Surah Al Anbiya Ayat 32 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ﴾
[ الأنبياء: 32]
اور آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ اس پر بھی وہ ہماری نشانیوں سے منہ پھیر رہے ہیں
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) سَقْفًا مَحْفُوظًا، زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ وبالا ہو سکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا «وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ»( الحجر:17 )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
زبردست غالب اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو ؟ ابتدا میں زمین و آسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے ؟ ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی ہر چیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن ؟ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زمین و آسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی۔ ابن عمر ؓ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا زمین و آسمان سب ایک ساتھ تھے، نہ بارش برستی تھی، نہ پیداوار اگتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی۔ جب سائل نے حضرت ابن عمر ؓ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبداللہ ؓ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس ؓ کی جرات بڑھ گئی ہو ؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں۔ مجاہد ؒ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کردی گئیں۔ حضرت سعید ؒ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کردیئے گئے۔ زمین و آسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنادیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے کہا حضور ﷺ جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کردیں۔ آپ نے فرمایا ابوہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں۔ اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ؟ آپ نے فرمایا لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کردیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کرسکیں۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنادیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کرسکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں۔ شان الٰہی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الہٰی خود اس پہاڑ میں راستہ بنادیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کرلیں۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنادیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں فرماتا ہے قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی۔ ارشاد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں۔ بنا کہتے ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو۔ پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلندوبالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا رکی ہوئی موج ہے۔ یہ روایت سنداً غریب ہے لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بےپرواہ ہیں۔ جیسے فرمان ہے آسمان و زمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کا جڑاؤ ہو رہا ہے۔ ان میں بھی کوئی ٹھیرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کرلیتا ہے۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کرلی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا ؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگا جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقا نہیں ہوا۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا فرمایا بس یہی سبب ہے۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو، سورج چاند کو دیکھو۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے۔ چاند کا نور الگ ہے، فلک الگ ہے، چال الگ ہے، انداز اور ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے۔ جیسے فرمان ہے وہی صبح کا روشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والا ہے۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 32 وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًاج وَّہُمْ عَنْ اٰیٰتِہَا مُعْرِضُوْنَ ” اس سے پہلے یہ مضمون سورة الحجر میں اس طرح بیان ہوا ہے : وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا للنّٰظِرِیْنَ۔ وَحَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ”اور ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اسے مزین کردیا ہے دیکھنے والوں کے لیے اور ہم نے حفاظت کی ہے اس کی ہر شیطان مردود سے “۔ یعنی آسمان دنیا پر جو ستارے ہیں وہ باعث زینت بھی ہیں ‘ لیکن دوسری طرف یہ شیاطین جن کے لیے میزائل سنٹر بھی ہیں۔ ان میں سے جو کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں عالم بالا کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے اس پر شہاب ثاقب کی شکل میں میزائل داغا جاتا ہے اور یوں ان شیاطین کی پہنچ کے حوالے سے آسمان کو سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کا درجہ دے دیا گیا ہے۔اب تک کی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کے دو پہلو اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو O-Zone Layer کی فراہم کردہ حفاظتی چھتری ہے جس نے پورے کرۂ ارض کو ڈھانپ رکھا ہے اور یوں سورج سے نکلنے والی تمام مضر شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکنے کے لیے یہ فلٹر کا کام کرتی ہے ماحولیاتی سائنس کے ماہرین آج کل اس کے بارے میں بہت فکر مند ہیں کہ مختلف انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری فضا زمین کے اوپر کرۂ ہوائی بھی حفاظتی چھت کا کام دیتی ہے۔ خلا میں تیرنے والے چھوٹی بڑی جسامتوں کے بیشمار پتھر یہ پتھر یا پتھر نما ٹھوس اجسام مختلف ستاروں یا سیاروں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ہر وقت خلا میں بکھرے رہتے ہیں جب کرۂ ہوائی میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی تیز رفتاری کے سبب ہوا کی رگڑ سے جل کر فضا میں ہی تحلیل ہوجاتے ہیں اور یوں زمین ان کے نقصانات سے محفوظ رہتی ہے۔
وجعلنا السماء سقفا محفوظا وهم عن آياتها معرضون
سورة: الأنبياء - آية: ( 32 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 324 )Surah Al Anbiya Ayat 32 meaning in urdu
اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف توجّہ ہی نہیں کرتے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور بہت سی بستیوں (کے رہنے والوں) نے اپنے پروردگار اور اس کے پیغمبروں کے
- جب بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں پہنچے
- تو خدا اس کو بڑا عذاب دے گا
- اور ان کی مدد کی تو وہ غالب ہوگئے
- مومنو! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول
- یہ اس لئے کہ ان کے پاس پیغمبر کھلی دلیلیں لاتے تھے تو یہ کفر
- اس نے کہا کہ بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو
- اور وہ انہیں لکھنا (پڑھنا) اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائے گا
- (اور ہم ان کفار پر اسی طرح عذاب نازل کریں گے) جس طرح ان لوگوں
- جو لوگ ظلم کرتے تھے ان کو اور ان کے ہم جنسوں کو اور جن
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers