Surah muhammad Ayat 7 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
[ محمد: 7]
اے اہل ایمان! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا
Surah muhammad Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اللہ کی مدد کرنے سے مطلب، اللہ کے دین کی مدد ہے۔ کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے۔ یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پرفتح وغلبہ عطا کرتا ہے۔ جیسے صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) اجمعین اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے، وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا، انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا۔ جیسے دوسرےمقام پر فرمایا۔ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ( الحج: 40 ) اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے)۔
( 2 ) یہ لڑائی کے وقت تَثْبِيتُ أَقْدَامٍ یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصر ومعونت سے۔ بعض کہتے ہیں اسلام، یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہوجائے یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہوجائے دستی لڑائی شروع ہوجائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قیدوبند کے ساتھ مقید کرلو جب لڑائی ختم ہوچکے معرکہ پورا ہوجائے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لئے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67 ) 8۔ الأنفال:67) ، نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو ؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9۔ التوبة:5) ، یعنی حرمت والے مہینے جب گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں۔ اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط کو رسول اللہ ﷺ نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ کیا خیال ہے ؟ تو انہوں نے کہا اگر آپ ﷺ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گذار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا۔ حضرت امام شافعی ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل، احسان، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد حضرت عیسیٰ نازل ہوجائیں۔ ممکن ہے حضرت مجاہد کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا۔ مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ حضرت سلمہ بن نفیل خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اب لڑائی آگئی، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجائیں گے یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لئے اللہ نے خیر رکھ دی ہے یہ حدیث امام بغوی نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلی موصلی نے بھی، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے آیت ( وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ 39 ) 8۔ الأنفال:39) ، یعنی ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہوجائے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کرلیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں پھر فرماتا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو آپ ہی کفار کو برباد کردیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے اسی لئے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں سورة آل عمران اور برات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔ آل عمران میں ہے آیت ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ01402 ) 3۔ آل عمران:142) ، کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ سورة براۃ میں ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14 ۙ ) 9۔ التوبة:14) ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفا والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لئے فرماتا ہے کہ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کردیا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے۔ جو در و یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس میں کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے۔ اسے بہتر حور عین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے صحیح مسلم شریف میں ہے سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے انہیں اللہ جنت کی راہ سمجھا دے گا۔ جیسے یہ آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ) 10۔ يونس:9) ، یعنی جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کئے ان کے ایمان کے باعث ان کا رب انہیں ان جنتوں کی طرف رہبری کرے گا جو نعمتوں سے پر ہیں اور جن کے چپے چپے میں چشمے بہہ رہے ہیں اللہ ان کے حال اور ان کے کام سنوار دے گا اور جن جنتوں سے انہیں پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے اور جن کی طرف ان کی رہبری کرچکا ہے آخر انہی میں انہیں پہنچائے گا۔ یعنی ہر شخص اپنے مکان اور پانی جگہ کو جنت میں اس طرح پہچان لے گا جیسے دنیا میں پہچان لیا کرتا تھا۔ انہیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے گی یہ معلوم ہوگا گویا شروع پیدائش سے یہیں مقیم ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جس انسان کے ساتھ اس کے اعمال کا محافظ جو فرشتہ تھا وہی اس کے آگے آگے چلے گا جب یہ اپنی جگہ پہنچے گا تو ازخود پہچان لے گا کہ میری جگہ یہی ہے۔ یونہی پھر اپنی زمین میں سیر کرتا ہوا جب سب دیکھ چکے گا تب فرشتہ ہٹ جائے گا اور یہ اپنی لذتوں میں مشغول ہوجائے گا۔ صحیح بخاری کی مرفوع حدیث میں ہے جب مومن آگ سے چھوٹ جائیں گے تو جنت، دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لئے جائیں گے اور آپس میں ایک دوسرے پر جو مظالم تھے ان کے بدلے اتار لئے جائیں گے جب بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی قسم اللہ کی جس طرح تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دنیوی گھر کی راہ جانتا ہے اور گھر کو پہچانتا ہے اس سے بہت زیادہ وہ لوگ اپنی منزل اور اپنی جگہ سے واقف ہوں گے پھر فرماتا ہے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ 40 ) 22۔ الحج:40) اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے گا اس لئے کہ جیسا عمل ہوتا ہے اسی جنس کی جزا ہوتی ہے اور وہ تمہارے قدم بھی مضبوط کر دے گا حدیث میں ہے جو شخص کسی اختیار والے کے سامنے ایک ایسے حاجت مند کی حاجت پہنچائے جو خود وہاں نہ پہنچ سکتا ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پل صراط پر اس کے قدم مضبوطی سے جما دے گا پھر فرماتا ہے کافروں کا حال بالکل برعکس ہے یہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھائیں گے حدیث میں ہے دینار درہم اور کپڑے لتے کا بندہ ٹھوکر کھا گیا وہ برباد ہوا اور ہلاک ہوا وہ اگر بیمار پڑجائے تو اللہ کرے اسے شفا بھی نہ ہو ایسے لوگوں کے نیک اعمال بھی اکارت ہیں اس لئے کہ یہ قرآن و حدیث سے ناخوش ہیں نہ اس کی عزت و عظمت ان کے دل میں نہ ان کا قصد و تسلیم کا ارادہ۔ پس انکے جو کچھ اچھے کام تھے اللہ نے انہیں بھی غارت کردیا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 7 { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ } ” اے اہل ِایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت اہم قانون ہے۔ اگر تم لوگ اللہ کے فرماں بردار بندے بن کر رہو گے ‘ اسی سے مدد مانگو گے ‘ اسی پر توکل ّکرو گے اور اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لوگے تو وہ تمہیں بےسہارا اور بےیارومددگار نہیں چھوڑے گا ‘ بلکہ ایسی صورت میں ہر جگہ ‘ ہر گھڑی اس کی مدد آپ لوگوں کے شامل حال رہے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر تم لوگ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائو گے ‘ ان کی وفاداریوں کا دم بھرو گے ‘ انہیں اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھو گے ‘ تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دے گا۔ پھر تم اللہ سے رو رو کر بھی دعائیں کرو گے تو اس کے حضور تمہاری شنوائی نہیں ہوگی۔ اس کی عملی مثال 1971 ء کی پاک بھارت جنگ میں سامنے آئی تھی۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کی کامیابی کے لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کے اندر تو اتر کے ساتھ قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ مگر عین اسی وقت ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ تھی کہ وہ مدد اور حمایت کے لیے اللہ کے دشمنوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ان کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ یعنی دعائیں تو اللہ سے مانگی جا رہی تھیں لیکن بھروسا امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے پر تھا۔ لہٰذا دنیا نے دیکھ لیا کہ حرمین شریفین کے اندر مانگی گئی دعائیں بھی اللہ کے حضور درجہ قبولیت حاصل نہ کرسکیں اور سقوط ڈھا کہ کا بدترین سانحہ رونما ہو کر رہا۔ اس صورت حال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ قومی و ملکی سطح پر اتنی بڑی ہزیمت اور ذلت اٹھانے کے بعد بھی ہم نے اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ چناچہ آج بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے بدستور اللہ کے باغیوں کے سامنے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں۔ ہمارے حکمران آج بھی انہی کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں اور انہیں کی مدد پر بھروسا کیے بیٹھے ہیں۔ ادھر پورے ملک کی معیشت ہے کہ بڑے دھڑلے ّسے سود پر چل رہی ہے۔ گویا ملک کے اندر ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کھلم کھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں بھلا کیونکر سنے گا اور کیونکر اس کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی ؟ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے راہنمائی بھی ہے اور خوشخبری بھی کہ اگر تم اللہ کی اطاعت میں مخلص رہو گے ‘ اس کے دین کے جھنڈے کو تھامے رکھوگے اور اقامت دین کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ رہو گے تو وہ تمہاری مدد کے لیے ہر جگہ تمہارے ساتھ موجود ہوگا اور تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔
ياأيها الذين آمنوا إن تنصروا الله ينصركم ويثبت أقدامكم
سورة: محمد - آية: ( 7 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 507 )Surah muhammad Ayat 7 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا
- اور یہ کہ (اے محمد سب سے) یکسو ہو کر دین (اسلام) کی پیروی کئے
- تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں
- کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر میں (خدا سے) ڈرتے رہتے تھے
- ان (قصوں) میں اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ
- قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے
- اور فرشتے اس کے کناروں پر (اُتر آئیں گے) اور تمہارے پروردگار کے عرش کو
- اور ہم اپنی تدبیر کر رہے ہیں
- کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے خدا اس کو
- یہ نصیحت ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو عمدہ مقام ہے
Quran surahs in English :
Download surah muhammad with the voice of the most famous Quran reciters :
surah muhammad mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter muhammad Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers