Surah Shura Ayat 17 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ﴾
[ الشورى: 17]
خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور (عدل وانصاف کی) ترازو۔ اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آ پہنچی ہو
Surah Shura Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) الکتاب سے مراد جنس ہے یعنی تمام پیغمبروں پر جتنی کتابیں بھی نازل ہوئیں، وہ سب حق اور سچی تھیں۔ یا بطور خاص قرآن مجید مراد ہے اور اس کی صداقت کو واضح کیا جا رہا ہے ۔میزان سے مراد عدل و انصاف ہے۔ عدل کو ترازو سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ یہ برابری اور انصاف کا آلہ ہے۔ اس کے ذریعے سے ہی لوگوں کے درمیان برابری ممکن ہے۔اسی کے ہم معنی یہ آیات بھی ہیں«لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ» ( الحديد:25 ) ” یقینا ہم نے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھجوایا اور ان کے ساتھ کتاب اور انصاف نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں “ ۔«وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ، أَلا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ» ( سورة الرحمن: 7-9 ) اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے ترازو رکھی تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو ،انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول میں جمی نہ کرو
( 2 ) قريب، مذکر اور مونث دونوں کی صفت کے لیے آجاتا ہے۔ خصوصاً جب کہ موصوف مونث غیرحقیقی ہو۔ إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ۔ ( فتح القدير )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
منکرین قیامت کے لئے وعیدیں اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو ایمان داروں سے فضول حجتیں کیا کرتے ہیں، انہیں راہ ہدایت سے بہکانا چاہتے ہیں اور اللہ کے دین میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ ان کی حجت باطل ہے ان پر رب غضبناک ہے۔ اور انہیں قیامت کے روز سخت اور ناقابل برداشت مار ماری جائے گی۔ ان کی طمع پوری ہونی یعنی مسلمانوں میں پھر دوبارہ جاہلیت کی خو بو آنا محال ہے ٹھیک اسی طرح یہود و نصارٰی کا بھی یہ جادو نہیں چلنے دے گا۔ ناممکن ہے کہ مسلمان ان کے موجودہ دین کو اپنے سچے اچھے اصل اور بےکھرے دین پر ترجیح دیں۔ اور اس دین کو لیں جس میں جھوٹ ملا ہوا ہے جو محرف و مبدل ہے۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور عدل و انصاف اتارا۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ 25ۧ ) 57۔ الحدید :25) یعنی ہم نے اپنے رسولوں کو ظاہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا قرآن کے ہمراہ کتاب اور میزان اتارا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوجائیں۔ ایک اور آیت میں ہے آیت ( وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ ۙ ) 55۔ الرحمن:7) یعنی آسمان کو اسی نے اونچا کیا اور ترازؤں کو اسی نے رکھا تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو مت گھٹاؤ۔ پھر فرماتا ہے تو نہیں جان سکتا کہ قیامت بالکل قریب ہے اس میں خوف اور لالچ دونوں ہی ہیں اور اس میں دنیا سے بےرغبت کرنا بھی مقصود ہے۔ پھر فرمایا اس کے منکر تو جلدی مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی ؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو قیامت قائم کردو کیونکہ ان کے نزدیک قیامت ہونا محال ہے۔ لیکن ان کے برخلاف ایمان دار اس سے کانپ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ روز جزا کا آنا حتمی اور ضروری ہے۔ یہ اس سے ڈر کر وہ اعمال بجا لا رہے ہیں جو انہیں اس روز کام دیں ایک بالکل صحیح حدیث میں ہے جو تقریبا تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک شخص نے بلند آواز سے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ قیامت کب ہوگی ؟ یہ واقعہ سفر کا ہے وہ حضرت ﷺ سے کچھ دور تھے آپ نے فرمایا ہاں ہاں وہ یقینا آنے والی ہے تو بتا کہ تو نے اس کے لئے تیاری کیا کر رکھی ہے ؟ اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ نے فرمایا تو ان کے ساتھ ہوگا جن سے تو محبت رکھتا ہے اور حدیث میں حضور ﷺ کا فرمان ہے ہر شخص اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا تھا۔ یہ حدیث یقینا متواتر ہے الغرض حضور ﷺ نے اس سوال کے جواب میں قیامت کے وقت کا تعین نہیں کیا بلکہ سائل کو اس دن کے لئے تیاری کرنے کو فرمایا پس قیامت کے آنے کے وقت علم کا سوائے اللہ کے کسی اور کو نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ قیامت کے آنے میں جو لوگ جھگڑ رہے ہیں اور اس کے منکر ہیں اسے محال جانتے ہیں وہ نرے جاہل ہیں سچی سمجھ صحیح عقل سے دور پڑے ہوئے ہیں سیدھے راستے سے بھٹک کر بہت دور نکل گئے ہیں۔ تعجب ہے کہ زمین و آسمان کا ابتدائی خالق اللہ کو مانیں اور انسان کو مار ڈالنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینے پر اسے قادر نہ جانیں جس نے بغیر کسی نمونے کے اور بغیر کسی جز کے ابتدا ً اسے پیدا کردیا تو دوبارہ جب کہ اس کے اجزاء بھی کسی نہ کسی صورت میں کچھ نہ کچھ موجود ہیں اسے پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہے بلکہ عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور اب تو اور بھی آسان ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 17 { اََللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ } ” اللہ ہی ہے جس نے اتاری ہے کتاب بھی اور میزان بھی حق کے ساتھ۔ “ قرآن میں صرف دو ہی مقامات ایسے ہیں جہاں کتاب اور میزان کے الفاظ ایک ساتھ اکٹھے آئے ہیں۔ ایک تو آیت زیر مطالعہ اور دوسری سورة الحدید کی یہ آیت : { لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج…} آیت 25 ” ہم نے بھیجے اپنے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ اور ہم نے نازل کی ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ قائم رہیں لوگ عدل پر “۔ میزان دراصل دین حق کے عملی نظام کا نام ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ” کتاب “ ہر ایک کا حق مقرر کرتی ہے اور ” میزان “ ناپ تول کر کے یہ حق حقدار کو دیتی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں دین بھی دیا ہے اور نظام بھی۔ اگر نظام نہ ہوتا تو دین کے مطابق فیصلے کیسے ہوتے اور پھر ان فیصلوں پر عمل درآمد کیونکر ہوتا ؟ { وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیْبٌ } ” اور تمہیں کیا معلوم کہ قیامت قریب ہی ہو ! “ ” السَّاعۃ “ سے مراد قیامت کی گھڑی ہے ‘ اگرچہ انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو ہر شخص کی موت ہی گویا اس کی قیامت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے : مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُـہٗ 1 ” جس کو موت آگئی پس اس کی قیامت تو قائم ہوگئی “۔ مقامِ غور ہے کہ اس حوالے سے ہمیں کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہم میں سے ہر ایک کی ” قیامت “ اس کے سر پر کھڑی ہے اور دوسری طرف اللہ کی ” میزان “ کو نصب کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے جو ہم سب کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ اب اگر ہم نے ابھی اور اسی وقت اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اس کے لیے فوری طور پر ہم اپنا تن من دھن لگا دینے کے لیے میدانِ عمل میں نہ اترے تو نہ معلوم ہم میں سے کس کس کی مہلت ِعمل کچھ کیے بغیر ہی ختم ہوجائے۔ آج ہم میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ اسے کل کا سورج بھی دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں ! اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مزید وقت ضائع کیے بغیر اس ِجدوجہد ّمیں جت جائیں۔ اس فیصلے کے لیے تاخیر اور تاجیل میں وقت ضائع کرنا سب سے بڑی حماقت ہے :
الله الذي أنـزل الكتاب بالحق والميزان وما يدريك لعل الساعة قريب
سورة: الشورى - آية: ( 17 ) - جزء: ( 25 ) - صفحة: ( 485 )Surah Shura Ayat 17 meaning in urdu
وہ اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اور میزان نازل کی ہے اور تمہیں کیا خبر، شاید کہ فیصلے کی گھڑی قریب ہی آ لگی ہو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ بھلا جن
- مگر گرم پانی اور بہتی پیپ
- اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے روبرو بناؤ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں ان
- (یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے۔ اور تم خدا کی
- اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں زائل ہوں
- اے محمدﷺ) بےشک تم پیغمبروں میں سے ہو
- میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں
- موسیٰ نے کہا آپ کے لئے (مقابلے کا) دن نو روز (مقرر کیا جاتا ہے)
- پھر ہم نے ان کے بعد تم لوگوں کو ملک میں خلیفہ بنایا تاکہ دیکھیں
- جب تمہاری بہن (فرعون کے ہاں) گئی اور کہنے لگی کہ میں تمہیں ایسا شخص
Quran surahs in English :
Download surah Shura with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Shura mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Shura Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers