Surah Maidah Ayat 94 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ المائدہ کی آیت نمبر 94 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Maidah ayat 94 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[ المائدة: 94]

Ayat With Urdu Translation

مومنو! کسی قدر شکار سے جن کو تم ہاتھوں اور نیزوں سے پکڑ سکو خدا تمہاری آزمائش کرے گا (یعنی حالت احرام میں شکار کی ممانعت سے) تا کہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ کون ڈرتا ہے تو جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لیے دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے

Surah Maidah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا، اس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کرکے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ ش کے قریب آتے، لیکن انہی ایام میں ان 4 آیات کا نزول ہوا جن میں اس سے متعلقہ احکام بیان فرمائے گئے۔
( 2 ) قریب کا شکار یا چھوٹے جانور عام طور پر ہاتھ ہی سے پکڑ لئے جاتے ہیں اور دور کے یا بڑے جانوروں کے لئے تیر اور نیزے استعمال ہوتے تھے۔ اس لئے صرف ان دونوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جس طرح بھی اور جس چیز سے بھی شکار کیا جائے، احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


احرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات حضرت ابن عباس فرماتے ہیں چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا۔ یعنی انہیں منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہوسکتا ہو خواہ سختی سے۔ چناچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آپڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہوگئی تاکہ پوری آزمائش ہوجائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کرسکتے ہیں۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرمان کا امتحان ہوجائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہوجائیں، چناچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ اب جو شخص اس حکم کے آنے کے بعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں کیلئے ہے، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرام ہے، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں وہ حرام میں قتل کردیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کردیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیر وغیرہ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ ﷺ نے عتبہ بن ابو لہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کو یا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اسے بدلہ دینا پڑے گا۔ اسی طرح ان پانچوں قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں ہر وہ جانور جو کھایا نہیں جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کرسکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا۔ بعض احادیث میں غریب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے۔ امام ملک فرماتے ہیں کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذاء دے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سوال ہوا کہ محرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکر مارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے۔ مجاہد بن جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں رہی۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہوگیا۔ یہ قول بھی غریب ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں امام زہری فرماتے ہیں قرآن سے تو قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی۔ کیونکہ اس کے بعد آیت ( لِّيَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِهٖ )المائدة:95) فرمایا ہے اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لئے بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہوجائے وہ قابل ملامت نہیں۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے۔ ابن مسعود کی قرأت میں فجزاوہ ہے ان دونوں قرأتوں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلیل ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہوگا۔ امام ابوحنیفہ اس کے خلاف کہتے ہیں کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خرید لے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ ؓ کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں نے شترمرغ کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کی سندوں سمیت احکام کی کتابوں میں موجود ہیں جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس ؓ کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے ( بیہقی ) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کردیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے۔ فقہا نے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں بن سکتا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کردیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے ؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے ؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کردیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کرلیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق ؓ نے جب دیکھا کہ اعرابی جاہل ہے اور جہل کی دوا تعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں رہتی۔ چناچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گرگیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہوگیا۔ ہمیں یہ کام بڑا برا معلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی میری نیت نہ تھی۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر المؤمنین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا میرے خیال سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیرا جرم معاف ہوجائے۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں۔ حضرت عمر کو بھی میرا یہ فتوی دینا معلوم ہوگیا اچانک آپ کوڑا لئے ہوئے آگئے۔ اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تو نے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں کروں گا۔ آپ نرم پڑگئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کردیتی ہے۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کرلیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں۔ حضرت طارق فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مرگیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کرلیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے۔ جیسے کہ امام شافعی اور امام احمد کا مذہب ہے۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں ذبح ہو اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کرنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام ابوحنیفہ امام ابو یوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور امام احمد کا مشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابوحنیفہ ان کے ساتھی، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے، امام احمد فرماتے ہیں گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہوجائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے، بعض کہتے ہیں جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جیسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے، شارع ؑ نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کردیں یا تین دن کے روزے رکھیں، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے، عطاء کا قول بھی یہی ہے، مجاہد فرماتے ہیں جہاں شکار کیا ہے وہیں کھلوا دے، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے۔ سلف کی اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہوگا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکہ میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خر وغیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے۔ سدی فرماتے ہیں یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے، امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ گو اس میں حد نہیں امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہوگا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہوجائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اسے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلی دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہوگا دوبارہ کے شکار پر خود اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہوگا لیکن امام ابن جریر کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے، امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آگئی اور اسے جلا کر بھسم کردیا یہی معنی ہیں اللہ کے فرمان آیت ( فینتقم اللہ منہ ) کے۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں کرسکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں سکتا اس کا عذاب جس پر آجائے کوئی نہیں جو اسے ٹال دے، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


اس سورة مبارکہ کے شروع میں حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت آچکی ہے۔ اب اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے کہ اللہ اپنے ماننے والوں کو آزماتا ہے ‘ سخت ترین امتحان لیتا ہے۔ فرض کیجیے کہ حاجیوں کا ایک قافلہ جا رہا ہے ‘ سب نے احرام باندھا ہوا ہے ‘ اتفاق سے ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ اب ایک ہرن اٹھکیلیاں کرتے ہوئے قریب آ رہا ہے ‘ بھوک بھی ستا رہی ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو ذرا سا نیزہ ماریں اور شکار کرلیں یا ویسے ہی بھاگ کر پکڑ لیں ‘ لیکن پکڑ نہیں سکتے ‘ شکار نہیں کرسکتے ‘ کیونکہ احرام میں ہیں اور اس حالت میں اجازت نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح آزماتا ہے۔آیت 94 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بالْغَیْب ِج شکار پہنچ میں بھی ہے ‘ ان کے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو شکار کرلیں ‘ لیکن مجبور ہیں ‘ کیونکہ احرام باندھا ہوا ہے۔ تو جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ اپنی بھوک کو برداشت کرے گا ‘ اللہ کے حکم کو نہیں توڑے گا۔

ياأيها الذين آمنوا ليبلونكم الله بشيء من الصيد تناله أيديكم ورماحكم ليعلم الله من يخافه بالغيب فمن اعتدى بعد ذلك فله عذاب أليم

سورة: المائدة - آية: ( 94 )  - جزء: ( 7 )  -  صفحة: ( 123 )

Surah Maidah Ayat 94 meaning in urdu

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اُس کے لیے درد ناک سزا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. جو باتیں یہ کریں گے ہم خوب جانتے ہیں۔ اس وقت ان میں سب سے
  2. اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے اور جو طوفان وہ باندھا
  3. زندگی تو یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے کہ (اسی میں) ہم مرتے اور جیتے
  4. تو ان کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو
  5. تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں
  6. اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے جو حد سے نکل جانے والا گنہگار ہے
  7. جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو (خدا کی) لڑکیوں کے نام
  8. اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں انہوں نے
  9. مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین
  10. اور میری زبان کی گرہ کھول دے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
surah Maidah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Maidah Bandar Balila
Bandar Balila
surah Maidah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Maidah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Maidah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Maidah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Maidah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Maidah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Maidah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Maidah Fares Abbad
Fares Abbad
surah Maidah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Maidah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Maidah Al Hosary
Al Hosary
surah Maidah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Maidah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers