Surah anaam Ayat 73 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ﴾
[ الأنعام: 73]
اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر سے پیدا کیا ہے۔ اور جس دن وہ فرمائے گا کہ ہو جا تو (حشر برپا) ہوجائے گا ۔ اس کا ارشاد برحق ہے۔ اور جس دن صور پھونکا جائے گا (اس دن) اسی کی بادشاہت ہوگی۔ وہی پوشیدہ اور ظاہر (سب) کا جاننے والا ہے اور وہی دانا اور خبردار ہے
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حق کے ساتھ یا بافائدہ پیدا کیا، یعنی ان کو عبث اور بےفائدہ ( کھیل کود کے طور پر ) پیدا نہیں کیا، بلکہ ایک خاﺹ مقصد کے لئے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔
( 2 ) ” يَوْمَ “ فعل محذوف وَاذْكُر یا وَاتَّقُوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کن ( ہوجا ) سے وہ جو چاہے گا، ہوجائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے۔ لیکن کن کے لئے؟ ایمان داروں کے لئے۔ دوسروں کو تو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔
( 3 ) ” صُورٌ “ سے مراد وہ نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ” اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہیٰ کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انہیں کہا جائے تو اس میں پھونک دیں “۔ ( ابن کثیر ) ابوداود اور ترمذی میں ہے ” الصور قرن ينفخ فيه “ ( نمبر 474۔ 4030 ،344 ) ” صور ایک قرن ( نرسنگا ) ہے جس میں پھونکا جائے گا “ بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے، نَفْخَةُ الصَّعْقِ ( جس سے تمام لوگ بےہوش ہو جائیں گے ) نَفْخَةُ الفَنَاءِ جس سے تمام لوگ فنا ہوجائیں گے۔ نَفْخَةُ الإِنْشَاءِ جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اسلام کے سوا سب راستوں کی منزل جہنم ہے مشرکوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ ہمارے دین میں آجاؤ اور اسلام چھوڑ دو اس پر یہ آیت اتری کہ کیا ہم بھی تمہاری طرح بےجان و بےنفع و نقصان معبودوں کو پوجنے لگیں ؟ اور جس کفر سے ہٹ گئے ہیں کیا پھر لوٹ کر اسی پر آجائیں ؟ اور تم جیسے ہی ہوجائیں ؟ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اب تو ہماری آنکھیں کھل گئیں صحیح راہ مل گئی اب اسے کیسے چھوڑ دیں ؟ اگر ہم ایسا کرلیں تو ہماری مثال اس شخص جیسی ہوگی جو لوگوں کے ساتھ سیدھے راستے پر جا رہا تھا مگر راستہ گم ہوگیا شیطان نے اسے پر یسان کردیا اور ادھر ادھر بھٹکانے لگا اس کے ساتھ جو راستے پر تھے وہ اسے پکارنے لگے کہ ہمارے ساتھ مل جا ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں یہی مثال اس شخص کی ہے جو آنحضرت ﷺ کو جان اور پہچان کے بعد مشرکوں کا ساتھ دے۔ آنحضرت ﷺ ہی پکارنے والے ہیں اور اسلام ہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے، ابن عباس فرماتے ہیں یہ مثال اللہ تعالیٰ نے معبودان باطل کی طرف بلانے والوں کی بیان فرمائی ہے اور ان کی بھی جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، ایک شخص راستہ بھولتا ہے وہیں اس کے کان میں آواز آتی ہے کہ اے فلاں ادھر آ سیدھی راہ یہی ہے لیکن اس کے ساتھی جس غلط راستے پر لگ گئے ہیں وہ اسے تھپکتے ہیں اور کہتے ہیں یہی راستہ صحیح ہے اسی پر چلا چل۔ اب اگر یہ سچے شخص کو مانے گا تو راہ راست لگ جائے گا ورنہ بھٹکتا پھرے گا۔ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے اس امید میں ہوتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں لیکن مرنے کے بعد انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کچھ نہ تھے اس وقت بہت نادم ہوتے ہیں اور سوائے ہلاکت کے کوئی چیز انہیں دکھائی نہیں دیتی، یعنی جس طرح کسی جنگ میں گم شدہ انسان کو جنات اس کا نام لے کر آوازیں دے کر اسے اور غلط راستوں پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ مارا مارا پھرتا ہے اور بالآخر ہلاک اور تباہ ہوجاتا ہے اسی طرح جھوت معبودوں کا پجاری بھی برباد ہوجاتا ہے، ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والے کی یہی مثال ہے جس راہ کی طرف شیطان اسے بلا رہے ہیں وہ تو تباہی اور بربادی کی راہ ہے اور جس راہ کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور اس کے نیک بندے جس راہ کو سجھا رہے ہیں وہ ہدایت ہے گو وہ اپنے ساتھیوں کے مجمع میں سے نہ نکلے اور انہیں ہی راہ راست پر سمجھتا رہے اور وہ ساتھی بھی اپنے تئیں ہدایت یافتہ کہتے رہیں۔ لیکن یہ قول آیت کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ آیت میں موجد ہے کہ وہ اسے ہدایت کی طرف بلاتے ہیں پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ضلالت ہو ؟ حیران پر زبر حال ہونے کی وجہ سے ہے صحیح مطلب یہی ہے کہ اس کے ساتھی جو ہدایت پر ہیں اب اسے غلط راہ پر دیکھتے ہیں تو اس کی خیر خواہی کے لئے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جا سیدھا راستہ یہی ہے لیکن یہ بدنصیب ان کی بات پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ توجہ تک نہیں کرتا، سچ تو یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے قبضے میں ہے، وہ جسے راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، چناچہ خود قرآن میں ہے کہ تو چاہے ان کی ہدایت پر حرص کرے لیکن جسے اللہ بھٹکا دے اسے وہی راہ پر لاسکتا ہے ایسوں کا کوئی مددگار نہیں، ہم سب کو یہی حکم کیا گیا ہے کہ ہم خلوص سے ساری عبادتیں محض اسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے کریں اور یہ بھی حکم ہے کہ نمازیں قائم رکھیں اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہیں قیامت کے دن اسی کے سامنے حشر کیا جائے گا سب وہیں جمع کئے جائیں گے، اسی نے آسمان و زمین کو عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے وہی مالک اور مدبر ہے قیامت کے دن فرمائے گا ہوجا تو ہوجائے گا ایک لمحہ بھی دیر نہ لگے گی یوم کا زبر یا تو وانقوہ پر عطف ہونے کی وجہ سے ہے یعنی اس دن سے ڈرو جس دن اللہ فرمائے گا ہو اور ہوجائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوم کا زبر خلق السموات والارض پر عطف ہونے کی بنا پر ہو تو گویا ابتدا پیدائش کو بیان فرما کر پھر دوبارہ پیدائش کو بیان فرمایا یہی زیادہ مناسب ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعل مضمر ہو یعنی اذکر اور اس وجہ سے یوم پر زبر آیا ہو، اس کے بعد کے دونوں جملے محلاً مجرور ہیں، پس یہ دونوں جملے بھی محلاً مجرور ہیں۔ ان میں پہلی صفت یہ ہے کہ اللہ کا قول حق ہے رب کے فرمان سب کے سب سچ ہیں، تمام ملک کا وہی اکیلا مالک ہے، سب چیزیں اسی کی ملکیت ہیں یوم ینفخ میں یوم ممکن ہے کہ یوم یقول کا بدل ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ولہ الملک کا ظرف ہو جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ) 40۔ غافر:16) آج کس کا ملک ہے ؟ صرف اللہ اکیلے غالب کا اور جیسے اس آیت میں ارشاد ہوا ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا ) 25۔ الفرقان:26) یعنی ملک آج صرف رحمان کا ہے اور آج کا دن کفار پر بہت سخت ہے اور بھی اس طرح کی اور اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں بعض کہتے ہیں صور جمع ہے صورۃ کی جیسے سورة شہر پناہ کو کہتے ہیں اور وہ جمع ہے سورة کی لیکن صحیح یہ ہے کہ مراد صور سے قرن ہے جسے حضرت اسرافیل پھونکین گے، امام بن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں حضور کا ارشاد ہے کہ حضرت اسرافیل صور کو اپنے منہ میں لئے ہوئے اپنی پیشانی جھکائے ہوئے حکم الٰہی کے منتظر ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صہابی کے سوال پر حضور نے فرمایا صور ایک نر سنگھے جیسا ہے جو پھونکا جائے گا، طبرانی کی مطولات میں ہے حضور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی پیدائش کے بعدصور کو پیدا کیا اور اسے حضرت اسرافیل کو دیا وہ اسے لئے ہوئے ہیں اور عرش کی طرف نگاہ جمائے ہوئے ہیں کہ کب حکم ہو اور میں اسے پھونک دوں۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صور کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک نرسنگھا ہے میں نے کہا وہ کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایا بہت ہی بڑا ہے والالہ اس کے دائرے کی چوڑائی آسمان وہ زمین کے برابر ہے اس میں سے تین نفحے پھونکے جائیں گے، پہلا گھبراہٹ کا دوسرا بیہوشی کا تیسرا رب العلمین کے سامنے کھڑے ہونے کا۔ اول اول جناب باری حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا وہ پھونک دیں گے جس سے آسمان و زمین کی تمام مخلوق گھبرا اٹھے گی مگر جسے اللہ چاہے یہ صور بحکم رب دیر تک برابر پھونکا جائے گا اسی طرف اشارہ اس آیت میں ہے و ما ینظر ھو لاء الا صبیحتہ واہدۃ مالھا من فوق یعنی انہیں صرف بلند زور دار چیخ کا انتظار ہے پہاڑ اس صور سے مثل بادلوں کے چلنے پھرنے لگیں گے پھر ریت ریت ہوجائیں گے زمین میں بھونچال آجائے گا اور وہ اس طرح تھر تھرانے لگے گی جیسے کوئی کشتی دریا کے بیچ زبردست طوفان میں موجوں سے ادھر ادھر ہو رہی ہو اور غوطے کھا رہی ہو۔ مثل اس ہانڈی کے جو عرش میں لٹکی ہوئی ہے جسے ہوائیں ہلا جلا رہی ہیں اسی کا بیان اس آیت میں ہے یوم ترجف الراجفتہ الخ، اس دن زمین جنبش میں آجائے گی اور بہت ہی ہلنے لگے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آجائے گی دل دھرکنے لگیں گے اور کلیجے الٹنے لگیں گے لوگ ادھر ادھر گرنے لگیں گے مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی، حاملہ عورتوں کے حمل گرجائیں گے بجے بوڑھے ہوجائیں گے شیاطین مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے بھاگتے بھاگتے زمین کے کناروں پر آجائیں گے، یہاں سے فرشتے انہیں مار مار کر ہٹائیں گے، لوگ پر یسان حال حواس باختہ ہوں گے کوئی جائے پناہ نظر نہ آئے گی امر الٰہی سے بچاؤ نہ ہو سکے گا ایک دوسرے کو آوازیں دیں گے لیکن سب اپنی اپنی مصیبت میں پڑے ہوئے ہوں گے کہ ناگہاں زمین پھتنی شروع ہوگی کہیں ادھر سے پھٹی کہیں ادھر سے پھتی اب تو ابتر حالت ہوجائے گی کلیجہ کپکپانے لگے گا دل الٹ جائے گا اور اتنا صدرمہ اور غم ہوگا جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا، جو آسمان کی طرف نظر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ گھل رہا ہے اور وہ بھی پھٹ رہا ہے ستارے جھڑ رہے ہیں سورج چاند بےنور ہوگیا ہے، ہاں مردوں کو اس کا کچھ علم نہ ہوگا حضرت ابوہریرہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ قرآن کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا، اسی کا بیان آیت ( يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ) 4۔ النساء:1) میں ہے یعنی اے لوگو اپنے رب سے ڈرویاد رکھو قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر ایک دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی ہر حمل والی کا حمل گرجائے گا تو دیکھا جائے گا کہ سب لوگ بیہوش ہوں گے حالانکہ وہ نشہ پئے ہوئے نہیں بلکہ اللہ کے سخت عذابوں نے انہیں بدحواس کر رکھا ہے یہی حالت رہے گی جب تک اللہ چاہے بہت دیر تک یہی گھبراہٹ کا عالم رہے گا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت جبرائیل کو بیہوشی کے نفحے کا حکم دے گا اس نفحہ کے پھونکتے ہی زمین و آسمان کی تمام مخلوق بیہوش ہوجائیں گی مگر جسے اللہ چاہے اور اچانک سب کے سب مرجائیں گے۔ حضرت ملک الموت اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اے باری تعالیٰ زمین آسمان کی تمام مخلوق مرگئی مگر جسے تو نے چاہا، اللہ تعالیٰ باوجود علم کے سوال کرے گا کہ یہ بتاؤ اب باقی کون کون ہے ؟ وہ جواب دین گے تو باقی ہے تو حی وقیوم ہے تجھ پر کبھی فنا نہیں اور عرش کے اٹھانے والے فرشتے اور جبرائیل و میکائیل اس وقت عرش کو زبان ملے گی اور وہ کہے گا اے پروردگار کیا جبرئل وہ میکائل بھی مریں گے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اپنے عرش سے نیچے والوں پر سب پر موت لکھ دی ہے چناچہ یہ دونوں بھی فوت ہوجائیں گے پھر ملک الموت رب جبار وقہار کے پاس آئیں گے اور خبر دیں گے کہ جبرائیل و میکائیل بھی انتقال کر گئے۔ جناب اللہ علم کے باوجودہ پھر دریافت فرمائے گا کہ اب باقی کون ہے ؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ باقی ایک تو تو ہے ایسی بقا ولا جس پر فنا ہے ہی نہیں اور تیرے عرش کے اٹھانے والے اللہ فرمائے گا عرش کے اٹھانے والے بھی مرجائیں گے اس وقت وہ بھی مرجائیں گے، پھر اللہ کے حکم سے حضرت اسرافیل سے صور کو عرش لے لے گا، ملک الموت حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ یا اللہ عرش کے اٹھانے والے فرشتے بھی مرگئے اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اب باقی کون رہا ؟ ملک الموت جواب دیں گے کہ ایک تو جس پر موت ہے ہی نہیں اور ایک تیرا غلام میں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا تو بھی میری مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے تجھے میں نے ایک کام کیلئے پیدا کیا تھا جسے تو کرچکا اب تو بھی مرجا چناچہ وہ بھی مرجائیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ اکیلا باقی رہ جائے گا جو غلبہ والا یگانگت والا بےماں باپ اور بےاولاد کے ہے۔ جس طرح مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے وہ یکتا اور اکیلا تھا۔ پھر آسمانوں اور زمینوں کو وہ اس طرح لپیٹ لے گا جیسے دفتری کاغذ کو لپیٹتا ہے پھر انہیں تین مرتبہ الٹ پلٹ کرے گا اور فرمائے گا میں جبار ہوں میں کبریائی والا وہں۔ پھر تین مرتبہ فرمائے گا آج ملک کا مالک کون ہے ؟ کوئی نہ ہوگا جو جواب دے تو خود ہی جواب دے گا اللہ واحد وقہار۔ قرآن میں ہے اس دن آسمان و زمین بدل دیئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں پھیلا دے گا اور کھینچ دے گا جس طرح چمڑا کھینچا جاتا ہے کہیں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے گی، پھر ایک الٰہی آواز کے ساتھ ہی ساری مخلوق اس تبدیل شدہ زمین میں آجائے گی اندر والے اندر اور اوپر ولے اوپر پھر اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سے اس پر بارش برسائے گا پھر آسمان کو حکم ہوگا اور وہ چالیس دن تک مینہ برسائے گا یہاں تک کہ پانی ان کے اوپر بارہ ہاتھ چڑھ جائے گا، پھر جسموں کو حکم ہوگا کہ وہ اگیں اور وہ اس طرح اگنے لگیں گے جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور وہ پورے پورے کامل جسم جیسے تھے ویسے ہی ہوجائیں گے پھر حکم فرمائے گا کہ میرے عرش کے اٹھانے والے فرشتے جی اٹھیں چناچہ وہ زندہ ہوجائیں گے پھر اسرافیل کو حکم ہوگا کہ صور لے کر منہ سے لگالیں۔ پھر فرمان ہوگا کہ جبرائیل و میکائیل زندہ ہوجائیں یہ دونوں بھی اٹھیں گے، پھر اللہ تعالیٰ روحوں کو بلائے گا مومنوں کو نورانی ارواح اور کفار کی ظلماتی روحیں آئیں گی انہیں لے کر اللہ تعالیٰ صور میں ڈال دے گا، پھر اسرافیل کو حکم ہوگا کہ اب صور پھونک دو چناچہ بعث کا صور پھونکا جائے گا جس سے ارواہ اس طرح نکلین گی جیسے شہید کی مکھیاں۔ تمام خلا ان سے بھر جائے گا پھر رب عالم کا ارشاد ہوگا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے، چنانجہ سب روحیں اپنے اپنے جسموں میں نتھنوں کے راستے چلی جائیں گی اور جس طرح زہر رگ وپے میں اثر کرجاتا ہے روہ روئیں روئیں میں دوڑ جائے گی، پھر زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے، سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین شق ہوگی، لوگ نکل کر دوڑ تے ہوئے اپنے رب کی طرف چل دیں گے، اس وقت کافر کہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری ہے، سب ننگے پیروں ننگے بدن بےختنہ ہوں گے ایک میدان میں بقدر ستر سال کے کھڑے رہیں گے، نہ ان کی طرف نگاہ اٹھائی جائے گی نہ ان کے درمیان فیصلے کئے جائیں گے، لوگ بےطرح گریہ وزاری میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہوجائیں گے اور خون آنکھوں سے نکلنے لگے گا، پسینہ اس قدر آئے گا کہ منہ تک یا ٹھوریوں تک اس میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، آپس میں کہیں گے آؤ کسی سے کہیں کہ وہ ہماری شفاعت کرے، ہمارے پروردگار سے عرض کرے کہ وہ آئے اور ہمارے فیصلے کرے تو کہیں گے کہ اس کے لائق ہمارے باپ حضرت آدم ؑ سے بہتر کون ہوگا ؟ جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے ان سے باتین کیں۔ چناچہ سب مل کر آپ کے پا سجأایں گے اور سفاش طلب کریں گے لیکن حضرت آدم ؑ صاف انکار کر جائیں گے اور فرمائیں گے مجھ میں اتنی قابلیت نہیں پھر وہ اسی طرح ایک ایک نبی کے پاس جائیں گے اور سب انکار کر دین گے۔ حضور فرماتے ہیں پھر سب کے سب یرے پاس آئیں گے، میں عرش کے آگے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا، اللہ تعالیٰ میرے پاس فرشتہ بھیجے گا وہ میرا بازو تھام کر مجھے سجدے سے اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ﷺ میں جواب دوں گا کہ ہاں اے میرے رب، اللہ عزوجل باو وجد عالم کل ہونے کے مجھے سے دریافت فرمائے گا کہ کیا بات ہے ؟ میں کہوں گا یا اللہ تو نے مجھ سے شفاعت کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے اپنی مخلوق کے بارے میں میری شفاعت کو قبول فرما اور ان کے فیصلوں کے لئے تشریف لے آ۔ رب العالمین فرمائے گا میں نے تیری سفارش قبول کی اور میں آ کر تم میں فیصلے کئے دیتا ہوں۔ میں لوٹ کر لوگوں کے ساتھ ٹھہر جاؤں گا کہ ناگہاں آسمانوں سے ایک بہت بڑا دھماکہ سنائی دے گا جس سے لوگ خوفزدہ ہوجائیں گے اتنے میں آسمان کے فرشتے اترنے شروع ہوں گے جن کی تعداد کل انسانوں اور سارے جنوں کے برابر ہوگی۔ جب وہ زمین کے قریب پہنچیں گے تو ان کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی وہ صفیں باندھ کر کھڑے ہوجائیں گے ہم سب ان سے دریافت کریں گے کہ کیا تم میں ہمارا رب آیا ہے ؟ وہ جواب دیں گے نہیں پھر اس تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں اور فرشتے آئیں گے۔ آخر ہمارا رب عزوجل ابر کے سائے میں نزول فرمائے گا اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں گے اس کا عرش اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے اس وقت عرش کے اٹھانے والے جار فرشتے ہیں ان کے قدم آخری نیچے والی زمین کی تہ میں ہیں زمین و آسمان ان کے نصف جسم کے مقابلے میں ہے ان کے کندھوں پر عرش الٰہی ہے۔ ان کی زبانین ہر وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی پاکیزگی کے بیان میں تر ہیں۔ ان کی تسبیح یہ ہے سبحان ذی العرش والجبروت سبحان ذی الملک والملکوت سبحان الحی الذی لا یموت سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت سبوح قدوس قدوس قدوس سبہان ربنا الاعلی رب الملا ئکتہ والروہ سبحان ربنا الا علی الذی یمیت الخلائق ولا یموت پھر اللہ جس جگہ چاہے گا پانی کرسی زمین پر رکھے گا اور بلند آواز سے فرمائے گا اے جنو اور انسانو میں نے تمہیں جس دن سے پیدا کیا تھا اس دن سے آج تک میں خاموش رہا تمہاری باتیں سنتا رہا تمہارے اعمال دیکھتا رہا سنو تمہارے اعمال نامے میرے سامنے پڑھے جائیں گے جو اس میں بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جو اس میں اور کچھ پائے وہ اپنی جان کو ملامت کرے، پھر بحکم الہ جہنم میں سے ایک دیھکتی ہوئی گردن نکلے گی اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے آدم کی اوالد کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی پوجانہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ؟ اور صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا یہی سیدھی راہ ہے، شیطان نے تو بہت سی مخلوق کو گومراہ کردیا ہے کیا تمہیں عقل نہیں ؟ یہ ہے وہ جہنم جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے اور جسے تم جھٹلاتے رہے اے گنہگارو ! آج تم نیک بندوں سے الگ ہوجاؤ، اس فرمان کے ساتھ ہی بد لوگ نیکوں سے الگ ہوجائیں گے تمام امتیں گھٹنوں کے بل گرپڑیں گی جیسے قرآن کریم میں ہے کہ تو ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرے ہوئے دیکھے گا ہر امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں فیصلے کرے گا پہلے جانوروں میں فیصلے ہوں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا، جب کسی کا کسی کے ذمہ کوئی دعوی باقی نہ رہے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں فرمائے گا تم سب مٹی ہوجاؤ، اس فرمان کے ساتھ ہی تمام جانور مٹی بن جائیں گے، اس وقت کافر بھی یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم بھی مٹی ہوجاتے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے شروع کرے گا سب سے پہلے قتل و خون کا فیصلہ ہوگا، اللہ تعالیٰ اپنی راہ کے شہیدوں کو بھی بلائے گا ان کے ہاتھوں سے قتل شدہ لوگ اپنا سر اٹھائے ہوئے حاضر ہوں گے رگوں سے خون بہ رہا ہوگا کہیں گے کہ باری تعالیٰ دریافت فرما کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ پس باوجود علم کے اللہ عزوجل مجاہدین سے پوچھے گا کہ تم نے انہیں کیوں قتل کیا ؟ وہ جواب دیں گے اس لئے کہ تیری بات بلند ہو اور تیری عزت ہو اللہ عالی فرمائے گا تم سجے ہو اسی وقت ان کا چہرہ نورانی ہوجائے گا سورج کی طرح چمکنے لگے گا اور فرشتے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے کر جنت کی طرف چلیں گے پھر باقی کے اور تمام قاتل و مقتول اسی طرح پیش ہوں گے اور جو نفس ظلم سے قتل کیا گیا ہے اس کا بدلہ ظالم قاتل سے دلوایا جائے گا اسی طرح ہر مظلوم کو ظالم سے بدلہ دلوایا جائے گا یہاں تک کہ جو شخص دودھ میں پانی ملا کر بیچتا تھا اسے فرمایا جائے گا کہ اپنے دودھ سے پانی جدا کر دے، ان فیصلوں کے بع دایک منادی باآواز بلند ندا کرے گا جسے سب سنیں گے، ہر عابد اپنے معبود کے پیچھے ہولے اور اللہ کے سوا جس نے کسی اور کی عبادت کی ہے وہ جہنم میں چل دے، سنو اگر یہ سچے معبود ہوتے تو جہنم میں واردنہ ہوتے یہ سب تو جہنم میں ہی ہمیشہ رہیں گے اب صرف باایمان لوگ باقی رہیں گے ان میں منافقین بھی شامل ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے پاس جس ہیئت میں چاہے تشریف لائے گا اور ان سے فرمائے گا کہ سب اپنے معبودوں کے پیچھے چلے گئے تم بھی جس کی عباد کرتے تھے اس کے پاس چلے جاؤ۔ یہ جواب دیں گے کہ واللہ ہمارا تو کوئی معبود نہیں بجزالہ العالمین کے۔ ہم نے کسی اور کی عبادت نہیں کی۔ اب ان کے لئے پنڈلی کھول دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کی تجلیاں ان پر ڈالے گا جس سے یہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور سجدے میں گرپڑیں گے لیکن منافق سجدہ نہیں کرسکیں گے یہ اوندھے اور الٹے ہوجائیں گے اور اپنی کمر کے بل گرپڑیں گے۔ ان کی پیٹھ سیدھی کردی جائے گی مڑ نہیں سکیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کو سجدے سے اٹھنے کا حکم دے گا اور جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی جو تلوار جیسی تیز دھار والی ہوگی اور جگہ جگہ آنکڑے اور کانٹے ہوں گے بڑی پھسلنی اور خطرانک ہوگی ایماندار تو اس پر سے اتنی سی دیر میں گذر جائیں گے جتنی دیر میں کوئی آنکھ بند کر کے کھول دے جس طرح بجلی گذرجاتی ہے اور جیسے ہوا تیزی سے چلتی ہے۔ یا جیسے تیز روگھوڑے یا اونٹ ہوتے ہیں یا خوب بھاگنے والے آدمی ہوتے ہیں بعض صحیح سالم گذر جائیں گے بعض زخمی ہو کر پار اتر جائیں گے بعض کٹ کر جہنم میں گرجائیں گے جتنی لوگ جب جنت کے پاس پہنچیں گے تو کہیں گے کون ہمارے رب سے ہماری سفارش کرے کہ ہم جنت میں چلے جائیں ؟ دوسرے لوگ جواب دیں گے اس کے حقدار تمہارے باپ حضرت آدم ؑ سے زیادہ اور کون ہوں گے ؟ جنہیں رب ذوالکریم نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور آمنے سامنے باتیں کیں پس سب لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے سفارش کرانی چاہیں گے لیکن اپنا گناہ یاد کر کے جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں تم نوح ؑ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں، لوگ حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت نوح کے پاس آ کر ان سے یہ درخواست کریں گے لیکن وہ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی فرمائیں گے اور کہیں گے کہ تم سب حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ وہ خلیل اللہ ہیں لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور یہی کہیں گے آپ بھی اپنے گناہ کو یاد کر کے یہی جواب دیں گے اور حضرت موسیٰ کے پاس جانے کی ہدایت کریں گے کہ اللہ نے انہیں سرگوشیاں کرتے ہوئے نزدیک کیا تھا وہ کلیم اللہ ہیں ان پر توراۃ نازل فرمائی گئی تھی لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ سے طلب سفارش کریں گے آپ بھی اپنے گناہ کا ذکر کریں گے اور روح اللہ اور کلمتہ اللہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے پاس بھیجیں گے لیکن حضرت عیسیٰ ؑ فرمائیں گے میں اس قابل نہیں تم حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ حضور فرماتے ہیں پس سب لوگ میرے پاس آئیں گے، میں اللہ کے سامنے تین شفاعتیں کروں گا میں جاؤں گا جنت کے پاس پہنچ کر دروازے کا کنڈا پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا مجھے مرحبا کہا جائے گا اور خوش آمدید کہا جائے گا میں جنت میں جا کر اپنے رب کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑوں گا اور وہ وہ حمد و ثنا جناب باری کی بیان کروں گا جو کسی نے نہ کی ہو، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ شفاعت کرو قبول کی جائے گی مانگو ملے گا میں سر اٹھاؤں گا اللہ تعالیٰ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے تاہم وہ دریافت فرمائے گا کہ کیا کہنا چاہتے ہو ؟ میں کہوں گا اے اللہ تو نے میری شفاعت کے قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ میری شفاعت ان جنتیوں کے بارے میں قبول فرمائے گا اور انہیں جنت کے داخلے کی اجازت ہوجائے گی۔ واللہ جیسے تم اپنے گھر سے اپنے بال بچوں سے آگاہ ہو اس سے بہت زیادہ یہ جنتی اپنی جگہ اور اپنی بیویوں سے واقف ہوں گے ہر ایک اپنے اپنے ٹھکانے پہنچ جائے گا ستر ستر حوریں اور دو دو عورتیں ملیں گی، یہ دونوں عورتیں اپنی کی ہوئی نیکیوں کے سبب پر فضیلت چہروں کی مالک ہوں گی جتنی ان میں سے ایک کے پاس جائے گا جو یاقوت کے بالا خانے میں سونے کے جڑاؤ تخت پر ستر ریشمی حلے پہنے ہوئے ہوگی اس کا جسم اس قدر نورانی ہوگا کہ ایک طرف اگر جنتی اپنا ہاتھ رکھے تو دوسری طرف سے نظر آئے گا اس کی صفائی کی وجہ سے اس کی پنڈلی کا گودا گوشت پوست میں نظر آ رہا ہوگا اس کا دل اس کا آئینہ ہوگا نہ یہ اس سے بس کرے نہ وہ اس سے اکتائے، جب کبھی اس کے پاس جائے گا باکرہ پائے گا، نہ یہ تھکے نہ اسے تکلیف ہو، نہ کوئی مکرو چیز ہو، یہ اپنی اسی مشغولی میں مزے میں اور لطف و راحت میں اللہ جانے کتنی مدت گزار دے گا جو ایک آواز آئے گی کہ مانا نہ تمہارا دل اس سے بھرتا ہے نہ ان کا دل تم سے بھرے گا۔ لیکن اللہ نے تمہارے لئے اور بیویاں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ اب یہ اوروں کے پاس جائے گا جس کے پاس جائے گا بےساختہ زبان سے یہی نکلے گا اللہ کی قسم کی سازی جنت میں تم سے بہتر کوئی چیز نہیں مجھے تو جنت کی تمام چیزوں سے زیادہ تم سے محبت ہے، ہاں جنہیں ان کی بد عملیوں اور گناہوں نے تباہ کر رکھا ہے وہ جہنم میں جائیں گے اپنے اپنے اعمال کے مطابق آگ میں جلیں گے، بعض قدموں تک بعض آدھی پنڈلی تک بعض گھٹنے تک بعض آدھے بدن تک بعض گردن تک، صرف چہرہ باقی رہ جائے گا کیونکہ صورت کا بگاڑنا اللہ نے آگ پر حرام کردیا ہے، رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گنہگار دوزخیوں کی شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جنہیں پہچانو انہیں نکال لاؤ، پھر یہ لوگ جہنم سے آزاد ہوں گے یہاں تک کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا پھر تو شفاعت کی عام اجازت مل جائے گی کل انبیاء اور شہداء شفاعت کریں گے، جناب باری کا ارشاد ہوگا کہ جس کے دل میں ایک دینار برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لاؤ، پس یہ لوگ بھی آزاد ہوں گے اور ان میں سے بھی کوئی باقی نہ رہے گا، پھر فرمائے گا انہیں بھی نکال لاؤ جس کے دل میں دو ثلث دینار کے برابر ایمان ہو، پھر فرمائے گا ایک ثلث والوں کو بھی، پھر ارشاد ہوگا چوتھائی دینار کے برابر والوں کو بھی، پھر فرمائے گا ایک قیراط کے برابر والوں کو بھی، پھر ارشاد ہوگا انہیں بھی جہنم سے نکال لاؤ جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، پس یہ سب بھی نکل آئیں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی باقی نہ بچے گا، بلکہ جہنم میں ایک شخص بھی ایسا نہ رہ جائے گا جس نے خلوص کے ساتھ کوئی نیکی بھی اللہ کی فرمانبرداری کے ماتحت کی ہو، جتنے شفیع ہوں گے سب سفارش کرلیں گے یہاں تک کہ ابلیس کو بھی امید بندھ جائے گی اور وہ بھی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھے گا کہ شاید کوئی میری بھی شفاعت کرے کیونکہ وہ اللہ کی رحمت کا جوش دیکھ رہا ہوگا اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین فرمائے گا کہ اب تو صرف میں ہی باقی رہ گیا اور میں تو سب سے زیادہ رحم و کرم کرنے والا ہوں، پس اپنا ہاتھ ڈال کر خود اللہ تبارک و تعالیٰ جہنم میں سے لوگوں کو نکالے گا جن کی تعداد سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا وہ جلتے جھلستے ہوئے کوئلے کی طرح ہوگئے ہوں گے، انہیں نہر حیوان میں ڈالا جائے گا جہاں وہ اس طرح اگیں گے جس طرح دانہ اگتا ہے جو کسی دریا کے کنارے بویا گیا ہو کہ اس کا دھوپ کا رخ تو سبز رہتا ہے اور سائے کا رخ زرد رہتا ہے ان کی گردنوں پر تحریر ہوگا کہ یہ رحمان کے آزاد کردہ ہیں، اس تحریر سے انہیں دوسرے جنتی پہچان لیں گے۔ ایک مدت تک تو یونہی رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ حروف بھی مٹ جائیں اللہ عزوجل یہ بھی مٹا دے گا یہ حدیث اور آگے بھی ہے اور بہت ہی غریب ہے اور اس کے بعض حصوں کے شواہد متفرق احادیث میں ملتے ہیں، اس کے بعض الفاظ منکر ہیں۔ اسماعیل بن رافع قاضی اہل مدینہ اس کی روایت کے ساتھ منفرد ہیں ان کو بعض محدثین نے تو ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہا ہے اور ان کی حدیث کی نسبت کئی ایک محدثین نے منکر ہونے کی صراحت کی ہے، جیسے امام احمد امام ابو حاتم امام عمرو بن علی، بعض نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ متروک ہیں، امام ابن عدی فرماتے ہیں ان کی سب احادیث میں نظر ہے مگر ان کی حدیثیں ضعیف احادیث میں لکھنے کے قابل ہیں، میں نے اس حدیث کی سندوں میں نے جو اختلاف کئی وجوہ سے ہے اسے علیحدہ ایک جزو میں بیان کردیا ہے اس میں شک نہیں کہ اس کا بیان بہت ہی غریب ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہت سی احادیث کو ملا کر ایک حدیث بنا لی ہے اسی وجہ سے اسے منکر کہا گیا ہے، میں نے اپنے استاد حافظ ابو الحجاج مزی سے سنا ہے کہ انہوں نے امام ولید بن مسلم کی ایک کتاب دیکھی ہے جس میں ان باتوں کے جو اس حدیث میں ہی ہیں شواہد بیان کئے ہیں واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 73 وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ ط یعنی یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے تحت پیدا کیے ہیں۔ جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا گیا : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج آیت 191 اے رب ہمارے ‘ تو نے یہ سب باطل بےمقصد پیدا نہیں کیا۔ گویا حق کا لفظ یہاں باطل کے مقابلے میں آیا ہے۔وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ ط جب وہ چاہے گا اس کائنات کی بساط کو لپیٹ دے گا۔ اسی نے اسے حق کے ساتھ بنایا ہے اور اسی کے حکم کے ساتھ یہ لپیٹ دی جائے گی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط الانبیاء : 104 جس دن ہم ان تمام خلاؤں ‘ فضاؤں اور آسمانوں کو ایسے لپیٹ دیں گے جیسے کتابوں کا طومارلپیٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سورة الزمر میں ارشاد ہوا : وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌم بِیَمِیْنِہٖ ط آیت 67 اور اس روز آسمان اللہ کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔قَوْلُہُ الْحَقُّ ط۔اس کا فرمان شدنی ہے۔ اس کا کُنْ کہہ دینا برحق ہے۔ اسے تخلیق کے لیے کسی اور شے کی ضرورت نہیں ‘ مادہ material یا توانائی energy کچھ بھی اسے درکار نہیں۔وَلَہُ الْمُلْکُ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ ط۔اگرچہ حقیقت میں تو اب بھی بادشاہی اسی کی ہے لیکن ابھی جھوٹے سچے کئی بادشاہ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے ہیں ‘ جو مختلف ڈراموں کے مختلف کردار ہیں۔ مگر یہ سب کے سب اس دن نسیاً منسیا ہوجائیں گے اور پوچھا جائے گا : لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط اور پھر جواب میں خود ہی فرمایا جائے گا : لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ۔ المؤمن عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ ۔اس سورة مبارکہ میں اب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر ان کی نسل کے بعض انبیاء کرام علیہ السلام کا ذکر آ رہا ہے۔ انبیاء کے ناموں پر مشتمل ایک خوبصورت گلدستہ تو سورة النساء کے آخر میں ہم دیکھ آئے ہیں ‘ وہاں ہم نے 13 انبیاء و رسل کے نام پڑھے تھے۔ اب یہاں اس سے ذرا بڑا گلدستہ سجایا گیا ہے ‘ جس میں 17 انبیاء و رسل کے نام شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر یہاں ذرا تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ آپ علیہ السلام کی قوم کا کیا انجام ہوا ‘ اس کی تفصیل قرآن میں مذکور نہیں ہے۔ اسی لیے آپ علیہ السلام کے معاملے کو یہاں اس سورة میں الگ کرلیا گیا ہے ‘ کیونکہ اس سورة میں صرف التّذکیر بآلاء اللّٰہ کی مثالیں ہیں ‘ جبکہ سورة الأعراف میں ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّام اللّٰہ کے تحت التذکیر بِاَیَّام اللّٰہ کا ظہور نظر آتا ہے۔ چناچہ حضرت نوح ‘ حضرت ھود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر سورة الأعراف میں ہے۔ یہی وہ چھ رسول ﷺ ہیں جن کی قوموں پر عذاب آیا اور ان کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
وهو الذي خلق السموات والأرض بالحق ويوم يقول كن فيكون قوله الحق وله الملك يوم ينفخ في الصور عالم الغيب والشهادة وهو الحكيم الخبير
سورة: الأنعام - آية: ( 73 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 136 )Surah anaam Ayat 73 meaning in urdu
وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو بر حق پیدا کیا ہے اور جس د ن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائیگا اس روز پادشاہی اُسی کی ہوگی، وہ غیب اور شہادت ہر چیز کا عالم ہے اور دانا اور باخبر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے
- اور ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جن میں صریح آزمائش تھی
- جن لوگوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی ان کی مثال بری ہے اور انہوں
- (یعنی) لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے (تورات اور انجیل اتاری) اور (پھر قرآن جو
- اب اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا
- کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ گنہگاروں کا انجام کیا ہوا
- اُن کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور
- (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو
- اور (اس طرح) اس (شخص) کو (ان کی) پیداوار (ملتی رہتی) تھی تو (ایک دن)
- اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers