Surah Saad Ayat 24 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩﴾
[ ص: 24]
انہوں نے کہا کہ یہ جو تیری دنبی مانگتا ہے کہ اپنی دنبیوں میں ملالے بےشک تجھ پر ظلم کرتا ہے۔ اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی ہی کیا کرتے ہیں۔ ہاں جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ اور داؤد نے خیال کیا کہ (اس واقعے سے) ہم نے ان کو آزمایا ہے تو انہوں نے اپنے پروردگار سے مغفرت مانگی اور جھک کر گڑ پڑے اور (خدا کی طرف) رجوع کیا
Surah Saad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ اس لئےکسی پر زیادتی کرنا اور دوسرے کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
( 2 ) وَخَرَّ رَاكِعًا کا مطلب یہاں سجدے میں گر پڑنا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مفسرین نے یہاں پر ایک قصہ بیان کیا ہے لیکن اس کا اکثر حصہ بنو اسرائیل کی روایاتوں سے لیا گیا ہے۔ حدیث سے ثابت نہیں۔ ابن ابی حاتم میں ایک حدیث ہے لیکن وہ بھی ثابت نہیں کیونکہ اس کا ایک راوی یزید رقاشی ہے گو وہ نہایت نیک شخص ہے لیکن ہے ضعیف۔ پس اولیٰ یہ ہے کہ قرآن میں جو ہے اور جس پر یہ شامل ہے وہ حق ہے۔ حضرت داؤد کا انہیں دیکھ کر گھبرانا اس وجہ سے تھا کہ وہ اپنے تنہائی کے خاص خلوت خانے میں تھے اور پہرہ داروں کو منع کیا تھا کہ کوئی بھی آج اندر نہ آئے اور یکایک ان دونوں کو جو دیکھا تو گھبرا گئے۔ عزنی الخ، سے مطلب بات چیت میں غالب آجانا دوسرے پر چھا جانا ہے۔ حضرت داؤد سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے پس وہ رکوع سجدہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھک پڑے۔ مذکور ہے کہ چالیس دن تک سجدہ سے سر نہ اٹھایا پس ہم نے اسے بخش دیا۔ یہ یاد رہے کہ جو کام عوام کے لئے نیکیوں کے ہوتے ہیں وہی کام خواص کے لئے بعض مرتبہ بدیوں کے بن جاتے ہیں۔ یہ آیت سجدے کی ہے یا نہیں ؟ اس کی بات امام شافعی کا جدید مذہب تو یہ ہے کہ یہاں سجدہ ضروری نہیں یہ تو سجدہ شکر ہے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ ص ضروری سجدوں میں سے نہیں ہاں میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ( بخاری وغیرہ ) نسائی میں ہے کہ حضور ﷺ نے یہاں سجدہ کر کے فرمایا یہ سجدہ حضرت داؤد کا تو توبہ کے لئے تھا اور ہمارا شکر کے لئے ہے۔ ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں اور نماز میں میں نے سجدے کی آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا تو میرے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا اور میں نے سنا کہ وہ یہ دعا مانگ رہا تھا یعنی اے اللہ ! میرے اس سجدے کو تو میرے لئے اپنے پاس اجر اور خزانے کا سبب بنا اور اس سے تو میرا بوجھ ہلکا کر دے اور اسے مجھ سے قبول فرما جیسے کہ تو نے اپنے بندے داؤد کے سجدے کو قبول فرمایا۔ ابن عباس فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سجدے کی آیت کو پڑھ کر سجدہ کیا اور اس سجدے میں وہی دعا پڑھی جو اس شخص نے درخت کی دعا نقل کی تھی۔ ابن عباس اس آیت کے سجدے پر یہ دلیل وارد کرتے تھے کہ قرآن نے فرمایا ہے اس کی اولاد میں سے داؤد سلیمان ہیں جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی پس تو اے نبی ﷺ ان کی ہدایت کی پیروی کر پس حضور ﷺ ان کی اقتداء کے مامور تھے اور یہ صاف ثابت ہے کہ حضرت داؤد ؑ نے سجدہ کیا اور حضور ﷺ نے بھی یہ سجدہ کیا۔ ابو سعید خدری ؓ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میں سورة ص لکھ رہا ہوں جب آیت سجدہ تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ قلم اور دوات اور میرے آس پاس کی تمام چیزوں نے سجدہ کیا۔ انہوں نے اپنا یہ خواب حضور ﷺ سے بیان کیا پھر آپ اس آیت کی تلاوت کے وقت برابر سجدہ کرتے رہے ( احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ حضور ﷺ نے منبر پر سورة ص پڑھی اور سجدے کی آیت تک پہنچ کر منبر سے اتر کر آپ سجدہ تک پہنچے تو لوگوں نے سجدے کی تیاری کی آپ نے فرمایا یہ تو ایک نبی کی توبہ کا سجدہ تھا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم سجدہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہو چناچہ آپ اترے اور سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اسے بخش دیا۔ قیامت کے دن اس کی بڑی منزلت اور قدر ہوگی نبیوں اور عادلوں کا درجہ وہ پائیں گے۔ حدیث میں ہے عادل لوگ نور کے ممبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ عادل وہ ہیں جو اپنی اہل و عیال میں اور جن کے وہ مالک ہوں عدل و انصاف کرتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ اللہ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ بادشاہ ہوں گے جو عادل ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے سخت عذاب والے وہ ہوں گے جو ظالم بادشاہ ہوں۔ ( ترمذی وغیرہ ) حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد ؑ کو عرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اے داؤد جس پیاری درد ناک میٹھی اور جاذب آواز سے تم میری تعریفیں دنیا میں کرتے تھے اب بھی کرو۔ آپ فرمائیں گے باری تعالیٰ اب وہ آواز کہاں رہی ؟ اللہ فرمائے گا میں نے وہی آواز آج تمہیں پھر عطا فرمائی۔ اب حضرت داؤد ؑ اپنی دلکش اور دلربا آواز نکال کر نہایت وجد کی حالت میں اللہ کی حمد وثناء بیان کریں گے جسے سن کر جنتی اور نعمتوں کو بھی بھول جائیں گے اور یہ سریلی آواز اور نورانی گلا انہیں سب نعمتوں سے ہٹا کر اپنی طرف متوجہ کرے گا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 24 { قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ } ” دائود علیہ السلام نے کہا کہ یہ تو واقعتا اس نے بہت ظلم کیا ہے ‘ تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے۔ “ { وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ } ” اور یقینا مشترک معاملہ رکھنے والوں میں سے اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں “ قریبی رشتہ داروں کے باہمی اشتراک کو پنجابی میں ” شریکا “ کہا جاتا ہے اور شری کے والوں میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ جس کسی کو جہاں موقع ملتا ہے وہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے میں نہیں چوکتا۔ { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ } ” سوائے ان لوگوں کے جو صاحب ِ ایمان اور نیک عمل والے ہوں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ “ { وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ } ” اور دائود علیہ السلام کو اچانک خیال آیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے “ حضرت دائود علیہ السلام سمجھ گئے کہ ان دو اشخاص کا ان کے پاس آنا اور آکر مقدمہ پیش کرنا اللہ کی طرف سے تھا اور اللہ نے یہ ساری صورت حال انہیں متنبہ کرنے کے لیے پیدا فرمائی تھی۔ { فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ } ” تو اس نے فوراً اپنے رب سے استغفار کیا اور اس کے حضور جھک گیا پوری طرح متوجہ ہو کر۔ “ رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں ‘ لہٰذا یہاں رَاکِعًا سے رکوع بھی مراد ہوسکتا ہے اور سجدہ بھی۔ اس واقعہ کے حوالے سے جو اسرائیلی روایت دستیاب ہے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رض کا ایک اثر قول بھی موجود ہے جس کے مرفوع ہونے کے بارے میں کوئی واضح اشارہ یا ثبوت موجود نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے حضور ﷺ سے اس بارے میں سنا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اسرائیلی روایت سنی ہو اور اسی کو بیان کردیا ہو واللہ اعلم۔ بہر حال میری رائے اس حوالے سے یہی ہے کہ انبیاء کے معاملے میں بشری تقاضوں کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ سورة الأحزاب کی آیت 52 ہم پڑھ چکے ہیں ‘ جس میں حضور ﷺ سے فرمایا گیا ہے : { لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْم بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ } ” اس کے بعد اب مزید عورتیں آپ ﷺ کے لیے نکاح میں لانا جائز نہیں اور نہ یہ کہ آپ ان کی جگہ دوسری بیویاں بدل لیں اگرچہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو ! “ ان الفاظ میں حضور ﷺ کی خواہش کے امکان کا ذکر بہت واضح انداز میں ملتا ہے کہ اگر آپ ﷺ کی طبیعت میں کسی خاتون سے نکاح کرنے کے بارے میں آمادگی پیدا ہو بھی جائے تو بھی آپ ﷺ ایسا نہ کریں۔ چناچہ اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ انبیاء انسان تھے اور ان کی شخصیات میں انسانی و بشری تقاضے بھی موجود تھے ‘ لیکن اس کے باوجود بھی وہ معصوم تھے۔ اس لیے کہ اگر کبھی کسی بشری تقاضے کے تحت کسی نبی کو کوئی ایسا خیال آتا بھی تھا جو کہ نہیں آنا چاہیے تھا تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا اور اس خیال کی تکمیل کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتا تھا۔ اسی کا نام عصمت ِانبیاء ہے۔
قال لقد ظلمك بسؤال نعجتك إلى نعاجه وإن كثيرا من الخلطاء ليبغي بعضهم على بعض إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وقليل ما هم وظن داود أنما فتناه فاستغفر ربه وخر راكعا وأناب
سورة: ص - آية: ( 24 ) - جزء: ( 23 ) - صفحة: ( 454 )Surah Saad Ayat 24 meaning in urdu
داؤدؑ نے جواب دیا: "اِس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں" (یہ بات کہتے کہتے) داؤدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی
- اور وہ جو دیوار تھی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی (جو) شہر میں
- اور نوح (کا قصہ بھی یاد کرو) جب (اس سے) پیشتر انہوں نے ہم کو
- اب تو یہ لوگ قیامت ہی کو دیکھ رہے ہیں کہ ناگہاں ان پر آ
- اس سے میری قوت کو مضبوط فرما
- اور جو لوگ تم میں پہلے گزر چکے ہیں ہم کو معلوم ہیں اور جو
- اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو
- بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا پھر اٹھائے جائیں گے؟
- تو خدا نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہت
- پھر ان کے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس)
Quran surahs in English :
Download surah Saad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers