Surah Taubah Ayat 60 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾
[ التوبة: 60]
صدقات (یعنی زکوٰة وخیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے میں) اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
Surah Taubah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس آیت میں اس طعن کا دروازہ بند کرنے کے لئے صدقات کے مستحق لوگوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ صدقات سے مراد یہاں صدقات واجبہ یعنی زکٰوۃ ہے۔ آیت کا آغاز إنَّمَا سے کیا گیا ہے جو قصر کے صیغوں میں سے ہے اور الصقات میں لام تعریف جنس کے لیے ہے یعنی صدقات کی یہ جنس ( زکوٰۃ ) ان آٹھ قمسوں میں مقصور ہے جن کا ذکر آیت میں ہے ان کے علاوہ کسی اور مصرف پر زکوۃ کی رقم کا استعمال صحیح نہیں۔ اہل علم کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ان آٹھوں مصارف پر تقسیم کرنا ضروری ہے؟ امام شافعی کی رائے کی رو سے زکٰوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ یا ان میں سے جس مصرف یا مصارف پر امام یا زکوۃ ادا کرنے والا مناسب سمجھے حسب ضرورت خرچ کرسکتا ہے امام شافعی وغیرہ پہلی رائے کے قائل ہیں اور امام مالک اور امام ابو حنیفہ وغیرہما دوسری رائے کے۔ اور یہ دوسری رائے ہی زیادہ صحیح ہے امام شافعی کی رائے کی رو سے زکوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے یعنی اقتضائے ضرورت اور مصالح دیکھے بغیر رقم کے آٹھ حصے کر کے آٹھوں جگہ پر کچھ کچھ رقم خرچ کی جائے۔ جبکہ دوسری رائے کے مطابق ضرورت اور مصالح کا اعتبار ضروری ہے جس مصرف پر رقم خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت یا مصالح کسی ایک مصرف پر خرچ کرنے کے متقتضی ہوں، تو وہاں ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے زکوۃ کی رقم خرچ کی جائے گی چاہے دوسرے مصارف پر خرچ کرنے کے لیے رقم نہ بچے اس رائے میں جو معقولیت ہے وہ پہلی رائے میں نہیں ہے۔
( 2 ) ان مصارف ثمانیہ کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔
( ا،2 ) فقیر اور مسکین چونکہ قریب قریب ہیں اور ایک کا اطلاق دوسر پر بھی ہوتا ہے یعنی فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر کہہ لیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کی الگ الگ تعریف میں خاصا اختلاف ہے۔ تاہم دونوں کے مفہوم میں یہ بات تو قطعی ہے کہ جو حاجت مند ہوں اور اپنی حاجات وضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں ان کو فقیر اور مسکین کہا جاتا ہے مسکین کی تعریف میں ایک حدیث آتی ہے نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا ” مسکین وہ گھو منے پھر نے والا نہیں ہے جو ایک ایک یادو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے “۔( صحیح بخاری ومسلم کتاب الزکوٰۃ ) حدیث میں گویا اصل مسکین شخص مذکور کو قرار دیا گیا ہے ورنہ حضرت ابن عباس ( رضي الله عنه ) وغیرہ سے مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جو گداگر ہو، گھوم پھر کر اور لوگوں کے پیچھے پڑ کر مانگتا ہو اور فقیر وہ ہے جو نادار ہونے کے باوجود سوال سے بچے اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرے۔ ( ابن کثیر )
3۔ عاملین سے مراد حکومت کے وہ اہلکار جو زکٰو ۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب کتاب پر معمور ہوں۔
4۔ مولفۃ القلوب ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائے گا۔ دوسرے، وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی ہیں جن کی امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے اور اس طرح وہ قریب کے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں۔ یہ اور اس قسم کی دیگر صورتیں تالیف قلب کی ہیں جن پر زکوۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے چاہے مذکورہ افراد مال دار ہی ہوں۔ احناف کے نزدیک یہ مصرف ختم ہوگیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں حالات وظروف کے مطابق ہر دور میں اس مصرف پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔
5۔ گردنیں آزاد کرانے میں۔ بعض علماء نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لئے ہیں اور علماء نے مکاتب وغیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
6۔ غارمین سے ایک تو وہ مقروض مراد ہیں جو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہوگئے اور ان کے پاس نقد رقم بھی نہیں ہے اور ایسا سامان بھی نہیں ہے جسے بیچ کر وہ قرض ادا کریں سکیں۔ دوسرے وہ ذمہ داراصحاب ضمانت ہیں جنہوں نے کسی کی ضمانت دی اور پھر وہ اس کی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پاگئے یا کسی فصل تباہ یا کاروبار خسارے کا شکار ہوگیا اور اس بنیاد پر وہ مقروض ہو گیا۔ ان سب افراد کی زکوۃ کی مد سے امداد کرنا جائز ہے۔
7۔ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد ( چا ہے وہ مالدار ہی ہو ) پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے اسی طرح بعض علماء کے نزدیک تبلیغ ودعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصد جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔
8۔ ابن السبیل سے مراد مسافرہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر، سفر میں مستحق امداد ہوگیا ہے چاہے وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحب حیثیت ہی ہو، اس کی امداد زکٰو ۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
زکوۃ اور صدقات کا مصرف نبی ﷺ نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے ؟ اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول ﷺ پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کردی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی ؓ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کردی ہے آٹھ مصرف مقرر کردیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں۔ امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے۔ گو امام ابوحنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو۔ ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کا لفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا۔ قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں۔ فقراء۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں۔ کچھ شخصوں نے حضور ﷺ سے صدقے کا مال مانگا آپ نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا گر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ مساکین، حضور ﷺ فرماتے ہیں مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے۔ صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی۔ آنحضرت ﷺ کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آسکتے۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جنکے دل بہلائے جاتے ہیں۔ ان کی کئی قسمیں ہیں بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں جیسے کہ حضور ﷺ نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کردی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا۔ بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہوجائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے۔ جیسے کہ حضور ﷺ نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گرپڑے۔ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا۔ اقرع بن حابس، عینیہ بن بدر، عقلمہ بن علاچہ اور زید خیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں۔ بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام و فروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر واللہ اعلم۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کرلی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہوجائیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہوجاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔ اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی وہ تم نے کیا ہوگا۔ حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو کسی نے حضور ﷺ سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے۔ اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے۔ قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا اپنا ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہوجائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کرلے پس انہیں بھی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کردیں۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہیں دیں گے پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہوجائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہوجائے۔ تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گذرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہوجائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گذرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہوجائے اور سامان زندگی مہیا ہوجائے۔ اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے ( مسلم شریف ) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الہٰی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہوگیا حضور ﷺ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں۔ ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں کہ ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کردی ؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہوگئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آگئی اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا ( مسند احمد )۔ راہ الہٰی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا۔ حج بھی راہ الٰہی میں داخل ہے۔ مسافر جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لئے کافی ہو۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے تیسرا قرض دار چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے۔ زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا۔ اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 60 اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا صدقات سے مراد یہاں زکوٰۃ ہے۔ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَامیں محکمہ زکوٰۃ کے چھوٹے بڑے تمام ملازمین شامل ہیں جو زکوٰۃ اکٹھی کرنے ‘ اس کا حساب رکھنے اور اسے مستحقین میں تقسیم کرنے یا اس محکمہ میں کسی بھی حیثیت میں مامور ہیں ‘ ان سب ملازمین کی تنخواہیں اسی زکوٰۃ میں سے دی جائیں گی۔وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ جب دین کی تحریک اور دعوت چل رہی ہو تو معاشرے کے بعض صاحب حیثیت افراد کی تالیف قلوب کے لیے زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے تاکہ ایسے لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی مخالفت کا زور کم کیا جاسکے۔ فقہاء کے نزدیک دین کے غالب ہوجانے کے بعد یہ مد ختم ہوگئی ہے ‘ لیکن اگر پھر کبھی اس قسم کی صورتحال درپیش ہو تو یہ مد پھر سے بحال ہوجائے گی۔وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ ایسا مقروض جو قرض کے بوجھ سے نکلنے کی مقدرت نہ رکھتا ہو یا ایسا شخص جس پر کوئی تاوان پڑگیا ہو ‘ ایسے لوگوں کی گلو خلاصی کے لیے زکوٰۃ کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے۔وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد میں اور دعوت و اقامت دین کی جدوجہد میں بھی یہ رقم خرچ ہوسکتی ہے۔ لیکن زکوٰۃ اور صدقات کے سلسلے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ پہلی ترجیح کے طور پر اولین مستحقین وہ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین اور بیوائیں ہیں جو واقعی محتاج ہوں۔ البتہ اگر زکوٰۃ کی کچھ رقم ایسے لوگوں کی مدد کے بعد بچ جائے تو وہ دین کے دوسرے کاموں میں صرف کی جاسکتی ہے۔وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ط کے الفاظ احکام وراثت کے سلسلے میں سورة النساء کی آیت 11 میں بھی آئے ہیں۔
إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم
سورة: التوبة - آية: ( 60 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 196 )Surah Taubah Ayat 60 meaning in urdu
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور
- اور اپنے پروردگار کے ارشاد کی تعمیل کرے گی اور اس کو لازم بھی یہی
- جس کے پاس مقرب (فرشتے) حاضر رہتے ہیں
- ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے
- دونوں کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار ہمیں خوف ہے کہ ہم پر تعدی کرنے لگے
- لوگو خدا کا وعدہ سچا ہے۔ تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ
- جو لوگ ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور فرمانبردار ہوگئے
- پھر اس وقت دشمن کی فوج میں جا گھستے ہیں
- کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی تاکہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers