Surah ahzab Ayat 6 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت نمبر 6 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah ahzab ayat 6 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا﴾
[ الأحزاب: 6]

Ayat With Urdu Translation

پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔ اور رشتہ دار آپس میں کتاب الله کے رُو سے مسلمانوں اور مہاجروں سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں۔ مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو۔ (تو اور بات ہے) ۔ یہ حکم کتاب یعنی (قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے

Surah ahzab Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) نبی ( صلى الله عليه وسلم ) اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کو مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ حق دار، آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم تر قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) ان کے جن مالوں کا مطالبہ۔ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) پر نچھاور کر دیں چاہے انہیں خود کتنی ہی ضرورت ہو، آپ ( صلى الله عليه وسلم ) سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں۔ ( جیسے حضرت عمر ! کا واقعہ ہے ) آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی «فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ» ( النساء: 65 ) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه»..
کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول ( صلى الله عليه وسلم ) میں کوتاہی بھی «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ ..» کا مصداق بنا دے گی۔
( 2 ) یعنی احترام وتکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔
( 3 ) یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔
( 4 ) ہاں تم غیر رشتے داروں کے لئے احسان اور بر وصلہ کا معاملہ کر سکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔
( 5 ) یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتاً دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کرکے پہلا حکم بحال کر دیا گیا ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


تکمیل ایمان کی ضروری شرط چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور ﷺ اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں جیسے فرمایا آیت ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀ )النساء:65) ، تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدن و جان و کشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ یہ سن کر جناب فاروق ؓ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اب ٹھیک ہے۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو آیت ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ) 33۔ الأحزاب :6) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے۔ پھر فرماتا ہے حضور ﷺ کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلا خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھا ہے جیسے کہ حضرت امام شافعی ؒ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات۔ حضرت معاویہ ؓ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المومنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی ؒ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور ﷺ کو ابو المومنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابو المومنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے امام شافعی ؒ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ ابی بن کعب اور ابن عباس ؓ کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپ ان کے والد ہیں۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے۔ آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے ( نسائی وغیرہ ) میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀ ) 33۔ الأحزاب :40) حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں۔ اس سے پہلے رسول کریم ﷺ نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی ﷺ نے بھائی چارہ کرادیا تھا۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری و مہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے۔ حضرت ابوبکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید ؓ کے ساتھ تھا۔ حضرت عمر ؓ کا فلاں کے ساتھ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک ؓ کے ساتھ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا۔ پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو۔ پھر فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم و تبدیلی نہیں ہوئی۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا واللہ اعلم۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 6 { اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ } ” یقینا نبی ﷺ کا حق مومنوں پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ ہے “ تمام اہل ِایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں سے زیادہ حضور ﷺ کی جان کی فکر کریں اور آپ ﷺ کو اپنے ماں باپ ‘ اپنی اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب رکھیں۔ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان صحیحین میں ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے : لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ 1” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ ‘ اس کی اولاد اور سب انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔ “ { وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ } ” اور نبی ﷺ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ “ یہاں پر اس فقرے سے پہلے ” وَھُوَ اَبٌ لَّھُمْ “ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے ‘ یعنی حضور ﷺ مومنوں کے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ : اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ 2 یعنی تم سب کے لیے میری حیثیت والد کی سی ہے۔ قرآن مجید کے ان الفاظ کی رو سے نبی کریم ﷺ کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں قابل احترام ہیں۔ چناچہ ازواجِ مطہرات رض کے ناموں کے ساتھ ” اُمّ المومنین رض “ کے الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُمّ المومنین حضرت خدیجہ رض ‘ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رض ‘ اُمّ المومنین حضرت صفیہ رض ‘ اُمّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رض ! { وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ } ” اور رحمی رشتے رکھنے والے ‘ اللہ کی کتاب کے مطابق ‘ مومنین و مہاجرین کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں “ { اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِِکُمْ مَّعْرُوْفًا } ” سوائے اس کے کہ تم لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی ُ حسن ِسلوک کرنا چاہو۔ “ اس سے پہلے ” اُولُوا الْاَرْحَامِ “ کے بارے میں یہی الفاظ سورة الأنفال کی آخری آیت میں بھی آچکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے قانون میں رحمی اور خونی رشتے دوسرے تمام رشتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر مومنین و مہاجرین کا ذکر کر کے مدینہ کے مقامی معاشرے میں ایک مخصوص صورت حال کی بھی وضاحت کردی گئی کہ اگرچہ تمہارے مہاجرین اور انصار کے درمیان ” مواخات “ کے تحت بےمثال رشتے قائم ہوچکے ہیں اور تم لوگوں نے ان رشتوں کے حوالے سے ایثار کی نئی نئی مثالیں بھی قائم کر کے دکھائی ہیں ‘ لیکن اللہ کے قانونِ وراثت میں ایسے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چناچہ قانونِ وراثت میں نہ تو انصار و مہاجرین جیسے کسی بھائی چارے کا لحاظ ہوگا اور نہ ہی ُ منہ بولے رشتوں کے لیے کوئی حصہ مخصوص کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے تعلقات کی بنا پر کسی دینی بھائی ‘ عزیز یا دوست کو کوئی چیز تحفۃً دینا چاہے یا کسی کے حق میں کوئی چیزہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ { کَانَ ذٰلِکَ فِی الْْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا } ” یہ سب باتیں پہلے سے کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ “ کتاب میں لکھے ہوئے سے مراد لوح محفوظ یا اس موضوع پر تورات کے احکام بھی ہوسکتے ہیں اور خود قرآنی احکام بھی ‘ جو اس سے پہلے سورة النساء اور سورة الأنفال میں نازل ہوچکے تھے۔

النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض في كتاب الله من المؤمنين والمهاجرين إلا أن تفعلوا إلى أوليائكم معروفا كان ذلك في الكتاب مسطورا

سورة: الأحزاب - آية: ( 6 )  - جزء: ( 21 )  -  صفحة: ( 418 )

Surah ahzab Ayat 6 meaning in urdu

بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ خدا
  2. مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انہیں کچھ ملامت
  3. اور بعض ایسے ہیں کہ تمھاری طرف دیکھتے ہیں۔ تو کیا تم اندھوں کو راستہ
  4. کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائےیا قیامت آموجود ہو
  5. بےشک تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور (جس کی روزی
  6. اور جن لوگوں نے خدا پر جھوٹ بولا تم قیامت کے دن دیکھو گے کہ
  7. تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
  8. عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں کی) تبلیغ ہے
  9. صرف ایک خدا کے ہو کر اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرا کر۔ اور جو
  10. اور (اس دن کو یاد کرو) جس دن ہم ہر اُمت میں سے خود اُن

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :

surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
surah ahzab Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah ahzab Bandar Balila
Bandar Balila
surah ahzab Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah ahzab Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah ahzab Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah ahzab Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah ahzab Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah ahzab Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah ahzab Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah ahzab Fares Abbad
Fares Abbad
surah ahzab Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah ahzab Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah ahzab Al Hosary
Al Hosary
surah ahzab Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah ahzab Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Saturday, May 11, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب