Surah qalam Ayat 42 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ﴾
[ القلم: 42]
جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے
Surah qalam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی اپنی پنڈلی کھولے گا ( جس طرح اس کی شان کے لائق ہے ) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہو جائے گا ( صحیح بخاری ) اللہ تعالٰی کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کر سکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سجدہ اس وقت منافقوں کے بس میں نہیں ہوگا اوپر چونکہ بیان ہوا تھا کہ پرہیزگار لوگوں کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں اسلئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی ؟ تو فرمایا کہ اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی۔ یعنی قیامت کے دن جو دن بڑی ہولناکیوں والا زلزلوں والا امتحان والا اور آزمائش والا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہوگا۔ صحیح بخاری شریف میں اس جگہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گرپڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہوجائے گی، یعنی ان سے سجدے کے لئے جھکا نہ جائے گا، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے ( ابن جریر ) اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ ابن مسعود یا ابن عباس سے آیت ( يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 42ۙ ) 68۔ القلم:42) کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے جیسے شاعر کا قول ہے ( شالت الحرب عن ساق ) یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے، مجاہد سے بھی یہی مروی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہوگی، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہوجائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آجاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے، یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں، اس کے بعد یہ حدیث ابو یعلی میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے واللہ اعلم ( یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گذری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اوراقوال بھی اسطرح ٹھیک ہیں کہ اللہ عالم کی پنڈلی بھی ظاہر ہوگی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی واللہ اعلم۔ مترجم ) پھر فرمایا جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہوجائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے، صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا تو رک جاتا تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کرسکتے پہلے کرسکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گرپڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کرسکیں گے کمر تختہ ہوجائے گی جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گرپڑیں گے، یہاں بھی ان کی حالت مومنوں کے خلاف تھی وہاں بھی خلاف ہی رہے گی۔ پھر فرمایا مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں آپ ان سے نپٹ لوں گا دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہوگی، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55ۙ ) 23۔ المؤمنون :55) ، یعنی کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لئے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے، نہیں بلکہ یہ بےشعور ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44 ) 6۔ الأنعام:44) جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہوگئیں۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے میں انہیں ڈھیل دوں گا، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے۔ بخاری مسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ01002 ) 11۔ ھود :102) یعنی اسی طرح ہے تیرے رب کی پکڑ جبکہ وہ کسی بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت سخت ہے۔ پھر فرمایا تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں۔ ان دونوں جملوں کی تفسیر سورة والطور میں گذر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی ﷺ آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ کو جھٹلا رہے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 42{ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ } ” جس دن پنڈلی کھولی جائے گی “ پنڈلی کھولے جانے کا مفہوم ہمارے تصور سے ماوراء ہے۔ ممکن ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص تجلی کا ذکر ہو جس کا ظہور میدانِ محشر کے کسی مرحلے پر لوگوں کی چھانٹی کرنے کے لیے ہونا ہو۔ واللہ اعلم ! اس اعتبار سے یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے۔ 1 { وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۔ } ” اور انہیں پکارا جائے گا اللہ کے حضور سجدے کے لیے تو وہ کر نہیں سکیں گے۔ “ جیسا کہ قبل ازیں سورة الحدید کی آیت 11 کے تحت بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ میدانِ حشر میں اچھے اور برے لوگوں کو الگ الگ کرنے کے لیے بنی نوع انسان کو مختلف مراحل میں سے گزارا جائے گا۔ ” پنڈلی کا ظہور “ بھی ایسا ہی کوئی مرحلہ ہوگا۔ وہ صاحب ایمان لوگ جو اپنی دنیوی زندگی میں نماز کی پابندی کرتے رہے تھے اس تجلی کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے ‘ لیکن وہ لوگ جن کی گردنیں اکڑی رہتی تھیں اور جو نماز کی پابندی کا اہتمام نہیں کرتے تھے وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس وقت سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ گویا اس مرحلے پر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے لوگوں سے الگ کرلیا جائے گا۔
يوم يكشف عن ساق ويدعون إلى السجود فلا يستطيعون
سورة: القلم - آية: ( 42 ) - جزء: ( 29 ) - صفحة: ( 565 )Surah qalam Ayat 42 meaning in urdu
جس روز سخت وقت آ پڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکیں گے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یعنی) مانگنے والے کا۔ اور نہ مانگے والے والا کا
- شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے
- کہ اگر ہمارے پاس اگلوں کی کوئی نصیحت (کی کتاب) ہوتی
- اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے
- وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ
- کون ہے جو خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دے تو وہ اس
- تو وہ ایمان لے آئے سو ہم نے بھی ان کو (دنیا میں) ایک وقت
- مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔
- پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان میں قرابتیں ہوں گی اور
- اس وقت ہم تم کو زندگی میں (عذاب کا) دونا اور مرنے پر بھی دونا
Quran surahs in English :
Download surah qalam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah qalam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter qalam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers