Surah Taubah Ayat 29 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ توبہ کی آیت نمبر 29 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Taubah ayat 29 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾
[ التوبة: 29]

Ayat With Urdu Translation

جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں

Surah Taubah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود و نصاریٰ سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے ( اگر وہ اسلام نہ قبول کریں ) یا پھر وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ یہود و نصاریٰ باوجود اس بات کے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے، ان کی بابت کہا گیا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اس سے واضح کر دیا گیا کہ انسان جب تک اللہ پر اس طرح ایمان نہ رکھے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بتلایا ہے، اس وقت تک اس کا ایمان باللہ قابل اعتبار نہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ایمان باللہ کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیز و حضرت مسیح علیہما السلام کی ابنیت ( یعنی بیٹا ہونے کا ) اور الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عقیدے کا اظہار ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں یہ آیت سنہ 9 ہجری میں نازل ہوئی اسی سال آنحضرت رسول مقبول ﷺ حضرت علی ؓ کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کردو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر وقیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بناتے ہیں۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اکرم ﷺ ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے۔ لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے۔ خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے فرمان جاری کردیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد حرام کے ہے۔ یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل واثق ہے۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا۔ باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں ؟ پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔ بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی۔ حسن فرماتے ہیں جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہوجائے گا۔ ہمارے بازار بےرونق ہوجائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی وحمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے۔ یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دیتا۔ ان اہل کتاب سے جو اللہ، اس کے رسول ﷺ ، اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنے نبی ﷺ پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی پر بھی ضرور ایمان لاتے ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی دور کا سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لئے بےسود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین سے کفر کرتے ہیں اس لئے ان سے بھی جہاد کرو۔ ان سے جہاد کے حکم کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہوچکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کرلی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا۔ سنہ 9 ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے ارد گرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا۔ بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا۔ تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا پھر اللہ سے استخارہ کر کے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ انشاء اللہ تعالیٰ بیان ہوگا۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں چناچہ ہجر کے مجسیوں سے آنحضرت ﷺ نے جزیہ لیا تھا۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یابت پرست وغیرہ ہوں۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم۔ پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو۔ یہی وجہ تھی جو حضرت عمر فاروق ؓ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر ؓ کو دیا تھا کہ اہل شام کو فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق ؓ سے کہ جب آپ کے لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہروں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔ مندر اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے رہ گذر اور مسافروں کے لئے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے، ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے، مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے، شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے، ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے، مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے، ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے، تلواریں نہ لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے، شراب فروشی نہیں کریں گے، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو تراشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالے رہیں گے، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔ اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کی گذر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے بجائیں گے نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔ جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی۔ انہی شرائط پر ہمیں امن ملا ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہوجائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام کے مستحق ہم بھی ہوجائیں گے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 29 قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ اس آیت میں بھی دین کا بہت اہم فلسفہ بیان ہوا ہے۔ اس حکم میں مشرکین عرب اور نسل انسانی کے باقی لوگوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ سورة التوبة کی آیت 5 کی رو سے مشرکین عرب کو جو مہلت یا امان دی گئی تھی اس مدت کے گزرنے کے بعد ان کے لیے تو کوئی اور راستہ option اس کے علاوہ نہیں تھا کہ یا وہ ایمان لے آئیں یا انہیں قتل کردیا جائے گا ‘ یا وہ جزیرہ نمائے عرب چھوڑ کر چلے جائیں۔ ان کا معاملہ تو اس لیے خصوصی تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے ان پر آخری درجہ میں اتمام حجت کردیا تھا ‘ اور آپ ﷺ کا انکار کر کے وہ لوگ عذاب استیصال کے حق دار ہوچکے تھے۔ مگر یہود و نصاریٰ اور باقی پوری نوع انسانی کے لیے اس ضمن میں قانون مختلف ہے۔ جزیرہ نمائے عرب سے باہر کے لوگوں کے لیے اور قیامت تک تمام دنیا کے انسانوں کے لیے وہ چیلنج نہیں کہ ایمان لاؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ کیونکہ اس کے بعد اب حضور ﷺ بحیثیت رسول ﷺ معنوی طور پر تو موجود ہیں مگر بنفس نفیس موجود نہیں ‘ کہ براہ راست کوئی قوم آپ ﷺ کی دعوت کو رد کر کے عذاب استیصال کی مستحق ہوجائے۔ چناچہ باقی تمام نوع انسانی کے افراد کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے قتال کیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ وہ دین کی بالادستی کو بحیثیت ایک نظام کے قبول کرلیں ‘ مگر انفرادی طور پر کسی کو قبول اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر کوئی اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے اسلامی ریاست کے ایک شہری کے طور پر رہ سکتا ہے ‘ مگر ایسی صورت حال میں غیر مسلموں کو جزیہ دینا ہوگا۔ اسی فلسفے کے تحت خلافت راشدہ کے دور میں کسی بھی ملک پر لشکر کشی کرنے سے پہلے تین شرائط پیش کی جاتی تھیں۔ پہلی یہ کہ ایمان لے آؤ ‘ ایسی صورت میں تم ہمارے برابر کے شہری ہو گے۔ اگر یہ قبول نہ ہو تو اللہ کے دین کی بالا دستی قبول کر کے اسلامی ریاست کے فرمانبردار شہری بن کر رہنا اور جزیہ دینا قبول کرلو۔ ایسی صورت میں تم لوگوں کو آزادی ہوگی کہ تم یہودی ‘ عیسائی ‘ مجوسی ‘ ہندو وغیرہ جو چاہو بن کر رہو۔ لیکن اگر یہ بھی قابل قبول نہ ہو اور تم لوگ اس زمین پر باطل کا نظام قائم رکھنا چاہو تو پھر اس کا فیصلہ جنگ سے ہوگا۔

قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر ولا يحرمون ما حرم الله ورسوله ولا يدينون دين الحق من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون

سورة: التوبة - آية: ( 29 )  - جزء: ( 10 )  -  صفحة: ( 191 )

Surah Taubah Ayat 29 meaning in urdu

جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرکے (یعنی تغافل کرے) ہم اس
  2. اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ عمل
  3. جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم
  4. سن رکھو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور
  5. اور کہیں گے کہ ہم اس پر ایمان لے آئے اور (اب) اتنی دور سے
  6. سو تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے اور مجھے اور جو
  7. اہل جنت اس روز عیش ونشاط کے مشغلے میں ہوں گے
  8. سو ان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑ نے آپکڑا
  9. اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی
  10. کہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگاسکیں اور ہر طرف سے (ان پر

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
surah Taubah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Taubah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Taubah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Taubah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Taubah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Taubah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Taubah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Taubah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Taubah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Taubah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Taubah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Taubah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Taubah Al Hosary
Al Hosary
surah Taubah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Taubah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, May 19, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب