Surah anaam Ayat 30 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ﴾
[ الأنعام: 30]
اور کاش تم (ان کو اس وقت) دیکھو جب یہ اپنے پروردگار کےسامنے کھڑے کئے جائیں گے اور وہ فرمائےگا کیا یہ (دوبارہ زندہ ہونا) برحق نہیں تو کہیں گے کیوں نہیں پروردگار کی قسم (بالکل برحق ہے) خدا فرمائے گا اب کفر کے بدلے (جو دنیا میں کرتے تھے) عذاب (کے مزے) چکھو
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں، حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بےایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے، چناچہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون سے کہا تھا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ) 17۔ النمل:14) یعنی فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہرا مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے۔ ملاحظہ ہو سورة عنکبوت جہاں صاف فرمان ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ) 29۔ العنكبوت:11) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہوجائیں گے، واللہ اعلم، اب ان کی تمنا ہوگی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لئے ہوگی، چناچہ عالم الغیب اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہوجائیں گے۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں۔ نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے، پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے۔ اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہوگیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں ؟ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو۔ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 29 وَ قَالُوْٓا اِنْ ہِیَ الاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۔جیسے آج کل کفر و الحاد کے مختلف shades ہیں ‘ اس زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ آج ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو اللہ کو تو مانتے ہیں ‘ آخرت کو نہیں مانتے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ لیکن رسالت کو نہیں مانتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل ملحد اور مادہ پرست ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور خود ہی اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں ‘ اور ہماری زندگی صرف یہی ہے ‘ مرنے کے بعد اٹھنے والا کوئی معاملہ نہیں۔ اسی طرح اس دور میں بھی کفر و شرک کے مختلف shades موجود تھے۔ قریش کے اکثر لوگ اور عرب کے بیشتر مشرکین اللہ کو مانتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے ‘ بعث بعد الموت کو بھی مانتے تھے ‘ لیکن اس کے ساتھ وہ دیوی دیوتاؤں کی سفارش اور شفاعت کے قائل تھے کہ ہمیں فلاں چھڑا لے گا ‘ فلاں بچا لے گا ‘ فلاں ہمارا حمایتی اور مدد گار ہوگا۔ لیکن ایک طبقہ ان میں بھی ایسا تھا جو کہتا تھا کہ زندگی بس یہی دنیا کی ہے ‘ اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ یہاں اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے۔
ولو ترى إذ وقفوا على ربهم قال أليس هذا بالحق قالوا بلى وربنا قال فذوقوا العذاب بما كنتم تكفرون
سورة: الأنعام - آية: ( 30 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 131 )Surah anaam Ayat 30 meaning in urdu
کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا "کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟" یہ کہیں گے "ہاں اے ہمارے رب! یہ حقیقت ہی ہے" وہ فرمائے گا "اچھا! تو اب اپنے انکار حقیقت کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا
- جو اس کے بعد بھی خدا پر جھوٹے افترا کریں تو ایسے لوگ ہی بےانصاف
- اور زمین کو ہم ہی نے بچھایا تو (دیکھو) ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں
- دیکھو یہ خدا پر کیسا جھوٹ (طوفان) باندھتے ہیں اور یہی گناہ صریح کافی ہے
- اور اگر یہ لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے اور جو کچھ
- اور اگر تم پر خدا کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ان میں سے
- بےشک ان کا پروردگار اس روز ان سے خوب واقف ہوگا
- یا (تمہاری زندگی ہی میں) تمہیں وہ (عذاب) دکھا دیں گے جن کا ہم نے
- اور اسی خیال نے جو تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے تم کو
- اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو۔ تم تو ہماری
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers