Surah baqarah Ayat 47 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾
[ البقرة: 47]
اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو، جو میں نے تم پر کئے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہاں سے دوبارہ بنی اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جارہے ہیں، جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جارہا ہے، جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا، نہ سفارش قبول ہوگی، نہ معاوضہ دے کر چھٹکارا ہوسکے گا، نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی، یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خَيْرُ أُمَّةٍ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں، اور ایمان و عمل سے محرومی پر سلب کر لئے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک وبدعات کے ارتکاب کی وجہ سے ” خَيْرُ أُمَّةٍ “ کے بجائے ” شَرُّ أمَّةٍ “ بنی ہوئی ہے۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالى یہود کو یہ دھوکہ بھی تھا کہ ہم تو اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا، اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو ( جو اہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے ) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) یقیناً شفاعت فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول بھی فرمائے گا ( احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے ) لیکن یہ بھی احادیث میں آتا ہے کہ إِحْدَاثٌ فِي الدِّينِ ( بدعات ) کے مرتکب اس سے محروم ہی رہیں گے۔ نیز بہت سے گناہ گاروں کو جہنم میں سزا دینے کے بعد آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی شفاعت پر جہنم سے نکالا جائے گا، کیا جہنم کی یہ چند روزہ سزا قابل برداشت ہے کہ ہم شفاعت پر تکیہ کرکے معصیت کا ارتکاب کرتے رہیں؟
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالیٰ کے انعامات بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الٰہیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا آیت ( وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰي عِلْمٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ) 44۔ الدخان:32) یعنی انہیں ان کے زمانے کے ( اور لوگوں پر ) ہم نے علم میں فضیلت دی۔ اور فرمایا آیت ( وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) 5۔ المائدة:20) یعنی موسیٰ ؑ نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی گئی ہے تم میں اس نے پیغمبر پیدا کئے تمہیں بادشاہ بنایا اور وہ دیا جو تمام زمانے کو نہیں دیا۔ تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لئے کہ امت محمدیہ ان سے یقینا افضل ہے اس امت کی نسبت فرمایا گیا ہے آیت ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ) 3۔ آل عمران:110) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے لئے بنائی گئی ہو تم بھلائیوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا۔ مسانید اور سنن میں مروی ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں تم سترویں امت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر انشاء اللہ آیت ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ) 3۔ آل عمران:110) کی تفسیر میں آئے گا اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام امتوں پر ہے اس لئے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لئے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ ﷺ اور آنحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، دعا ( صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ )۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ سورة البقرة کے پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ بلکہ پندرہویں رکوع کی پہلی دو آیات بھی شامل کر لیجیے ‘ یہ دس رکوعوں سے دو آیات زائد ہیں کہ جن میں خطاب کل کا کل بنی اسرائیل سے ہے۔ البتہ ان میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ جس میں انہیں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کی پرزور دعوت دی گئی ہے ‘ جبکہ بقیہ نو رکوع اس فرد قرارداد جرم پر مشتمل ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کی جا رہی ہے کہ ہم نے تمہارے ساتھ یہ احسان و اکرام کیا ‘ تم پر یہ فضل کیا ‘ تم پر یہ کرم کیا ‘ تمہیں یہ حیثیت دی ‘ تمہیں یہ مقام دیا اور تم نے اس اس طور سے اپنے اس مشن کی خلاف ورزی کی جو تمہارے سپرد کیا گیا تھا اور اپنے مقام و مرتبہ کو چھوڑ کر دنیا پرستی کی روش اختیار کی۔ ان نو رکوعوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تو ایک بہت بڑا حصہّ اس کے خدوخال features سمیت آگیا ہے ‘ لیکن اصل میں یہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک پیشگی تنبیہہ ہے کہ کوئی مسلمان امت جب بگڑتی ہے تو اس میں یہ اور یہ خرابیاں آجاتی ہیں۔ چناچہ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث بھی موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلَ بالنَّعْلِ 7” میری امت پر بھی وہ سب حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے ‘ بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ “ ایک دوسری حدیث میں جو حضرت ابوسعید خدری رض سے مروی ہے ‘ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل ہوا ہے : لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ : فَمَنْ ؟ 8” تم لازماً اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے ‘ بالشت کے مقابلے میں بالشت اور ہاتھ کے مقابلے میں ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھس کر رہو گے “۔ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہود و نصاریٰ کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو اور کس کی ؟ “ترمذی کی مذکورہ بالا حدیث میں تو یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ : حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَّنْ اَتٰی اُمَّہٗ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ یَصْنَعُ ذٰلِکَ یعنی اگر ان میں کوئی بدبخت ایسا اٹھا ہوگا جس نے اپنی ماں سے علی الاعلان زنا کیا تھا تو تم میں سے بھی کوئی شقی ایسا ضرور اٹھے گا جو یہ حرکت کرے گا۔ اس اعتبار سے ان رکوعوں کو پڑھتے ہوئے یہ نہ سمجھئے کہ یہ محض اگلوں کی داستان ہے ‘ بلکہ : ّ َ ” خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں “کے مصداق یہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے اور ہمیں ہر مرحلے پر سوچنا ہوگا ‘ دروں بینی کرنی ہوگی کہ کہیں اسی گمراہی میں ہم بھی تو مبتلا نہیں ؟دوسرا اہم نکتہ پہلے سے ہی یہ سمجھ لیجیے کہ سورة البقرة کی آیات 47۔ 48 جن سے اس چھٹے رکوع کا آغاز ہو رہا ہے ‘ یہ دو آیتیں بعینہٖ پندرہویں رکوع کے آغاز میں پھر آئیں گی۔ ان میں سے پہلی آیت میں تو شوشے بھر کا فرق بھی نہیں ہے ‘ جبکہ دوسری آیت میں صرف الفاظ کی ترتیب بدلی ہے ‘ مضمون وہی ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ گویا دو بریکٹ ہیں اور نو 9 رکوعوں کے مضامین ان دو بریکٹوں کے درمیان ہیں۔ اور سورة البقرة کا پانچواں رکوع جو ان بریکٹوں سے باہر ہے ‘ اس کے مضامین بریکٹوں کے اندر کے سارے مضامین سے ضرب کھا رہے ہیں۔ یہ حساب کا بہت ہی عام فہم سا قاعدہ ہے کہ بریکٹ کے باہر لکھی ہوئی رقم ‘ جس کے بعد جمع یا تفریق وغیرہ کی کوئی علامت نہ ہو ‘ وہ بریکٹ کے اندر موجود تمام اقدار values کے ساتھ ضرب کھائے گی۔ تو گویا اس پورے معاملے میں ہر ہر قدم پر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت موجود ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اس حصے میں بعض آیات ایسی آگئی ہیں جن سے کچھ لوگوں کو مغالطہ پیدا ہوا یا جن سے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر فتنہ پیدا کیا کہ نجات اخروی کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان ضروری نہیں ہے۔ اس فتنے نے ایک بار اکبر کے زمانے میں ” دینِ الٰہی “ کی شکل میں جنم لیا تھا کہ آخرت میں نجات کے لیے صرف خدا کو مان لینا ‘ آخرت کو مان لینا اور نیک اعمال کرنا کافی ہے ‘ کسی رسول پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ فتنہ صوفیاء میں بھی بہت بڑے پیمانے پر پھیلا اور ” مسجد مندر ہکڑو نور “ کے فلسفے کی تشہیر کی گئی۔ یعنی مسجد میں اور مندر میں ایک ہی نور ہے ‘ سب مذاہب اصل میں ایک ہی ہیں ‘ سارا فرق شریعتوں کا اور عبادات کی ظاہری شکل کا ہے۔ اور وہ رسولوں سے متعلق ہے۔ چناچہ رسولوں کو بیچ میں سے نکال دیجیے تو یہ ” دینِ الٰہی “ اللہ کا دین رہ جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جو ہندوستان میں اس وقت اٹھا جب سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کا اقتدار چوٹی climax پر تھا۔ یہ فتنہ جس مسلمان حکمران کا اٹھایا ہوا تھا وہ ” اکبر اعظم “ اور ” مغل اعظم “ کہلاتا تھا۔ اس کے پیش کردہ ” دین “ کا فلسفہ یہ تھا کہ دین محمدی ﷺ کا دور ختم ہوگیا نعوذ باللہ ‘ وہ ایک ہزار سال کے لیے تھا ‘ اب دوسرا ہزار سال الف ثانی ہے اور اس کے لیے نیا دین ہے۔ اسے ” دین اکبری “ بھی کہا گیا اور ” دینِ الٰہی “ بھی۔ سورة البقرة کے اس حصے میں ایک آیت آئے گی جس سے کچھ لوگوں نے اس ” دینِ الٰہی “ کے لیے استدلال کیا تھا۔ہندوستان میں بیسویں صدی میں یہ فتنہ پھر اٹھا جب گاندھی جی نے ” متحدہ وطنی قومیت “ کا نظریہ پیش کیا۔ اس موقع پر مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑا نابغہ genius انسان ابوالکلام آزاد بھی اس فتنے کا شکارہو گیا۔ گاندھی جی اپنی پراتھنا میں کچھ قرآن کی تلاوت بھی کرواتے ‘ کچھ گیتا بھی پڑھواتے ‘ کچھ اپنشدوں سے ‘ کچھ بائبل سے اور کچھ گروگرنتھ سے بھی استفادہ کیا جاتا۔ متحدہ وطنی قومیت کا تصور یہ تھا کہ ایک وطن کے رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں ‘ لہٰذا ان سب کو ایک ہونا چاہیے ‘ مذہب تو انفرادی معاملہ ہے ‘ کوئی مسجد میں چلا جائے ‘ کوئی مندر میں چلا جائے ‘ کوئی گُردوارے میں چلا جائے ‘ کوئی کلیسا ‘ سنیگاگ یا چرچ میں چلا جائے تو اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے ؟ اس طرح کے نظریات اور تصورات کا توڑ یہی ہے کہ یوں سمجھ لیجیے کہ پانچویں رکوع کی سات آیات بریکٹ کے باہر ہیں اور یہ بریکٹوں کے اندر کے مضمون سے مسلسل ضرب کھا رہی ہیں۔ چناچہ ان بریکٹوں کے درمیان جتنا بھی مضمون آ رہا ہے وہ ان کے تابع ہوگا۔ گویا جہاں تک محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا معاملہ ہے وہ ہر مرحلے پر مقدر understood سمجھا جائے گا۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔آیت 47 یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ اس کی وضاحت گزشتہ رکوع میں ہوچکی ہے ‘ لیکن یہاں آگے جو الفاظ آ رہے ہیں بہت زوردار ہیں :وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ “عربی نحو کا یہ قاعدہ ہے کہ کہیں ظرف کا تذکرہ ہوتا ہے یعنی جس میں کوئی شے ہے لیکن اس سے مراد مظروف ہوتا ہے یعنی ظرف کے اندر جو شے ہے۔ یہاں بھی ظرف کی جمع لائی گئی ہے لیکن اس سے مظروف کی جمع مراد ہے۔ ” تمام جہانوں پر فضیلت “ سے مراد ” جہان والوں پر فضیلت “ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں تمام اقوام عالم پر فضیلت عطا کی۔ عالم انسانیت کے اندر جتنے بھی مختلف گروہ ‘ نسلیں اور طبقات ہیں ان میں فضیلت عطاکی۔
يابني إسرائيل اذكروا نعمتي التي أنعمت عليكم وأني فضلتكم على العالمين
سورة: البقرة - آية: ( 47 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 7 )Surah baqarah Ayat 47 meaning in urdu
اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری اُس نعمت کو، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور بہت سے پچھلوں میں سے
- وہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے اختیار سے تم سے وعدہ خلاف نہیں کیا۔
- اور ہم نے ابراہیم کو اسحق عطا کئے۔ اور مستزاد برآں یعقوب۔ اور سب کو
- بڑے لوگ کمزوروں سے کہیں گے کہ بھلا ہم نے تم کو ہدایت سے جب
- بلکہ کافر جھٹلاتے ہیں
- کاش ہمیں (دنیا میں) پھر جانا ہو تم ہم مومنوں میں ہوجائیں
- اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ غول کے غول خدا کے دین میں داخل
- اور میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں
- اصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے
- اب یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں۔ جو لوگ
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers