Surah baqarah Ayat 61 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ﴾
[ البقرة: 61]
اور جب تم نے کہا کہ موسیٰ! ہم سے ایک (ہی) کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا تو اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (وغیرہ) جو نباتات زمین سے اُگتی ہیں، ہمارے لیے پیدا کر دے۔ انہوں نے کہا کہ بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہوں۔ (اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں) تو کسی شہر میں جا اترو، وہاں جو مانگتے ہو، مل جائے گا۔ اور (آخرکار) ذلت (ورسوائی) اور محتاجی (وبے نوائی) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ الله کے غضب میں گرفتار ہو گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ الله کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور (اس کے) نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔ (یعنی) یہ اس لیے کہ نافرمانی کئے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ قصہ بھی اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں ملک مصر نہیں، بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو، اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ۔ ان کا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت اور استکبار پر مبنی تھا، اس لئے زجروتوبیخ کے انداز میں ان سے کہا گیا ” تمہارے لئے وہاں مطلوبہ چیزیں ہیں۔ “
( 2 ) کہاں وہ انعامات واحسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت ومسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی؟ اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے، جس کی تاویل ارادۂ عقوبت یا نفس عقوبت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ كَمَا هُوَ شَأْنُهُ۔ ( اپنی شان کے لائق )
( 3 ) یہ ذلت وغضب الٰہی کی وجہ بیان کی جارہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیا ( عليهم السلام ) اور داعیان حق کا قتل اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہود اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل ورسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہوسکتے ہیں: ” أَيْنَ مَا كَانُوا وَحَيْثُ مَا كَانُوا “ ” وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔ “
( 4 ) یہ ذلت ومسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْا( نافرمانی کی ) کا مطلب ہے جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا، ان کا ارتکاب کیا اور ( يَعْتَدُونَ ) کا مطلب ہے مامور بہ کاموں میں حد سے تجاوز کرتے تھے۔ اطاعت و فرمانبرداری یہ ہے کہ مَنْهِيَّات سے باز رہا جائے اور مَأْمُورَات کو اس طرح بجا لایا جائے جس طرح ان کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی ( اعْتِدَاء ) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
احسان فراموش یہود یہاں بنی اسرائیل کی بےصبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من وسلوی جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہوسکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من وسلویٰ ہے۔ قوم کے معنی میں اختلاف ہے ابن مسعود کی قرأت میں ثوم ہے، مجاہد نے فوم کی تفسیر ثوم کے ساتھ کی ہے۔ یعنی لہسن، حضرت ابن عباس سے بھی یہ تفسیر مروی ہے اگلی لغت کی کتابوں میں فوموالنا کے معنی اختبروا یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے عاثور شرعا فور شراثافی اثاثی مفافیر مغاثیر وغیرہ جن میںسے ت اور ث بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں واللہ اعلم۔ اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں حضرت ابن عباس سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیجہ کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں حضرت قتادہ اور حضرت عطا فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو ؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت " مصرا " ہی ہے اور تمام قرأتوں میں یہی لکھا ہوا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ۔ ابی بن کعب اور ابن مسعود سے مصر کی قراءت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا قواریرا قواریرا میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پالو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لئے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا واللہ اعلم۔پاداش عمل مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنادی گئی۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کردی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا " آباؤ " کے معنی لوٹنے اور " رجوع کیا " کے ہیں باء کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیا اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہوگا ؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں کو بلاوجہ قتل کرتے رسول اللہ ﷺ میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لئے اللہ کا غضب ان پر لازم ہوگیا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نبی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہوجاتا ( ابو داؤد طیالسی ) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہوگا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہوگا۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 61 وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ “ من وسلویٰ کھا کھا کر اب ہم اکتا گئے ہیں۔ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ “ یعنی زمین کی پیداوار میں سے ‘ نباتات ارضی میں سے ہمیں رزق دیا جائے۔مِنْم بَقْلِہَا وَقِثَّآءِھَا“ یہ لفظ کھیرے اور ککڑی وغیرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔وَفُوْمِہَا فُوم کا ایک ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح ترجمہ لہسن ہے۔ عربی میں اس کے لیے بالعموم لفظ ” ثُوم “ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہسن کو فارسی میں توم اور پنجابی ‘ سرائیکی اور سندھی میں ” تھوم “ کہتے ہیں اور یہ فوم اور ثوم ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے ‘ اس لیے کہ عربوں کی آمد کے باعث ان کی زبان کے بہت سے الفاظ سندھی اور سرائیکی زبان میں شامل ہوگئے ‘ جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کافی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا ط“ اب جو سالن کے چٹخارے ان چیزوں سے بنتے ہیں ان کی زبانیں وہ چٹخارے مانگ رہی تھیں۔ بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ایک ہی طرح کی غذا ” مَنّ وسلویٰ “ کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے ‘ لہٰذا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمیں زمین سے اگنے والی چٹخارے دار چیزیں چاہئیں۔قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ ط ” “ مَن وسلویٰ نباتات ارضی سے کہیں بہتر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں دیا گیا ہے۔ تو اس سے تمہارا جی بھر گیا ہے اور اس کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہو کہ یہ ادنیٰ چیزیں تمہیں ملیں ؟اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ط ” “ لفظ ” اِہْبِطُوْا “ پر آیت 38 کے ذیل میں بات ہوچکی ہے کہ اس کا معنی بلندی سے اترنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے یہاں یہ لفظ آسمان سے زمین پر اترنے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بستی میں جا کر آباد ہوجاؤ ! settle down somewhere اگر تمہیں زمین کی پیداوار میں سے یہ چیزیں چاہئیں تو کہیں آباد settle ہوجاؤ اور کاشت کاری کرو ‘ یہ ساری چیزیں تمہیں مل جائیں گی۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق“ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط“ وہ اللہ کے غضب میں گھرگئے۔بنی اسرائیل وہ امت تھی جس کے بارے میں فرمایا گیا : وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ البقرۃ اسی امت کا پھر یہ حشر ہوا تو کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ! انہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کی پیروی کریں اور اسے قائم کریں۔ سورة المائدۃ میں فرمایا گیا :وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط آیت 66” اگر یہ اہل کتاب تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے اتاری گئیں تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے۔ “یعنی ان کے سروں کے اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی اور زمین بھی ان کے لیے نعمتیں اگلتی۔ لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ کر اپنی خواہشات ‘ اپنے نظریات ‘ اپنے خیالات ‘ اپنی عقل اور اپنی مصلحتوں کو مقدمّ کیا ‘ اور اپنے تمرد ‘ اپنی سرکشی اور اپنی حاکمیت کو بالاتر کیا۔ جو قوم دنیا میں اللہ کے قانون ‘ اللہ کی ہدایت اور اللہ کی کتاب کی امین ہوتی ہے وہ اللہ کی نمائندہ representative ہوتی ہے ‘ اور اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی misrepresent کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کافروں سے بڑھ کر مغضوب اور مبغوض ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ کافروں کو دین پہنچانا تو اس مسلمان امت کے ذمہّ تھا۔ اگر یہ خود ہی دین سے منحرف ہوگئے تو کسی اور کو کیا دین پہنچائیں گے ؟ آج اس مقام پر موجودہ امت مسلمہ کھڑی ہے کہ تعداد میں سوا ارب یا ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ان کے حصے میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دنیا کے سارے معاملات G- 7 اور G- 15 ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے ‘ لیکن کوئی مسلمان ملک نہ تو سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ ہی G- 7 ‘ G- 9 یا G- 15 میں شامل ہے۔ گویا ع ” کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی ! “ ہماری اپنی پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں ‘ ہمارے اپنے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں ‘ ہماری صلح اور جنگ کسی اور کے اشارے سے ریموٹ کنٹرول انداز میں ہوتی ہیں۔ یہ ذلت اور مسکنت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘ لیکن اس کے لیے جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے ؟ یہ مسکنت نہیں ہے تو کیا ہے ؟ اگر اللہ پر یقین ہے اور اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو اپنی شہ رگ دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمت کرو۔ لیکن نہیں ‘ ہم میں یہ ہمت موجود نہیں ہے۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آتی رہیں گی کہ قابض بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اتنے کشمیریوں کو شہید کردیا ‘ اتنی مسلمان عورتوں کی بےحرمتی کردی ‘ لیکن ہم یہاں اپنے اپنے دھندوں میں ‘ اپنے اپنے کاروبار میں ‘ اپنی اپنی ملازمتوں میں اور اپنے اپنے کیریئرز میں مگن ہیں۔ بہرحال متذکرہ بالا الفاظ اگرچہ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں کہ ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی مسلطّ کردی گئی ‘ لیکن اس میں آج کی امت مسلمہ کا نقشہ بھی موجود ہے ّ َ خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں !ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط“ ّ ہمارے ہاں بھی مجددین امت کو ‘ قتل بھی کیا گیا اور ان میں سے کتنے ہیں جو جیلوں میں ڈالے گئے۔ متعدد صحابہ کرام رض اور سینکڑوں تابعین مستبد حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ائمۂ دین کو ایسی ایسی مار پڑی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو بھی ایسی مار پڑے تو وہ برداشت نہ کرسکے۔ امام احمد بن حنبل رح کے ساتھ کیا کچھ ہوا ! امام ابوحنیفہ رح نے جیل میں انتقال کیا اور وہاں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ امام دار الہجرت امام مالک رح کے کندھے کھینچ دیے گئے اور منہ کالا کر کے انہیں اونٹ پر بٹھا کر پھرایا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رح ‘ کو پس دیوار زنداں ڈالا گیا۔ سید احمد بریلوی رح اور ان کے ساتھیوں کو خود مسلمانوں نے شہید کروا دیا۔ ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا۔ ان کے ہاں نبی تھے ‘ ہمارے ہاں مجددین ہیں ‘ علماء حق ہیں۔ انہوں نے جو کچھ انبیاء علیہ السلام کے ساتھ کیا وہی ہم نے مجددین کے ساتھ کیا۔ ّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ” “ ان کو یہ سزا ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے نعوذ باللہ ‘ اللہ تعالیٰ نے تو انہیں اونچا مقام دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ” خیر امت “ قراردیا۔ ہم نے بھی جب اپنا مشن چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت ہمارا مقدر بن گئی۔ اللہ کا قانون اور اللہ کا عدل بےلاگ ہے۔ یہ سب کے لیے ایک ہے ‘ ہر امت کے لیے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بدلتی نہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کے سبب ان کا جو حشر ہوا آج وہ ہمارا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب ” سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل “ کے نام سے موجود ہے ‘ اس کا مطالعہ کیجیے !
وإذ قلتم ياموسى لن نصبر على طعام واحد فادع لنا ربك يخرج لنا مما تنبت الأرض من بقلها وقثائها وفومها وعدسها وبصلها قال أتستبدلون الذي هو أدنى بالذي هو خير اهبطوا مصرا فإن لكم ما سألتم وضربت عليهم الذلة والمسكنة وباءوا بغضب من الله ذلك بأنهم كانوا يكفرون بآيات الله ويقتلون النبيين بغير الحق ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون
سورة: البقرة - آية: ( 61 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 9 )Surah baqarah Ayat 61 meaning in urdu
یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ، "اے موسیٰؑ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے" تو موسیٰؑ نے کہا: "کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا" آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- پھر لوگوں میں سے کسی نے تو اس کتاب کو مانا اور کوئی اس سے
- مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے
- بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا
- اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیئے پرہیزگاروں پر
- اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی
- اور طور سینین کی
- اور فرشتے اس کے کناروں پر (اُتر آئیں گے) اور تمہارے پروردگار کے عرش کو
- کہ وہ (آگ) ایک بہت بڑی (آفت) ہے
- تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے
- اے (محمدﷺ) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers