Surah Layl Ayat 3 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾
[ الليل: 3]
اور اس (ذات) کی قسم جس نے نر اور مادہ پیدا کیے
Surah Layl Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ اللہ نے اپنی قسم کھائی، کیونکہ مرد وعورت دونوں کا خالق اللہ ہی ہے ماموصولہ ہے۔ - یعنی کوئی اچھے عمل کرتا ہے، جس کا صلہ جنت ہے اور کوئی برے عمل کرتا ہے جس کا بدلہ جہنم ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
نیکی کے لیے قصد ضروری ہے :مسند احمد میں ہے حضرت علقمہ شام میں آئے اور دمشق کی مسجد میں جاکر دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے نیک ساتھی عطا فرما پھر چلے تو حضرت ابو الدرداء سے ملاقات ہوئی پوچھا کہ تم کہاں کے ہو تو حضرت علقمہ نے کہا میں کوفے والا ہوں پوچھا ام عبد اس سورت کو کس طرح پڑھتے تھے ؟ میں نے کہا والذکر والانثٰی پڑھتے تھے، حضرت ابو الدرداء فرمانے لگے میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے یونہی سنا ہے اور یہ لوگ مجھے شک و شبہ میں ڈال رہے ہیں پھر فرمایا کیا تم میں تکئے والے یعنی جن کے پاس سفر میں حضور ﷺ کا بسترہ رہتا تھا اور راز دان ایسے بھیدوں سے واقف جن کا علم اور کسی کو نہیں وہ جو شیطان سے بہ زبان رسول اللہ ﷺ بچالئے گئے تھے وہ نہیں ؟ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ۔ یہ حدیث بخاری میں ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے شاگرد اور ساتھی حضرت ابو الدردا کے پاس آئے آپ بھی انہیں ڈھونڈتے ہوئے پہنچے پھر پوچھا کہ تم میں حضرت عبداللہ کی قرأت پر قرآن پڑھنے والا کون ہے ؟ کہا کہ ہم سب ہیں، پھر پوچھا کہ تم سب میں حضرت عبداللہ کی قرأت کو زیادہ یاد رکھنے والاکون ہے ؟ لوگوں نے حضرت علقمہ کی طرف اشارہ کیا تو ان سے سوال کیا کہ واللیل اذا یغشیکو حضرت عبداللہ سے تم نے کس طرح سنا ؟ تو کہا وہ والذکر والانثی پڑھتے تھے کہا میں نے بھیحضور ﷺ سے اسی طرح سنا ہے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وما خلق الذکر والا انثی پڑھوں اللہ کی قسم میں تو ان کی مانوں گا نہیں، الغرض حضرت ابن مسعود اور حضرت ابو الدرداء ؓ کو قرأت یہی ہے اور حضرت ابو الدرداء نے تو اسے مرفوع بھی کہا ہے۔ باقی جمہور کی قرأت وہی ہے جو موجودہ قرآن وں میں ہے، پس اللہ تعالیٰ رات کی قسم کھاتا ہے جبکہ اس کا اندھیرا تمام مخلوق پر چھا جائے اور دن کی قسم کھاتا ہے جبکہ وہ تمام چیزوں کو روشنی سے منور کر دے اور اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے جو نر و مادہ کا پیدا کرنے والا ہے، جیسے فرمایا وخلقنا کم ازواجاہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور فرمایا۔ وکل شئی خلقنا زوجین ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے ہیں، ان متضاد اور ایک دوسری کے خلاف قسمیں کھاکر اب فرماتا ہے کہ تمہاری کوششیں اور تمہارے اعمال بھی متضاد اور ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ بھلائی کرنے والے بھی ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہنے والے بھی ہیں پھر فرمایا ہے کہ جس نے دیا یعنی اپنے مال کو اللہ کے حکم کے ماتحت خرچ کیا اور پھونک پھونک کر قدم رکھا ہر ایک امر میں خوف الہ کرتا رہا اور اس کے بدلے کو سچا جانتا رہا اس کے ثواب پر یقین رکھا حسنیٰ کے معنی لا الہ الا اللہ کے بھی کئے گئے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کے بھی کئے گئے ہیں، نماز زکوٰۃ صدقہ فطر جنت کے بھی مروی ہیں پھر فرمایا ہے کہ ہم آسانی کی راہ آسان کردیں گے یعنی بھلائی، جنت اور نیک بدلے کی اور جس نے اپنے مال کو راہ اللہ میں نہ دیا اور اللہ تعالیٰ سے بےنیازی برتی اور حسنٰی کی یعنی قیامت کے بدلے کی تکذیب کی تو اس پر ہم برائی کا راستہ آسان کردیں گے جیسے فرمایا ونقلب افیدتگم وابصارھم الخ، یعنی ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار قرآن پر ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں ہی بہکنے دیں گے، اس مطلب کی آیتیں قرآن کریم کی جگہ موجد ہیں کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے خیر کا قصد کرنے والے کو توفیق خیر ملتی ہے اور شر کا قصد رکھنے والوں کو اسی کی توفیق ہوتی ہے۔ اس معنی کی تائید میں یہ حدیثیں بھی ہیں، حضرت صدیق اکبر نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے اعمال فارغ شدہ تقدیر کے ماتحت ہیں یا نوپید ہماری طرف سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بلکہ تقدیر کے لکھے ہوئے کے مطابق، کہنے لگے پھر عمل کی کیا ضرورت ؟ فرمایا ہر شخص پر وہ عمل آسان ہوں گے جس چیز کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ( مسند احمد ) حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ بقیع غرقد میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے تو آپ نے فرمایا سنو تم میں سے ہر ایک کی جگہ جنت و دوزخ میں مقرر کردہ ہے۔ اور لکھی ہوئی ہے لوگوں نے کہا پھر ہم اس پر بھروسہ کرکے بیٹھ کیوں نہ رہیں ؟ تو آپ نے فرمایا عمل کرتے رہو ہر شخص سے وہی اعمال صادر ہوں گے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے پھر آپ نے یہی آیتیں تلاوت فرمائیں ( صحیح بخاری شریف ) اسی روایت کے اور طریق میں ہے کہ اس بیان کے وقت آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا اور سر نیچا کئے ہوئے زمین پر اسے پھیر رہے تھے۔ الفاظ میں کچھ کمی بیشی بھی ہے، مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کا بھی ایسا ہی سوال جیسا اوپر کی حدیث میں حضرت صدیق کا گذرا مروی ہے اور آپ کا جواب بھی تقریبا ً ایسا ہی مروی ہے۔ ابن جریر میں حضرت جابر سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے، ابن جریر کی ایک حدیث میں دو نوجوانوں کا ایسا ہی سوال اور حضور ﷺ کا ایسا ہی جواب مروی ہے، اور پھر ان دونوں حضرات کا یہ قول بھی ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم بہ کوشش نیک اعمال کرتے رہیں گے حضرت ابو الدرداء سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ہر دن غروب کے وقت سورج کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں اور وہ با آواز بلند دعا کرتے ہیں جسے تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے جنات اور انسان کے کہ اے اللہ سخی کو نیک بدلہ دے اور بخیل کا مال تلف کر یہی معنی ہیں قرآن کی ان چاروں آیتوں کے۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں اس پوری سورت کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ ایک شخص کا کھجوروں کا باغ تھا ان میں سے ایک درخت کی شاخیں ایک مسکین شخص کے گھر میں جا کر وہاں کی کھجوریں اتارتا اس میں جو کھجوریں نیچے گرتیں انہیں اس غریب شخص کے بچے چن لیتے تو یہ آکر ان سے چھین لیتا بلکہ اگر کسی بچے نے منہ میں ڈال لی ہے تو انگلی ڈال کر اس کے منہ سے نکلوا لیتا، اس مسکین نے اسکی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی آپ نے اس سے فرما دیا کہ اچھا تم جاؤ اور آپ اس باغ والے سے ملے اور فرمایا کہ تو اپنا وہ درخت جس کی شاخیں فلاں مسکین کے گھر میں ہیں مجھے دے دے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تجھے جنت کا ایک درخت دے گا وہ کہنے لگا اچھا حضرت میں نے دیا مگر مجھے اس کی کھجوریں بہت اچھی لگتی ہیں میرے تمام باغ میں ایسی کھجوریں کسی اور درخت کی نہیں، آنحضرت ﷺ یہ سن کر خاموشی کے ساتھ واپس تشریف لے گئے۔ ایک شخص جو یہ بات چیت سن رہا تھا وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا حضرت اگر یہ درخت میرا ہوجائے اور میں آپ کا کردوں تو کیا مجھے اس کے بدلے جنتی درخت مل سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، یہ شخص اس باغ والے کے پاس آئے ان کا بھی باغ کھجوروں کا تھا یہ پہلا شخص ان سے وہ ذکر کرنے لگا کہ حضرت مجھے فلاں درخت کھجور کے بدلے جنت کا ایک درخت دینے کو کہہ رہے تھے۔ میں نے یہ جواب دیا یہ سن کر خاموش ہو رہے پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ کیا تم اسے بیچنا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ جو قیمت اس کی مانگوں وہ کوئی مجھے دے دے۔ لیکن کون دے سکتا ہے ؟ پوچھا کیا قیمت لینا چاہتے ہو ؟ کہا چالیس درخت خرما کے۔ اس نے کہا یہ تو بڑی زبردست قیمت لگا رہے ہو ایک کے چالیس ؟ پھر اور باتوں میں لگ گئے پھر کہنے لگے اچھا میں اسے اتنے ہی میں خریدتا ہوں اس نے کہا اچھا اگر سچ مچ خریدنا ہے تو گواہ کرلو، اس نے چند لوگوں کو بلا لیا اور معاملہ طے ہوگیا گواہ مقرر ہوگئے پھر اسے کچھ سوجھی تو کہنے لگا کہ دیکھئے صاحب جب تک ہم تم الگ نہیں ہوئے یہ معاملہ طے نہیں ہوا۔ اس نے بھی کہا بہت اچھا میں بھی ایسا احمق نہیں ہوں کہ تیرے ایک درخت کے بدلے جو خم کھایا ہوا ہے اپنے چالیس درخت دے دوں تو یہ کہنے لگا کہ اچھا اچھا مجھے منظور ہے۔ لیکن درخت جو میں لوں گا وہ تنے والے بہت عمدہ لوں گا اس نے کہا اچھا منظور۔ چناچہ گواہوں کے روبرو یہ سودا فیصل ہوا اور مجلس برخاست ہوئی۔ یہ شخص خوشی خوشی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ اب وہ درخت میرا ہوگیا اور میں نے اسے آپ کو دے دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس مسکین کے پاس گئے اور فرمانے لگے۔ یہ درخت تمہارا ہے اور تمہارے بال بچوں کا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس پر یہ سورت نازل ہوئی ابن جریر میں مروی ہے کہ یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ مکہ شریف میں ابتداء میں اسلام کے زمانے میں بڑھیا عورتوں اور ضعیف لوگوں کو جو مسلمان ہوجاتے تھے آزاد کردیا کرتے تھے اس پر ایک مرتبہ آپ کے والد حضرت ابو قحافہ نے جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا کہ بیٹا تم جو ان کمزور ہستیوں کو آزاد کرتے پھرتے ہو اس سے تو یہ اچھا ہو کہ نوجوان طاقت والوں کو آزاد کراؤ تاکہ وقت پر وہ تمہارے کام آئیں، تمہاری مدد کریں اور دشمنوں سے لڑیں۔ تو صدیق اکبر ؓ نے جواب دیا کہ ابا جی میرا ارادہ دینوی فائدے کا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضی مولا چاہتا ہوں۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئیں۔ تروی کے معنی مرنے کے بھی مروی ہیں اور آگ میں گرنے کے بھی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 3{ وَمَاخَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی۔ } ” اور قسم ہے اس کی جو اس نے پیدا کیے نر اور مادہ۔ “ ان قسموں سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے اندر نظر آنے والے تضادات دراصل نظام کائنات کا حصہ ہیں ‘ بلکہ کائنات کا نظام انہی تضادات کی وجہ سے چل رہا ہے اور ایک جنس سے تعلق رکھنے والی دو متضاد چیزیں باہم مل کر فطرت کے تقاضوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ دنیا کا سارا نظام دن اور رات کے ادلنے بدلنے کی وجہ سے قائم ہے۔ زمین پر حیوانی اور نباتاتی زندگی کا وجود اسی گردش لیل و نہار کا مرہون منت ہے۔ خود نسل انسانی کا تسلسل بھی مرد اور عورت کے جنسی اختلاف و تضاد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ چناچہ کائنات کی مختلف تخلیقات میں بظاہر نظر آنے والے ان تضادات کے اندر بھی ایک طرح کا توافق اور تطابق پایاجاتا ہے۔
Surah Layl Ayat 3 meaning in urdu
اور اُس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے
- پھر جب انہوں نے اس (عذاب کو) دیکھا کہ بادل (کی صورت میں) ان کے
- (یہ دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ ہے پھر (آخرت میں) تو ان کا ٹھکانا دوزخ
- بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس
- انہوں نے کہا کہ کچھ نقصان (کی بات) نہیں ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ
- (اے یہود ونصاریٰ) کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم اور اسمٰعیل اور
- اور ابراہیم نے کہا کہ تم جو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو لے بیٹھے
- وہ کہنے لگے کہ موسیٰ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک
- اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل کرتے اور یہ اسے
- جو (مخلوق) زمین پر ہے سب کو فنا ہونا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Layl with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Layl mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Layl Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers