کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی "۔ اس پر یہ آیتیں ( ہم الغالبون ) تک اتریں۔ مسند احمد میں ہے کہ " اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے حضور ﷺ تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا، میں نے تو تجھے بار ہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مرگیا "۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 51 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط ان میں سے بعض بعض کے پشت پناہ اور مددگار ہیں۔ یہ درحقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو اس دور میں آکر پوری ہوئی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو صورت حال وہ تھی جو ہم قبل ازیں اس سورة کی آیت 14 میں پڑھ آئے ہیں : فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط پس ہم نے ان کے مابین عداوت اور بغض کی آگ بھڑکا دی روز قیامت تک کے لیے۔ چناچہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین ہمیشہ شدید دشمنی رہی ہے اور آپس میں کشت و خون ہوتا رہا ہے ‘ لیکن زیر نظر الفاظ بَعضُھُمْ اَوْلیَاءُ بَعْضٍ میں جو پیشین گوئی تھی وہ بیسویں صدی میں آکر پوری ہوئی ہے۔ بالفور ڈیکلریشن 1917 ء کے بعد کی صورت حال میں ان کا باہمی گٹھ جوڑ شروع ہوا ‘ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکہ کے زیراثر اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی ‘ اور اب بھی اگر وہ قائم ہے تو اصل میں انہی عیسائی ملکوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قائم ہے۔ عیسائی اب یہودیوں کی اس لیے پشت پناہی کر رہے ہیں کہ ان کی ساری معیشت یہودی بینکاروں کے زیر تسلط ہے۔ عیسائیوں کی معیشت پر یہودیوں کے قبضہ کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ اس درجہ مستحکم ہوچکا ہے کہ آج عیسائیوں کی پوری عسکری طاقت یہودیوں کی پشت پر ہے۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط۔یعنی جو کوئی ان سے دوستی کے معاہدے کرے گا ‘ ان سے نصرت و حمایت کا طلب گار ہوگا ‘ ہماری نگاہوں میں وہ یہودی یا نصرانی شمار ہوگا۔ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ آج ہمارے اکثر مسلمان ممالک کی پالیسیاں کیا ہیں اور اس سلسلے میں قرآن کا فتویٰ کیا ہے ‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔
ياأيها الذين آمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى أولياء بعضهم أولياء بعض ومن يتولهم منكم فإنه منهم إن الله لا يهدي القوم الظالمين
سورة: المائدة - آية: ( 51 ) - جزء: ( 6 ) - صفحة: ( 117 )Surah Maidah Ayat 51 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی (تہمت
- ان کاموں کی جو وہ کرتے رہے
- وہی فرشتوں کو پیغام دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے
- وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس
- (یعنی) آگ (کی خندقیں) جس میں ایندھن (جھونک رکھا) تھا
- (خدا) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟
- اور جب آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے
- پھر ظالم لوگوں سے کہا جائے گا کہ عذاب دائمی کا مزہ چکھو۔ (اب) تم
- وہاں ان کو چلاّنا ہوگا اور اس میں (کچھ) نہ سن سکیں گے
- جب یہ (سب لوگ) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے
Quran surahs in English :
Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers