Surah hashr Ayat 7 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ حشر کی آیت نمبر 7 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah hashr ayat 7 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
[ الحشر: 7]

Ayat With Urdu Translation

جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ خدا کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجتمندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے۔ تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے۔ سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے

Surah hashr Urdu

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


مال فے کی تعریف وضاحت اور حکم رسول ﷺ کی تعمیل ہی اصل ایمان ہے۔ فے کس مال کو کہتے ہیں ؟ اس کی صفت کیا ہے ؟ اس کا حکم کیا ہے ؟ یہ سب یہاں بیان ہو رہا ہے۔ فے اس مال کو کہتے ہیں جو دشمن سے لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضے میں آجائے، جیسے بنو نضیر کا یہ مال تھا جس کا ذکر اوپر گذر چکا کہ مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ اس پر نہیں دوڑائے تھے یعنی ان کفار سے آمنے سامنے کوئی مقابلہ اور لڑائی نہیں ہوئی بلکہ انکے دل اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی ہیبت سے بھر دیئے اور وہ اپنے قلعہ خالی کر کے قبضہ میں آگئے، اسے " فے " کہتے ہیں اور یہ مال حضور ﷺ کا ہوگیا، آپ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں، پس آپ نے نیکی اور اصلاح کے کاموں میں اسے خرچ کیا جس کا بیان اس کے بعد والی اور دوسری روایت میں ہے۔ پس فرماتا ہے کہ بنو نضیر کا جو مال بطور فے کے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دلوایا جس پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے یا اونٹ دوڑائے نہ تھے بلکہ صرف اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول ﷺ کو اس پر غلبہ دے دیا تھا اور اللہ پر یہ کیا مشکل ہے ؟ وہ تو ہر اک چیز پر قدرت رکھتا ہے نہ اس پر کسی کا غلبہ نہ اسے کوئی روکنے والا بلکہ سب پر غالب وہی، سب اس کے تابع فرمان۔ پھر فرمایا کہ جو شہر اس طرح فتح کئے جائیں ان کے مال کا یہی حکم ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے اپنے قبضہ میں کریں گے پھر انہیں دیں گے جن کا بیان اس آیت میں ہے اور اس کے بعد والی آیت میں ہے، یہ ہے فے کے مال کا مصرف اور اس کے خرچ کا حکم۔ چناچہ حدیث شریف میں ہے کہ بنو نضیر کے مال بطور فے کے خاص رسول اللہ ﷺ کے ہوگئے تھے آپ اس میں سے اپنے گھر والوں کو سال بھر تک کا خرچ دیتے تھے اور جو بچ رہتا اسے آلات جنگ اور سامان حرب میں خرچ کرتے ( سنن و مسند وغیرہ ) ابو داؤد میں حضرت مالک بن اوس سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے مجھے دن چڑھے بلایا میں گھر گیا تو دیکھا کہ آپ ایک چوکی پر جس پر کوئی کپڑا وغیرہ نہ تھا بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری قوم کے چند لوگ آئے ہیں میں نے انہیں کچھ دیا ہے تم اسے لے کر ان میں تقسیم کردو میں نے کہا اچھا ہوتا اگر جناب کسی اور کو یہ کام سونپتے آپ نے فرمایا نہیں تم ہی کرو میں نے کہا بہت بہتر، اتنے میں آپ کا داروغہ یرفا آیا اور کہا اے امیر المومنین میرا اور ان کا فیصلہ کیجئے یعنی حضرت علی کا، تو پہلے جو چاروں بزرگ آئے تھے ان میں سے بھی بعض نے کہا ہاں امیر المومنین ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور انہیں راحت پہنچایئے، حضرت مالک فرماتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ان چاروں بزرگوں کو ان دونوں حضرات نے ہی اپنے سے پہلے یہاں بھیجا ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا ٹھہرو، پھر ان چاروں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا تمہیں اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ان چاروں نے اس کا اقرار کیا، پھر آپ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی طرح قسم دے کر ان سے بھی یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی اقرار کیا، پھر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے لئے ایک خاصہ کیا تھا جو اور کسی کے لئے نہ تھا پھر آپ نے یہی آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) 59۔ الحشر:6) ، پڑھی اور فرمایا بنو نضیر کے مال اللہ تعالیٰ نے بطور فے کے اپنے رسول ﷺ کو دیئے تھے اللہ کی قسم نہ تو میں نے تم پر اس میں کسی کو ترجیح دی اور نہ ہی خود ہی اس میں سے کچھ لے لیا، رسول اللہ ﷺ اپنا اور اپنی اہل کا سال بھر کا خرچ اس میں سے لے لیتے تھے اور باقی مثل بیت المال کے کردیتے تھے پھر ان چاروں بزرگوں کو اسی طرح قسم دے کر پوچھا کہ کیا تمہیں یہ معلوم ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں، پھر ان دونوں سے قسم دے کر پوچھا اور انہوں نے ہاں کہی۔ پھر فرمایا حضور ﷺ کے فوت ہونے کے بعد ابوبکر والی بنے اور تم دونوں خلیفہ رسول ﷺ کے پاس آئے، اے عباس تم تو اپنی قرابت داری جتا کر اپنے چچا زاد بھائی کے مال میں سے اپنا ورثہ طلب کرتے تھے اور یہی یعنی حضرت علی اپنا حق جتا کر اپنی بیوی یعنی حضرت فاطمہ کی طرف سے ان کے والد کے مال سے ورثہ طلب کرتے تھے جس کے جواب میں تم دونوں سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے، ہمارا ورثہ بانٹا نہیں جاتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر یقیناً راست گو، نیک کار، رشد و ہدایت والے اور تابع حق تھے، چناچہ اس مال کی ولایت حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کی، آپ کے فوت ہوجانے کے بعد آپ کا اور رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ میں بنا اور وہ مال میری ولایت میں رہا، پھر آپ دونوں ایک صلاح سے میرے پاس آئے اور مجھ سے اسے مانگا، جس کے جواب میں میں نے کہا کہ اگر تم اس شرط سے اس مال کو اپنے قبضہ میں کرو کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ اسے خرچ کرتے تھے تم بھی کرتے رہو گے تو میں تمہیں سونپ دیتا ہوں، تم نے اس بات کو قبول کیا اور اللہ کو بیچ میں دے کر تم نے اس مال کی ولایت لی، پھر تم جو اب آئے ہو تو کیا اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہو ؟ قسم اللہ کی قیامت تک اس کے سوا اس کا کوئی فیصلہ میں نہیں کرسکتا، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر تم اپنے وعدے کے مطابق اس مال کی نگرانی اور اس کا صرف نہیں کرسکتے تو تم اسے پھر لوٹا دو تاکہ میں آپ اسے اسی طرح خرچ کروں جس طرح رسول اللہ ﷺ کرتے تھے اور جس طرح خلافت صدیقی میں اور آج تک ہوتا رہا۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ نبی ﷺ کو اپنے کھجوروں کے درخت وغیرہ دے دیا کرتے تھے یہاں تک کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال آپ کے قبضہ میں آئے تو اب آپ نے ان لوگوں کو ان کو دیئے ہوئے مال واپس دینے شروع کئے، حضرت انس کو بھی ان کے گھر والوں نے آپ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارا دیا ہوا بھی سب یا جتنا چاہیں ہمیں واپس کردیں میں نے جا کر حضور ﷺ کو یاد دلایا آپ نے وہ سب واپس کرنے کو فرمایا، لیکن یہ سب حضرت ام ایمن کو اپنی طرف سے دے چکے تھے انہیں جب معلوم ہوا کہ یہ سب میرے قبضے سے نکل جائے گا تو انہوں نے آ کر میری گردن میں کپڑا ڈال دیا اور مجھ سے فرمانے لگیں اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت ﷺ تجھے یہ نہیں دیں گے آپ تو مجھے وہ سب کچھ دے چکے حضور ﷺ نے فرمایا ام ایمن تم نہ گھبراؤ ہم تمہیں اس کے بدلے اتنا اتنا دیں گے لیکن وہ نہ مانیں اور یہی کہے چلی گئیں، آپ نے فرمایا اچھا اور اتنا اتنا ہم تمہیں دیں گے لیکن وہ اب بھی خوش نہ ہوئیں اور وہی فرماتی رہیں، آپ نے فرمایا لو ہم تمہیں اتنا اتنا اور دیں گے یہاں تک کہ جتنا انہیں دے رکھا تھا اس سے جب تقریباً دس گنا زیادہ دینے کا وعدہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تب آپ راضی ہو کر خاموش ہوگئیں اور ہمارا مال ہمیں مل گیا، یہ فے کا مال جن پانچ جگہوں میں صرف ہوگا یہی جگہیں غنیمت کے مال کے صرف کرنے کی بھی ہیں اور سورة انفال میں ان کی پوری تشریح و توضیح کے ساتھ کامل تفسیر الحمد اللہ گذر چکی ہے اس لئے ہم یہاں بیان نہیں کرتے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال فے کے یہ مصارف ہم نے اس لئے وضاحت کے ساتھ بیان کردیئے کہ یہ مالداروں کے ہاتھ لگ کر کہیں ان کا لقمہ بن بن جائے اور اپنی من مانی خواہشوں کے مطابق وہ اسے اڑائیں اور مسکینوں کے ہاتھ نہ لگے۔ پھر فرماتا ہے کہ جس کام کے کرنے کو میرے پیغمبر ﷺ تم سے کہیں تم اسے کرو اور جس کام سے وہ تمہیں روکیں تم اس سے رک جاؤ۔ یقین مانو کہ جس کا وہ حکم کرتے ہیں وہ بھلائی کا کام ہوتا ہے اور جس سے وہ روکتے ہیں وہ برائی کا کام ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئی اور کہا آپ گودنے سے ( یعنی چمڑے پر یا ہاتھوں پر عورتیں سوئی وغیرہ سے گدوا کر جو تلوں کی طرح نشان وغیرہ بنا لیتی ہیں ) اس سے اور بالوں میں بال ملا لینے سے ( جو عورتیں اپنے بالوں کو لمبا ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں ) منع فرماتے ہیں تو کیا یہ ممانعت کتاب اللہ میں ہے یا حدیث رسول ﷺ میں ؟ آپ نے فرمایا کتاب اللہ میں بھی اور حدیث رسول اللہ ﷺ میں بھی دونوں میں اس ممانعت کو پاتا ہوں اس عورت نے کہا اللہ کی قسم دونوں لوحوں کے درمیان جس قدر قرآن شریف ہے میں نے سب پڑھا ہے اور خوب دیکھ بھال کی ہے لیکن میں نے تو کہیں اس ممانعت کو نہیں پایا آپ نے فرمایا کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۘ ) 59۔ الحشر:7) نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے۔ فرمایا ( قرآن سے ثابت ہوا کہ حکم رسول ﷺ اور ممانعت رسول ﷺ قابل عمل ہیں اب سنو ) خود میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے گودنے سے اور بالوں میں بال ملانے سے اور پیشانی اور چہرے کے بال نوچنے سے منع فرمایا ہے ( یہ بھی عورتیں اپنی خوبصورتی ظاہر کرنے کے لئے کرتی ہیں اور اس زمانے میں تو مرد بھی بکثرت کرتے ہیں ) اس عورت نے کہا حضرت یہ تو آپ کی گھر والیاں بھی کرتی ہیں آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو، وہ گئیں اور دیکھ کر آئیں اور کہنے لگیں حضرت معاف کیجئے غلطی ہوئی ان باتوں میں سے کوئی بات آپ کے گھرانے والیوں میں میں نے نہیں دیکھی، آپ نے فرمایا کیا تم بھول گئیں کہ اللہ کے نیک بندے ( حضرت شعیب ؑ نے کیا فرمایا تھا (وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ 88؀ ) 11۔ ھود :88) یعنی میں یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں جس چیز سے روکوں خود میں اس کا خلاف کروں، مسند احمد اور بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے اس عورت پر جو گدوائے اور جو گودے اور جو اپنی پیشانی کے بال لے اور جو خوبصورتی کے لئے اپنے سامنے کے دانتوں کی کشادگی کرے اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی پیدائش کو بدلنا چاہے، یہ سن کر بنواسد کی ایک عورت جن کا نام ام یعقوب تھا آپ کے پاس آئیں اور پوچھا کہ کیا آپ نے اس طرح فرمایا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے ؟ اور جو قرآن میں موجود ہے، اس نے کہا میں نے پورا قرآن جتنا بھی دونوں پٹھوں کے درمیان ہے اول سے آخر تک پڑھا ہے لیکن میں نے تو یہ حکم کہیں نہیں پایا، آپ نے فرمایا اگر تم سوچ سمجھ کر پڑھتیں تو ضرور پاتیں کیا تم نے آیت ( وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۘ ) 59۔ الحشر:7) نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھی ہے پھر آپ نے وہ حدیث سنائی، اس نے آپ کے گھر والوں کی نسبت کہا پھر دیکھ کر آئیں اور عذر خواہی کی اس وقت آپ نے فرمایا اگر میری گھر والی ایسا کرتی تو میں اس سے ملنا چھوڑ دیتا، بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو جہاں تک تم سے ہو سکے اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، نسائی میں حضرت عمر ؓ عنہی اور حضرت ابن عباس ؓ ما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کدو کے برتن میں، سبز ٹھلیا میں، کھجور کی لکڑی کے کریدے ہوئے برتن میں اور رال کی رنگی ہوئی ٹھلیا میں نبیذ بنانے سے یعنی کھجوریا کشمش وغیرہ کے بھگو کر رکھنے سے منع فرمایا ہے پھر اسی آیت کی تلاوت کی ( یاد رہے کہ یہ حکم اب باقی نہیں ہے۔ مترجم ) پھر فرماتا ہے اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کے احکام کی ممنوعات سے بچتے رہو، یاد رکھو کہ اس کی نافرمانی مخالفت انکار کرنے والوں کو اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں کے کرنے والوں کو وہ سخت سزا اور درد ناک عذاب دیتا ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 7{ مَآ اَفَــآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی } ” جو مال بھی ہاتھ لگا دے اللہ اپنے رسول ﷺ کے بستیوں والوں سے “ { فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا } ” تو وہ ہے اللہ کے لیے ‘ رسول ﷺ کے لیے ‘ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے “ واضح رہے کہ اللہ اور رسول ﷺ سے مراد یہاں اسلامی ریاست ہے۔ پھر چونکہ رسول اللہ ﷺ کا اپنا ذاتی ذریعہ معاش تو کوئی تھا نہیں ‘ اس لیے یہ مال آپ ﷺ کے ذاتی اخراجات مثلاً ازواجِ مطہرات - کے نان نفقہ اور دوسری معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بھی تھا۔ اس کے علاوہ اس میں حضور ﷺ کے قرابت داروں کی مد بھی رکھی گئی تاکہ آپ ﷺ اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کے تقاضے پورے کرسکیں۔ اسی طرح اس مال میں ان تمام اقسام کے ناداروں اور محتاجوں کا بھی حق رکھا گیا جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے۔ { کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَـآئِ مِنْکُمْج } ” تاکہ وہ تم میں سے مال داروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہے۔ “ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ معاشرے میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو اور اس کی گردش کے ثمرات معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچیں۔ یہ اسلامی معیشت کا بہت اہم اور بنیادی اصول ہے۔ اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ نے مال فے زیادہ تر ناداروں اور محتاجوں کی محرومیوں کے ازالے کے لیے مختص فرما دیا۔ مالِ فے بھی اگر مال غنیمت کی طرح تقسیم کیا جاتا تو یہاں بھی سواروں کو دوہرا حصہ ملتا اور ظاہر ہے جس شخص کے پاس گھوڑا یا اونٹ ہے وہ تو پہلے ہی سے کچھ خوشحال ہے۔ تو اس تقسیم سے مال فے کا بھی زیادہ تر حصہ خوشحال لوگوں کو ہی ملتا۔ واضح رہے کہ اسلام کے نظام عدل و قسط میں تمام انسانوں کو معاشی طور پر برابر کردینے کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ایسا ہونا عملی طور پر ممکن بھی نہیں۔ ظاہر ہے ایک سپاہی اور سپہ سالار کسی طرح بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم اپنے تمام تردعو وں اور انقلابی نعروں کے باوجود ایسی ” معاشی مساوات “ کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی دنیا کو نہیں دکھا سکا۔ اس کے برعکس اسلام کا نظام معیشت معاشرے سے معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے اور امیر و غریب کے درمیان فرق و تفاوت کو کم سے کم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اس کے لیے اسلام ہر وہ دروازہ بند کردینے کا حکم دیتا ہے جس کی وجہ سے چند ہاتھوں میں ارتکازِ دولت کا خدشہ ہو اور ہر وہ راستہ کھولنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس سے گردش دولت کا رُخ امراء سے غرباء کی طرف پھرنے اور معاشی محرومیوں کے ازالے کا امکان ہو۔ آج معاشی پیچیدگیوں کی وجہ سے جدید معاشرے میں جو گھمبیر صورتحال جنم لے رہی ہے اس کا ادراک سب سے پہلے جس عالم دین کو ہوا وہ شاہ ولی اللہ دہلوی - تھے۔ شاہ ولی اللہ رح ایسی صورت حال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جس ملک یا معاشرے میں تقسیم دولت کا نظام غیر منصفانہ ہوگا وہاں کچھ لوگ دولت کے انبار جمع کرکے مسرفانہ عیاشیوں اور بدمعاشیوں میں مبتلا ہوجائیں گے ‘ جبکہ محروم طبقے کے لوگ باربرداری کے جانور بن کر رہ جائیں گے۔ ایسی ہی صورت حال کے بارے میں حضور ﷺ کا فرمان ہے : کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا 1 کہ محرومی اور احتیاج انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ گویا تقسیم دولت کا غیر منصفانہ نظام ایسی دودھاری تلوار ہے جس کی دو طرفہ کاٹ سے مذکورہ دونوں طبقوں کے افراد مذہبی و انسانی اقدار سے بیگانہ و بےنیاز ہو کر عملی طور پر معاشرے کے لیے ناسور بن جاتے ہیں۔ اُمراء کو تو اپنے اللوں تللوں سے ہی فرصت نہیں ملتی جبکہ غریب و نادار عوام دنیا ومافیہا سے بیخبر صبح سے شام تک کمرتوڑ مشقت میں مصروف رہتے ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آگے بڑھتا ہے اور محروم طبقے کے افراد کے دلوں میں ظالم استحصالی طبقے کے خلاف بغض و عداوت کی آگ سلگانا شروع کردیتا ہے : { اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِـعَ بَـیْـنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ } المائدۃ : 91 ” شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے “۔ تصور کریں اگر ایک سیٹھ صاحب کی بیٹی کی شادی کے موقع پر کروڑوں روپے کا اسراف صرف بےجا نمود و نمائش کی مد میں ہو رہا ہوگا تو یہ سب کچھ دیکھ کر اس کے اس غریب ملازم کے دل میں نفرت و عداوت کے کیسے کیسے جذبات پیدا ہوں گے جس کی بیٹی گھر میں بیٹھی صرف اس لیے بوڑھی ہو رہی ہے کہ وہ اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ پھر ہمارے معاشرے میں جب ایک کروڑ پتی کی بیٹی لاکھوں کا جہیز لے کر دوسرے کروڑ پتی کی بہو بن جاتی ہے تو دولت مال داروں ہی کے مابین گردش میں رہتی ہے۔ { وَمَآ اٰتٰٹکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُج وَمَا نَہٰٹکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج } ” اور جو کچھ رسول ﷺ تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جائو۔ “ ان الفاظ میں گویا اہل ایمان کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ مال فے سے متعلق نئے قانون کے تحت رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں کو بخوشی قبول کریں۔ ظاہر ہے لشکر اسلام میں شامل لوگ تو بنونضیر کے علاقے سے حاصل ہونے والے مال و اسباب کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس میں سے حصے کی توقع کر رہے تھے۔ اب جب مذکورہ حکم کے تحت اس مال کو مال فے قرار دے کر اس کی تقسیم کا نیا قانون بنا دیا گیا تو لشکر کے شرکاء کو طبع بشری کے تحت ایک دھچکا تو ضرور لگا ہوگا۔ چناچہ اس حکم کے تحت بنونضیر کے محاصرے میں شامل اہل ایمان کو بالخصوص اور تمام اہل ایمان کو بالعموم دین کا بنیادی اصول بتادیا گیا کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول ﷺ کا ہر فیصلہ آخری حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ معاملہ چاہے کوئی بھی ہو ‘ اللہ کے رسول ﷺ تم لوگوں کو جو دے دیں وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے آپ ﷺ منع کردیں اس سے منع ہوجایا کرو۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ } ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ “ اب اگلی آیات میں مال فے کی تقسیم کے بارے میں مزید وضاحت کی جا رہی ہے کہ جب یہ مال مذکورہ قانون کے تحت بیت المال میں آجائے گا تو اس کی تقسیم میں بنیادی طور پر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے گی۔ ظاہر ہے اللہ کے رسول ﷺ تو اس میں سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے وہی کچھ قبول کریں گے جو آپ ﷺ کی انتہائی بنیادی ضروریات کے لیے ناگزیر ہوگا۔ آپ ﷺ نے تو اپنی ذات اور ازواجِ مطہرات - پر شروع دن سے ہی فقر طاری کر رکھا تھا۔ سورة الأحزاب کے چوتھے رکوع میں واقعہ ایلاء کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ ازواجِ مطہرات رض کی طرف سے نان نفقہ بڑھانے کے مطالبے پر حضور ﷺ نے ان رض سے علیحدگی اختیار فرما لی تھی۔ چناچہ مال فے کا بڑا حصہ کس کے لیے مختص کیا جائے گا :

ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل كي لا يكون دولة بين الأغنياء منكم وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا واتقوا الله إن الله شديد العقاب

سورة: الحشر - آية: ( 7 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 546 )

Surah hashr Ayat 7 meaning in urdu

جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. تو ہم خدا کے خالص بندے ہوتے
  2. اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے
  3. کہ تمہاری طرح کے اور لوگ تمہاری جگہ لے آئیں اور تم کو ایسے جہان
  4. ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے
  5. تاکہ اگر جادوگر غالب رہیں تو ہم ان کے پیرو ہوجائیں
  6. اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے
  7. اس روز بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور ان میں فیصلہ کردے گا تو جو
  8. اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ اُن (کی وجہ) سے ناخوش
  9. اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو خدا (کی شان) میں بغیر علم (ودانش)
  10. اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah hashr with the voice of the most famous Quran reciters :

surah hashr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter hashr Complete with high quality
surah hashr Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah hashr Bandar Balila
Bandar Balila
surah hashr Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah hashr Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah hashr Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah hashr Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah hashr Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah hashr Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah hashr Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah hashr Fares Abbad
Fares Abbad
surah hashr Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah hashr Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah hashr Al Hosary
Al Hosary
surah hashr Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah hashr Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers