Surah Taubah Ayat 92 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ﴾
[ التوبة: 92]
اور نہ ان (بےسروسامان) لوگوں پر (الزام) ہے کہ تمہارے پاس آئے کہ ان کو سواری دو اور تم نے کہا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کروں تو وہ لوٹ گئے اور اس غم سے کہ ان کے پاس خرچ موجود نہ تھا، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے
Surah Taubah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالٰی نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کر دیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ” تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں “ صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں؟ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ( صحيح البخاري كتاب الجهاد، باب من حبسه العذر عن الغزو- وصحيح مسلم، كتاب الإمارة باب ثواب من حبسه عن الغزو مرض .... ) ” عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے “۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عدم جہاد کے شرعی عذر اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں۔ پس ان سببوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی ناطاقت ہو۔ دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہوگیا ہے یا بالکل فقیر ہوگیا ہے، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کرسکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کرسکیں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے، اللہ کے دین کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آجائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو ؟ سب نے اقرار کیا۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں۔ ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کا بیان ہے کہ میں حضور ﷺ کا منشی تھا سورة برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور ﷺ منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے ؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور ﷺ میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لاسکتا ہوں ؟ اسی وقت یہ آیت اتری۔ پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ ﷺ کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کردیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں۔ یہ ناامید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گذارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کردی۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے۔ محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف، بنی واقف کے حرمی بن عمرو، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب، بنی معلی کے فضل اللہ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبداللہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول، رسولوں کے سرتاج ﷺ آلہ و اصحابہ و ازوجہ و اہل بیتہ و سلم کا فرمان ہے کہ اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے۔ پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں، زمین پکڑ لیتے ہیں۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہوگئے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 92 وَّلاَ عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ یعنی وہ لوگ جو دل و جان سے چاہتے تھے کہ اس مہم میں شریک ہوں ‘ مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے شرکت نہیں کر پا رہے تھے ‘ اپنی اس محرومی پر وہ واقعتا صدمے اور رنج و غم سے ہلکان ہو رہے تھے۔ ایک طرف ایسے مؤمنین صادقین تھے اور دوسری طرف وہ صاحب حیثیت اُولُوا الطَّوْلِ لوگ جن کے پاس سب کچھ موجود تھا ‘ وسائل و ذرائع کی کمی نہیں تھی ‘ تندرست و توانا تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں نکلنے کو تیار نہیں تھے۔
ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه تولوا وأعينهم تفيض من الدمع حزنا ألا يجدوا ما ينفقون
سورة: التوبة - آية: ( 92 ) - جزء: ( 10 ) - صفحة: ( 201 )Surah Taubah Ayat 92 meaning in urdu
اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ مجبوراً واپس گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تب انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے بھائی کو معاف
- اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اُٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (کھول
- یہی ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اور جو کچھ وہ افتراء کیا
- اور وہ جو (خدا سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں
- اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف
- اور ہمارا تم پر کچھ زور نہ تھا۔ بلکہ تم سرکش لوگ تھے
- تو ایک وقت تک ان سے اعراض کئے رہو
- اور پیغمبروں پر سلام
- تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلا دیا۔ سو وہ (دوزخ میں) حاضر کئے جائیں
- (اور) جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ تمام خلقت سے بہتر
Quran surahs in English :
Download surah Taubah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Taubah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Taubah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers