Surah Qasas Ayat 26 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ﴾
[ القصص: 26]
ایک لڑکی بولی کہ ابّا ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ بہتر نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے (جو) توانا اور امانت دار (ہو)
Surah Qasas Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقت ور بھی ہے اور امانت دار بھی۔ جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لیے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا۔ اسی طرح جب میں اس کو بلا کر اپنے ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے۔ لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا کہ تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشاندہی کے لیے پیچھے سے پتھر، کنکری مار دیا کر، وَاللهُ أَعْلَمُ بِحَالِ صِحَّتِهِ۔ ( ابن کثیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حضرت موسیٰ اور شعیب ( علیہما السلام ) کا معاہدہ ان دونوں بچیوں کی بکریوں کو جب حضرت موسیٰ ؑ نے پانی پلادیا تو یہ اپنی بکریاں لیکر واپس اپنے گھر گئیں۔ باپ نے دیکھا کہ آج وقت سے پہلے یہ آگئیں ہیں تو دریافت فرمایا کہ آج کیا بات ہے ؟ انہوں نے سچا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ نے اسی وقت ان دونوں میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو میرے پاس لے آؤ۔ وہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئیں اور جس طرح گھر گھر ہست پاک دامن عفیفہ عورتوں کا دستور ہوتا ہے شرم وحیا سے اپنی چادر میں لپٹی ہوئی پردے کے ساتھ چل رہی تھی۔ منہ بھی چادر کے کنارے سے چھپائے ہوئے تھیں پھر اس دانائی اور صداقت کو دیکھئے کہ صرف یہی نہی کہا کہ میرے ابا آپ کو بلا رہے ہیں کیونکہ اس میں شبہ کی باتوں کی گنجائش تھی صاف کہہ دیا کہ میرے والد آپ کی مزدوری دینے کے لئے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے بلا رہے ہیں۔ جو آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلاکر ہمارے ساتھ کیا ہے۔ کلیم اللہ کو جو بھوکے پیاسے تن تنہا مسافر اور بےخرچ تھے یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوا یہاں آئے۔ انہیں ایک بزرگ سمجھ کر ان کے سوال پر اپنا سارا واقعہ بلاکم وکاست سنایا۔ انہوں نے دل جوئی کی اور فرمایا اب کیا خوف ہے ؟ ان ظالموں کے ہاتھ سے آپ نکل آئے۔ یہاں ان کی حکومت نہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ حضرت شعیب ؑ تھے جو مدین والوں کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہوئے تھے۔ یہ مشہور قول امام حسن بصری رحمۃ اللہ کا ہے اور بہت سے علماء بھی یہی فرماتے ہیں۔ طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت سعد ؓ اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا شعیب کی قوم اور موسیٰ کے سسرال والوں کو مرحبا ہو کہ تمہیں ہدایت کی گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت شعیب کے بھتیجے تھے کوئی کہتا ہے کہ قوم شعیب کے ایک مومن مرد تھے۔ بعض کا قول ہے کہ شعیب ؑ کا زمانہ تو حضرت موسیٰ ؑ کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے۔ ان کا قول قرآن میں اپنی قوم سے یہ مروی ہے کہ ( وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ 89 ) 11۔ ھود :89) لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں۔ اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ لوطیوں کی ہلاکت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ اور یہ بھی بہت ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان کا زمانہ بہت لمبا زما نہ ہے۔ تقریبا چار سو سال کا ہے جیسے اکثر مورخین کا قول ہے ہاں بعض لوگوں نے اس مشکل کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت شعیب کی بڑی لمبی عمر ہوئی تھی۔ ان کا مقصد غالبا اس اعتراض سے بچنا ہے واللہ اعلم۔ ایک اور بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ بزرگ حضرت شعیب ؑ ہی ہوئے تو چاہئے تھا کہ قرآن میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا۔ ہاں البتہ بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ یہ حضرت شعیب ؑ تھے۔ لیکن ان احادیث کی سندیں صحیح نہیں جیسے کہ ہم عنقریب وارد کریں گے انشاء اللہ تعالٰی، بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ثیرون بتلایا گیا ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابن مسعود کے صاحبزادے فرماتے ہیں ثیرون حضرت شعیب کے بھتیجے تھے۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ یثربی تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں یہ بات اس وقت ہوتی کہ جب اس بارے میں کوئی خبر مروی ہوتی اور ایسا ہے نہیں۔ ان کی دونوں صاحبزادیوں میں سے ایک نے باپ کی توجہ دلائی۔ یہ توجہ دلانے والی صاحبزادی وہی تھیں جو آپ کو بلانے گئی تھیں۔ کہا کہ انہیں آپ ہماری بکریوں کی چرائی پر رکھ لیجئے کیونکہ وہ کام کرنے والا اچھا ہوتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا تم نے یہ کیسے جان لیا کہ ان میں یہ دونوں وصف ہیں۔ بچی نے جواب دیا کہ دس آدمی مل کر جس پتھر کو کنویں سے ہٹا سکتے تھے انہوں نے تنہا اس کو ہٹادیا ان سے انکی قوت کا اندازہ با آسانی ہوسکتا ہے۔ امانت داری کا علم مجھے اس طرح ہوا کہ جب میں انہیں لے کر آپ کے پاس آنے لگی تو اس لئے کہ راستے سے ناواقف تھے میں آگے ہولی انہوں نے کہا تم میرے پیچھے رہو اور جہاں راستہ بدلنا ہو اس طرف کنکر پھینک دینا میں سمجھ لونگا کہ مجھے اس راستے چلنا چاہیے۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں تین شخص کی سی زیرکی، معاملہ فہی، دانائی اور دوربینی کسی اور میں نہیں پائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی دانائی کہ جب انہوں نے اپنے بعد خلافت کے لئے جناب عمر ؓ کو منتخب کیا۔ حضرت یوسف کے خریدنے والے مصری جنہوں نے بیک نظر حضرت یوسف کو پہچان لیا اور جاکر اپنی بیوی سے فرمایا کہ انہیں اچھی طرح رکھو۔ اور اس بزرگ کی صاحبزادی جنہوں نے حضرت موسیٰ کی نسبت اپنے باپ سے سفارش کی کہ انہیں اپنے کام پر رکھ لیجئے۔ یہ سنتے ہی اس بچی کے باپ نے فرمایا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں اس مہر پر ان دو بچیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کردیتا ہوں کہ آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیں۔ ان دونوں کا نام صفورا اور اولیا تھا یا صفورا اور شرفایا صفوررا ورلیا۔ اصحاب ابی حنیفہ رحمۃ اللہ نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح کی بیع کرے کہ ان دوغلاموں میں سے ایک کو ایک سو کے بدلے فروخت کرتا ہوں اور خریدار منظور کرلے تو یہ بیع ثابت اور صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ اس بزرگ نے کہا کہ آٹھ سال تو ضروری ہے اس کے بعد آپ کو اختیار ہے دس سال کا۔ اگر آپ اپنی خوشی سے دو سال تک اور بھی میرا کام کریں تو اچھا ہے ورنہ آپ پر لازمی نہیں۔ آپ دیکھیں گے کی میں بد آدمی نہیں آپ کو تکلیف نہ دونگا۔ امام اوزاعی نے اس سے استدلال کرکے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کہے میں فلاں چیز کو نقد دس اور ادھار بیس پر بیچتا ہوں تو یہ بیع صحیح ہے اور خریدار کو اختیار ہے کہ دس پر نقد لے بیس پر ادھارلے۔ وہ اس حدیث کا بھی یہی مطلب لے رہے ہیں جس میں ہے جو شخص دو بیع ایک بیع میں کرے اسکے لئے کمی والی بیع ہے یا سود۔ لیکن یہ مذہب غور طلب ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں واللہ اعلم۔ اصحاب امام محمد نے اس آیت سے استدلال کرکے کہا ہے کہ کھانے پینے اور کپڑے پر کسی کو مزدوری اور کام کاج پر لگالینا درست ہے۔ اس کی دلیل میں ابن ماجہ کی ایک حدیث بھی ہے جو اس بات میں ہے کہ مزدور مقرر کرنا اس مزدوری پر کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھالیاکرے گا اس میں حدیث لائیں ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة طس کی تلاوت کی جب حضرت موسیٰ کے ذکر تک پہنچے تو فرمانے لگے موسیٰ ؑ نے اپنے پیٹ کے بھرنے اور اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے آٹھ سال یادس سال کے لئے اپنے آپ کو ملازم کرلیا۔ اس حدیث کا راوی مسلمہ بن علی خشنی ہے جو ضعیف ہے۔ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن وہ سند بھی نظر سے خالی نہیں۔ کلیم اللہ نے برزگ کی اس شرط کو قبول کرلیا اور فرمایا کہ ہم تم میں یہ طے شدہ فیصلہ ہے مجھے اختیار ہوگا کہ خواہ دس سال پورے کروں یا آٹھ سال کے بعد چھوڑ دوں آٹھ سال کے بعد آپ کا کوئی حق مزدوری مجھ پر لازم نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے اس معاملہ پر گواہ کرتے ہیں اسی کی کارسازی کافی ہے۔ تو گو دس سال پورا کرنا مباح ہے لیکن وہ فاضل چیز ہے ضروری نہیں ضروری آٹھ سال ہیں جیسے منی کے آخری دو دن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے اور جیسے کہ حدیث میں ہے حضور ﷺ نے حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ سے فرمایا تھا جو بکثرت روزے رکھا کرتے تھے کہ اگر تم سفر میں روزے رکھو تو تمہیں اختیار ہے اور اگر نہ رکھو تو تمہیں اختیار ہے باوجودیکہ دوسری دلیل سے رکھنا افضل ہے۔ چناچہ اس کی دلیل بھی آچکی ہے کہ حضرت موسیٰ نے دس سال ہی پورے کئے۔ بخاری شریف میں ہے سعید بن جبیر سے یہودیوں نے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے آٹھ سال پورے کئے تھے یادس سال ؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے خبر نہیں پھر میں عرب کے بہت بڑے عالم حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان دونوں میں جو زیادہ اور پاک مدت تھی وہی آپ نے پوری کی یعنی دس سال۔ اللہ تعالیٰ کے نبی جو کہتے ہیں پورا کرتے ہیں۔ حدیث فنون میں ہے کہ سائل نصرانی تھا لیکن بخاری میں جو ہے وہی اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبرائیل ؑ سے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے کون سی مدت پوری کی تھی تو جواب ملا کہ ان دونوں میں سے جو کامل اور مکمل مدت تھی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ سے کسی نے پوچھا آپ نے جبرائیل سے پوچھا جبرائیل نے اور فرشتے سے یہاں تک کہ فرشتے نے اللہ سے۔ اللہ نے جواب دیا کہ دونوں میں ہی پاک اور پوری مدت یعنی دس سال۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ کے سوال پر حضور ﷺ نے دس سال کی مدت کا پورا کرنا بتایا کہ یہ بھی فرمایا کہ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ کون سی لڑکی سے حضرت موسیٰ ؑ نے نکاح کیا تھا تو جواب دینا کہ دونوں میں جو چھوٹی تھیں اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے مدت دراز کو پورا کرنا بتایا پھر فرمایا کہ جب موسیٰ حضرت شیعب ؑ سے رخصتی لے کر جانے لگے تو اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ اپنے والد سے کچھ بکریاں لے لو جن سے ہمارا گزارہ ہوجائے آپ نے اپنے والد سے سوال کیا جس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ اس میں سے جتنی چت کبری بکریاں ہونگی سب تمہاری حضرت موسیٰ ؑ نے بکریوں کے پیٹ پر اپنی لکڑی پھیری تو ہر ایک کو دو دو تین تین بچے ہوئے اور سب کے سب چت کبرے جن کی نسل اب تک تلاش کرنے سے مل سکتی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت شعیب کی سب بکریاں کالے رنگ کی خوبصورت تھیں۔ جتنے بچے ان کے اس سال ہوئے سب کے سب بےعیب تھے اور بڑے بڑے بھرے ہوئے تھنوں والے اور زیادہ دودھ دینے والے ان تمام روایتوں کا مدار عبد اللہ بن لہیعہ پر ہے جو حافظہ کے اچھے نہیں اور ڈر ہے کہ یہ روایتیں مرفوع نہ ہوں۔ چناچہ اور سند سے یہ انس بن مالک ؓ سے موقوفا مروی ہے۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ سب بکریوں کے بچے اس سال ابلق ہوئے سوائے ایک بکری کے۔ جن سب کو آپ لے گئے۔ ؑ
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 26 قَالَتْ اِحْدٰٹہُمَا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُز ” اِسْتَاْجَرَ ”اج ر “ مادہ سے باب استفعال ہے۔ ” مُسْتأجِر “ وہ شخص ہے جو کسی کو اجرت پر ملازم رکھے ‘ جبکہ اجرت پر کام کرنے والے کو عربی میں ” آجر “ یا ” اَجِیر “ کہا جاتا ہے ہمارے ہاں عام طور پر آجر کے معنی اجرت دینے والا یا ملازم رکھنے والا کے لیے جاتے ہیں جو غلط ہیں۔ بہر حال عربی میں یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ ” اَجِیر “ صفت مشبہ ہے اور ” آجر “ اسم الفاعل۔اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی یہ دونوں خصوصیات ان بچیوں کے مشاہدے میں آچکی تھیں۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جب ان کی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آپ علیہ السلام کنویں کی طرف بڑھے تھے تو آپ کا ڈیل ڈول دیکھ کر کسی چرواہے نے آپ علیہ السلام سے الجھنے کی جرأت نہیں کی تھی اور سب نے بلا چون و چرا آپ علیہ السلام کو پانی پلانے کا موقع دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان بچیوں کو آپ علیہ السلام کے شریفانہ رویہ سے آپ علیہ السلام کی امانت داری کا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔ کسی مردکاسامنا کرتے ہوئے ایک شریف عورت فطری طور پر اس کی نظر کے بارے میں بہت حساسّ ہوتی ہے۔ آپ علیہ السلام نے چونکہ لڑکیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ‘ اس لیے انہوں نے آپ علیہ السلام کی امانتداری کی گواہی دی کہ جس شخص کی نگاہ میں خیانت نہیں ہے وہ کسی اور معاملے میں بھی خیانت نہیں کرے گا۔
قالت إحداهما ياأبت استأجره إن خير من استأجرت القوي الأمين
سورة: القصص - آية: ( 26 ) - جزء: ( 20 ) - صفحة: ( 388 )Surah Qasas Ayat 26 meaning in urdu
ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا "ابّا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبُوط اور امانت دار ہو"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تاکہ تم ان لوگوں کو جن کے باپ دادا کو متنبہ نہیں کیا گیا تھا
- خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے
- اور یہ لوگ خدا کے لیے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ (اور) وہ ان سے
- (بندو) اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی (طرف) جس کا عرض آسمان
- کوئی جماعت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے
- اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی
- اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچا ہے
- تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا
- اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت
- جب وہ تمہارے اُوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب
Quran surahs in English :
Download surah Qasas with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Qasas mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Qasas Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers