Surah baqarah Ayat 126 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 126 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 126 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾
[ البقرة: 126]

Ayat With Urdu Translation

اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے پروردگار، اس جگہ کو امن کا شہر بنا اور اس کے رہنے والوں میں سے جو خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان لائیں، ان کے کھانے کو میوے عطا کر، تو خدا نے فرمایا کہ جو کافر ہوگا، میں اس کو بھی کسی قدر متمتع کروں گا، (مگر) پھر اس کو (عذاب) دوزخ کے (بھگتنے کے) لیے ناچار کردوں گا، اور وہ بری جگہ ہے

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) کی یہ دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی غیر ذی زرع ( غیر کھیتی والی ) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت وتعجب میں ڈوب جاتا ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


عہد جو مترادف حکم ہے یہاں عہد سے مراد وہ حکم ہے جس میں کہا گیا ہے گندی اور نجس اور بری چیزوں سے پاک رکھناعہد کا تعدیہ الی سے ہو تو معنی ہم نے وحی کی اور پہلے سے کہ دیا کہ پاک رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بتوں سے بچانا غیر اللہ کی عبادت نہ ہونے دینا لغو کاموں فضول بکواس جھوٹی باتوں شرک و کفر، ہستی اور مذاق سے اسے محفوظ رکھنا۔ بھی اسی میں شامل ہے طائف کے ایک معنی طواف کرنے والوں کے ہیں دوسرے معنی باہر سے آنے والوں کے ہیں اس تقدیر پر عاکفین کے معنی مکہ کے باشندے ہوں گے ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ امیر وقت سے کہنا چاہئے کہ لوگوں کو بیت اللہ شریف میں سونے سے منع کریں کیونکہ ممکن ہے کوئی کسی وقت جنبی ہوجائے ممکن ہے کبھی آپس میں فضول باتیں کریں تو ہم نے سنا کہ انہیں نہ روکنا چاہئے۔ ابن عمر انہیں بھی عاکفین کہتے تھے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مسجد نبوی حضرت فاروق اعظم کے صاحبزادے حضرت عبداللہ سویا کرتے تھے وہ جوان اور کنوارے تھے۔ رکع السجود سے مراد نمازی ہیں پاک رکھنے کا حکم اس واسطے دیا گیا کہ اس وقت بھی بت پرستی رائج تھی دوسرے اس لئے کہ یہ بزرگ اپنی نیتوں میں خلوص کی بات رکھیں دوسری جگہ ارشاد ہے آیت ( واذ بوانا ) الخ اس آیت میں بھی حکم ہے کہ میرے ساتھ شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو پاک صاف رکھنا فقہا کا اس میں اختلاف ہے کہ بیت اللہ کی نماز افضل ہے یا طواف ؟ امام مالک فرماتے ہیں باہر والوں کے لئے طواف افضل ہے اور جمہور کا قول ہے کہ ہر ایک کے لیے نماز افضل ہے اس کی تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں، مقصد اس سے مشرکین کو تنبیہہ اور تردید ہے کہ بیت اللہ تو خاص اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اوروں کی عبادت کرنا اور خالص اللہ کی عبادت کرنے والوں کو اس سے روکنا کس قدر صریح بےانصافی ہے اور اسی لئے قرآن میں فرمایا کہ ایسے ظالموں کو ہم دردناک عذاب چکھائیں گے مشرکین کی اس کھلی تردید کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی تردید بھی اس آیت میں ہوگئی کہ اگر وہ ابراہیم و اسماعیل سلام اللہ علیہما کی افضلیت، بزرگی اور نبوت کے قائل ہیں اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ یہ شریف گھرانے کے متبرک ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جب وہ اسکے بھی قائل ہیں کہ یہ محض نماز و طواف و دعا اور عبادت اللہ کے لیے بنایا گیا ہے حج و عمرے اور اعتکاف وغیرہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے تو پھر ان نبیوں کی تابعداری کے دعوے کے باوجود کیوں حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں ؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے ؟ بلکہ خود موسیٰ ؑ نے اس گھر کا حج و عمرے سے رکے ہوئے ہیں ؟ کیوں بیت اللہ شریف میں حاضری نہیں دیتے ؟ بلکہ خود موسیٰ ؑ نے اس گھر کا حج کیا جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ آیہ کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اور مسجدوں کو بھی پاک صاف رکھنا چاہئے اور جگہ قرآن میں ہے آیت ( فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) 24۔ النور:36) اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو بلند کرنے کی اجازت دی ہے ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے ان میں صبح شام اس کی تسبیح اس کے نیک بندے کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مسجدیں اسی کام کے لیے ہیں اور احادیث میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مسجدوں کی پاکیزگی کا حکم آیا ہے امام ابن کثیر نے اس بارے میں ایک خاص رسالہ تصنیف فرمایا ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں سب سے پہلے کعبۃ اللہ فرشتوں نے بنایا تھا لیکن یہ سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں آدم ؑ نے سب سے پہلے بنایا تھا حرا، طور سینا، طور زیتا، جبل لبنان اور جودی ان پانچ پہاڑوں سے بنایا تھا لیکن یہ بھی سنداً غریب ہے بعض کہتے ہیں شیث ؑ نے سب سے پہلے بنایا تھا لیکن یہ بھی اہل کتاب کی بات ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرام بنایا اور فرمایا میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں۔ اس میں شکار نہ کھیلا جائے یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں یہاں ہتھیار نہ اٹھائے جائیں صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ لوگ تازہ پھل لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوتے تھے۔ حضور ﷺ اسے لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ ہمارے پھلوں میں ہمارے شہر میں ہمارے ناپ تول میں بھی برکت دے۔ اے اللہ ابراہیم تیرے بندے تیرے خلیل اور تیرے رسول تھے میں بھی تیرا بندہ تیرا رسول ہیں انہوں نے مجھ سے مکہ کے لیے دعا کی تھی میں تجھ سے مدینہ ( منورہ ) کے لیے دعا کرتا ہوں جیسے انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے کی تھی آپ کسی چھوٹے بچہ کو بلا کر وہ پھل اسے عطا فرما دیا کرتے۔ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ ابو طلحہ ﷺ سے کہا کہ جاؤ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہماری خدمت کے لیے آؤ ابو طلحہ مجھے لے کر حاضر ہوئے میں اب سفرو حضر میں حاضر خدمت رہنے لگا۔ ایک مرتبہ آپ باہر سے آ رہے تھے جب احد پہاڑ پر نظر پڑی تو آپ نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب مدینہ نظر آیا تو فرمانے لگے یا اللہ میں اس کے دونوں کنارے کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں جیسے ابراہیم ؑ نے مکہ کو حرم بنایا اے اللہ ان کے مد اور صاع میں اور ناپ میں برکت دے اور روایت میں ہے یا اللہ جتنی برکت تو نے مکہ میں دی ہے اس سے دگنی برکت مدینہ میں دے اور روایت میں ہے مدینہ میں قتل نہ کیا جائے اور چارے کے سوا اور پتے بھی یہاں کے درختوں کے نہ جھاڑے جائیں اسی مضمون کی حدیثیں جن سے ثابت ہوتا ہے مدینہ بھی مثل مکہ کے حرم ہے اور بھی بہت سی ہیں۔ یہاں ان احادیث کے وارد کرنے سے ہماری غرض مکہ شریف کی حرمت اور یہاں کا امن بیان کرنا ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ یہ شروع سے حرم اور امن ہے بعض کہتے ہیں خلیل اللہ کے زمانہ سے لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ والے دن فرمایا جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تب سے اس شہر کو حرمت و عزت والا بنایا ہے اب یہ قیامت تک حرمت و عزت والا ہی رہے گا اس میں جنگ و قتال کسی کو حلال نہیں میرے لئے بھی آج کے دن ہی ذرا سی دیر کے لیے حلال تھا اب وہ حرام ہی حرام ہے سنو اس کے کانٹے نہ کاٹے جائیں اس کا شکار نہ بھگایا جائے اس میں کسی کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے جو پہنچوائی جائے اس کے لیے اٹھانا جائز ہے اسکی گھاس نہ کاٹی جائے دوسری روایت میں ہے کہ یہ حدیث آپ نے اثنائے خطبہ میں بیان فرمائی تھی اور حضرت عباس کے سوال پر آپ نے اذخر نامی گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی تھی۔ حضرت ابن شریح عدوی نے عمر بن سعید سے اس وقت کہا جب وہ مکہ کی طرف لشکر بھیج رہا تھا کہ اے امیر سن فتح مکہ والے دن صبح ہی صبح رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا جسے میرے کانوں نے سنا دل نے یاد رکھا اور میں نے آنکھوں سے حضور ﷺ کو اس وقت دیکھا آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ مکہ کو رب ذوالجلال نے حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا، کسی ایماندار کو اس میں خون بہانا اس کا درخت کاٹنا حلال نہیں۔ اگر کوئی میری اس لڑائی کو دلیل بنائے تو کہ دینا کہ میرے لئے صرف آج ہی کے دن کی ایسی ساعت یہاں جہاد حلال تھا۔ پھر اس شہر کی حرمت آگئی ہے جیسے کل تھی۔ خبردار ہر حاضر غائب کو یہ پہنچا دے لیکن عمر نے یہ حدیث سن کر صاف جواب دے دیا کہ میں تجھ سے زیادہ اس حدیث کو جانتا ہوں۔ حرم نافرمان کو اور خونی کو اور بربادی کرنے والے کو نہیں بچانا ( بخاری مسلم ) ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہ سمجھے تطبیق یوں ہے کہ مکہ روز اول سے حرمت والا تھا لیکن اس حرمت کی تبلیغ حضرت خلیل اللہ نے کی جس طرح آنحضرت نبی ﷺ تو اس وقت سے تھے جب کہ حضرت آدم کا خمیر گوندھ رکھا تھا بلکہ آپ اس وقت بھی خاتم الانبیاء لکھے ہوئے تھے لیکن تاہم حضرت ابراہیم نے آپ کی نبوت کی دعا کی کہ آیت ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ ) 2۔ البقرۃ :129) ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج جو اللہ نے پوری کی اور تقدیر کی لکھی ہوئی وہ بات ظاہر و باہر ہوئی۔ ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ اپنی ابتدا نبوت کا تو کچھ ذکر کیجئے۔ آپ نے فرمایا میرے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ بن مریم کی بشارت اور میری ماہ کا خواب وہ دیکھتی ہیں کہ ان سے گویا ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کردیا اور وہ نظر آنے لگے۔ مدینہ منورہ افضل یا مکہ مکرمہ ؟ اس بات کا بیان کہ مکہ افضل ہے یا مدینہ ؟ جیسا کہ جمہور کا قول ہے جیسے کہ امام مالک اور ان کے تابعین کا مذہب ہے مدینہ افضل ہے مکہ سے۔ اسے دونوں طرف کے دلائل کے ساتھ عنقریب ہم بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت ابراہیم دعا کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ اس جگہ کو امن والا شہر بنا یعنی یہاں کے رہنے والوں کو نڈر اور بےخوف رکھ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا آیت ( وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا )آل عمران:97) اس میں جو آیا وہ امن والا ہوگیا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اولم یروا ) الخ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والا بنایا لوگ اسکے آس پاس سے اچک لئے جاتے ہیں اور یہاں وہ پر امن رہتے ہیں۔ اسی قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور اس مضمون کی بہت سی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں کہ مکہ شریف میں قتال حرام ہے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے ( صحیح مسلم ) آپ کی یہ دعا حرمت کعبۃ اللہ کی بنا سے پہلے تھی اس لیے کہا کہ اے اللہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا، سورة ابراہیم میں یہی دعا ان لفظوں میں ہے آیت ( رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ) 14۔ إبراهيم:35) شاید یہ دعا دوبارہ کی تھی۔ جب بیت اللہ شریف تیار ہوگیا اور شہر بس گیا اور حضرت اسحاق جو حضرت اسماعیل سے تین سال چھوٹے تھے تولد ہوچکے اسی لیے اس دعا کے آخر میں ان کی پیدائش کا شکریہ بھی ادا کیا ومن کفر سے آخرتک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض نے اسے بھی دعا میں دخل کیا ہے تو اس تقدیر پر یہ مطلب ہوگا کہ کفار کو بھی تھوڑا سا فائدہ دے پھر انہیں عذاب کی طرف بےبس کر اس میں بھی حضرات ابراہیم کی خلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی بری اولاد کے بھی مخالف ہیں اور اسے کلام اللہ ماننے کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ امامت کا سوال جب اپنی اولاد کے لیے کیا اور ظالموں کی محرومی کا اعلان سن چکے اور معلوم ہوگیا کہ آپ پیچھے آنے والوں میں بھی اللہ کے نافرمان ہوں گے تو مارے ڈر کے ادب کے ساتھ بعد میں آنے والی نسلوں کو روزی طلب کرتے ہوئے صرف ایماندار اولاد کے لیے کہا۔ ارشاد باری ہوا کہ دنیا کا فائدہ تو کفار کو بھی دیتا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا ) 17۔ الاسرآء :20) یعنی ہم انہیں اور ان کو بھی فائدہ دیں گے تیرے رب کی بخشش محدود نہیں اور جگہ ہے جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا کا کچھ فائدہ گو اٹھا لیں لیکن ہماری طرف آ کر اپنے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھیں گی اور جگہ ہے کافروں کا کفر تجھے غمگین نہ کرے جب یہ ہماری طرف لوٹیں گے تو ان کے اعمال پر ہم انہیں تنبیہہ کریں گے اللہ تعالیٰ سینوں کی چھپی باتوں کو بخوبی جانتا ہے ہم انہیں یونہی سا فائدہ پہنچا کر سخت غلیظ عذابوں کی طرف بےقرار کریں گے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْلَآ اَنْ يَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ يَّكْفُرُ بالرَّحْمٰنِ لِبُيُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُوْنَ ) 43۔ الزخرف:33) اگر یہ خطرہ نہ ہو تاکہ لوگو ایک ہی امت ہوجائیں تو ہم کافروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھر کے دروازے اور تخت جن پر ٹیک لگائے بیٹے رہتے اور سونا بھی دیتے لیکن یہ سب دنیوی فوائد ہیں آخرت کا بھلا گھر تو صرف پرہیزگاروں کے لیے ہے یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے کہ ان کا انجام برا ہے یہاں ڈھیل پالیں گے لیکن وہاں سخت پکڑ ہوگی۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ ) 22۔ الحج:45) بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر پکڑ لیا انجام کو تو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے گندی باتوں کو سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں لوگ اس کی اولاد بتاتے ہیں لیکن تاہم وہ انہیں رزق و عافیت دے رہا ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسے اچانک پکڑ لیتا ہے پھر حضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ) 11۔ هود:102) اس جملہ کو حضرت ابراہیم کی دعا میں شامل کرنا شاذ قرأت کی بنا پر ہے جو ساتوں قاریوں کی قرأت کے خلاف ہے اور ترکیب سیاق وسباق بھی یہی ظاہر کرتی ہے واللہ اعلم۔ اس لئے کہ قال کی ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف ہے اور اس شاذ قرأت کی بنا پر اس کے فاعل اور قائل بھی حضرت ابراہیم ہی ہوتے ہیں جو نظم کلام سے بظاہر مخالف ہے واللہ اعلم۔ قواعد جمع ہے قاعدہ کی ترجمہ اس کا پایہ اور نیو ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے نبی ﷺ اپنے والوں کو بنائے ابراہیمی کی خبر دو ، ایک قرأت میں واسمعیل کے بعد ویقولان بھی ہے اسی دلالت میں آگے لفظ مسلمین بھی ہے دونوں نبی نیک کام میں مشغول ہیں اور قبول نہ ہونے کا کھٹکا ہے تو اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں حضرت وہیب بن ورد جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو بہت روتے اور فرماتے آہ ! خلیل الرحمن جیسے اللہ کے مقبول پیغمبر اللہ کا کام اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اس کا گھر اس کے فرمان سے بناتے ہیں اور پھر خوف ہے کہ کہیں یہ قبولیت سے گر نہ جائے سچ ہے مخلص مومنوں کا یہی حال ہے آیت ( وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ) 23۔ المؤمنون:60) وہ نیک کام کرتے ہیں صدقے خیرات کرتے ہیں لیکن پھر بھی خوف اللہ سے کانپتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ قبول نہ ہوں حضرت ابراہیم اٹھاتے تھے اور دعا حضرت اسماعیل کرتے تھے لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں ہر ایک کام میں شریک تھے صحیح بخاری شریف کی ایک روایت اور بعض اور آثار بھی اس واقعہ کے متعلق یہاں ذکر کئے جانے کے قابل ہیں ابن عباس فرماتے ہیں کہ کمر بند باندھنا عورتوں نے حضرت اسماعیل کی والدہ محترمہ سے سیکھا ہے انہوں نے باندھا تھا کہ حضرت مائی سارہ کو ان کا نقش قدم نہ ملے انہیں اور ان کے جگر کے ٹکڑے اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل کو لے کر حضرت ابراہیم ؑ نکلے جبکہ یہ پیارا بچہ دودھ پیتا تھا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 126 وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَہْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود ہی احتیاط برتی اور اپنی ساری اولاد کے لیے یہ دعا نہیں کی ‘ بلکہ صرف ان کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ پہلی دعا میں وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا : لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ لیکن یہاں معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً جو لوگ ایمان سے محروم ہوں گے انہیں میں امامت میں شامل نہیں کروں گا ‘ لیکن بہرحال دنیوی زندگی کا مال و متاع تو میں ان کو بھی دوں گا۔ ثُمَّ اَضْطَرُّہٗ اِلٰی عَذَاب النَّارِ ط وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ

وإذ قال إبراهيم رب اجعل هذا بلدا آمنا وارزق أهله من الثمرات من آمن منهم بالله واليوم الآخر قال ومن كفر فأمتعه قليلا ثم أضطره إلى عذاب النار وبئس المصير

سورة: البقرة - آية: ( 126 )  - جزء: ( 1 )  -  صفحة: ( 19 )

Surah baqarah Ayat 126 meaning in urdu

اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: "اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے" جواب میں اس کے رب نے فرمایا: "اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے"


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور بےشک ان کے لئے ہمارے ہاں قُرب اور عمدہ مقام ہے
  2. اور وہ (شہر) اب تک سیدھے رستے پر (موجود) ہے
  3. میرے بندوں میں ایک گروہ تھا جو دعا کیا کرتا تھا کہ اے ہمارے پروردگار
  4. یا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ وہ اسے لکھ لیتے ہیں
  5. تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ
  6. (اے محمدﷺ) کہو کہ اے پروردگار جس عذاب کا ان (کفار) سے وعدہ ہو رہا
  7. اور دن کی جب اُسے چمکا دے
  8. اور آنکھیں جھکی ہوئی
  9. جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے منہ سیاہ تو جن
  10. اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور اپنے تئیں عذاب

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, November 5, 2024

Please remember us in your sincere prayers