Surah baqarah Ayat 32 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ﴾
[ البقرة: 32]
انہوں نے کہا، تو پاک ہے۔ جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے، اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے
Surah baqarah UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
آدم ؑ کی وجہ فضیلت یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم ؑ کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کردیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہوجائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شرافت اور فضیلت حضرت آدم کو اس لئے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں، فرمایا کہ حضرت آدم ؑ کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں، زمین، آسمان، پہاڑ، تری، خشکی، گھوڑے، گدھے، برتن، چرند، فرشتے، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے نام بتائے گئے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد عرضھم آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لئے آتا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لئے ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ) 24۔ النور:45) اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں۔ علاوہ ازیں عرضھن بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت میں ہے اور حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں عرضھا بھی ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی، جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام بخاری ؒ یہ حدیث لائے ہیں۔ مسئلہ شفاعت ٭٭ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایمان دار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہوگا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چناچہ یہ سب کے سب حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں۔ جو ہم اس سے راحت پائیں۔ حضرت آدم ؑ یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں۔ انہیں اپنا گناہ یاد آجائے گا۔ تم نوح ؑ کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لئے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ۔ یہ سب آپ کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے۔ آپ فرمائیں گے تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی۔ یہ سن کر سب کے سب حضرت موسیٰ کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آجائے گا اور شرمندہ ہوجائیں گے اور فرمائیں گے تم حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہوجاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا، کہئے سنا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا۔ میرے لئے حد مقرر کردی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہوگی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لئے جہنم کی مداومت واجب ہوگئی ہو ( یعنی شرک و کفر کرنے والے ) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے۔ یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ حضرت آدم ؑ سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ " بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے " سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔ لیکن قول پہلا ہی ہے۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہی کے نام بتاؤ۔ اور اگر تم نہیں بتاسکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہوگا ؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کردی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت علی اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا ( سبحان اللہ ) کیا کلمہ ہے ؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لئے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے۔ حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے۔ حضرت آدم نے نام بتا دئے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دئے۔ جب حضرت آدم ؑ کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِنْ تَجْــهَرْ بالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي ) 20۔ طہ :7) تم بلند آواز سے کہو ( یا نہ کہو ) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت ( الا یسجدوا ) الخ کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جر تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا۔ ابن عباس ابن مسعود اور بعض صحابہ اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابو العالیہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہوگیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم ؑ کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بیخبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی۔ اب جب کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کرلیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول حضرت ابن عباس کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا۔ اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کردیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ ) 49۔ الحجرات:4) جو لوگ تمہیں اے نبی ﷺ حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔ اسی طرح آیت ( وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ) 2۔ البقرۃ :72) میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 32 قَالُوْا سُبْحٰنَکَ آپ ہر نقص سے ‘ ہر عیب سے ‘ ہر ضعف سے ‘ ہر احتیاج سے مبرا اور منزہ ہیں ‘ اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ ّ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط اس کی یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائناتی حکومت میں ملائکہ کی حیثیت درحقیقت اس کے کارندوں یا civil servants کی ہے۔ چناچہ ہر ایک کو صرف اس کے شعبے کے مطابق علم دیا گیا ہے ‘ ان کا علم جامع نہیں ہے اور ان کے پاس تمام چیزوں کا مجموعی علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں ہے۔ مثلاً کوئی فرشتہ بارش کے انتظام پر ماموؤ ہے ‘ کوئی پہاڑوں پر مامور ہے ‘ جس کا ذکر سیرت میں آتا ہے کہ جب طائف میں رسول اللہ ﷺ پر پتھراؤ ہوا تو اس کے بعد ایک فرشتہ حاضر ہوا کہ میں ملک الجبال ہوں ‘ اللہ نے مجھے پہاڑوں پر مامور کیا ہوا ہے ‘ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں ان دو پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں جن کے درمیان طائف کی یہ وادی واقع ہے اور اس طرح اہل طائف پس کر سرمہ بن جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف خدمات پر مامور ہیں اور ان کو جو علم دیا گیا ہے وہ صرف ان کے اپنے فرائضِ منصبی اور ان کے اپنے اپنے شعبے سے متعلق دیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی جامعیتّ بالقوۃ potentially دے دی گئی ‘ جو بڑھتے بڑھتے اب ایک بہت تناور درخت بن چکا ہے۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ آپ ہی کی ذات ہے جو کلُ کے کل علم کی مالک ہے اور جس کی حکمت بھی کامل ہے۔ باقی تو مخلوق میں سے ہر ایک کا علم ناقص ہے۔
قالوا سبحانك لا علم لنا إلا ما علمتنا إنك أنت العليم الحكيم
سورة: البقرة - آية: ( 32 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 6 )Surah baqarah Ayat 32 meaning in urdu
انہوں نے عرض کیا: "نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو اس روز سے پہلے جو خدا کی طرف سے آکر رہے گا اور رک
- (یعنی) نطفے سے جو (رحم میں) ڈالا جاتا ہے
- غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اور سب تعریف خدائے رب العالمین ہی
- (یہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے رستے کی طرف) لوٹ
- ان کا پروردگار ان کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری
- لوگو! اگر وہ چاہے تو تم کو فنا کردے اور (تمہاری جگہ) اور لوگوں کو
- تو جس نے سرکشی کی
- کیا یہ لوگ اس کے وعدہٴ عذاب کے منتظر ہیں۔ جس دن وہ وعدہ آجائے
- اور ہمارے نزدیک منتخب اور نیک لوگوں میں سے تھے
- تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس قرآن کے حکم کے
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers