Surah ahzab Ayat 26 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ احزاب کی آیت نمبر 26 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah ahzab ayat 26 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا﴾
[ الأحزاب: 26]

Ayat With Urdu Translation

اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے اُن کی مدد کی تھی اُن کو اُن کے قلعوں سے اُتار دیا اور اُن کے دلوں میں دہشت ڈال دی۔ تو کتنوں کو تم قتل کر دیتے تھے اور کتنوں کو قید کرلیتے تھے

Surah ahzab Urdu

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


کفار نے عین موقعہ پر دھوکہ دیا۔اتنا ہم پہلے لکھ چکے ہیں جب مشرکین و یہود کے لشکر مدینے پر آئے اور انہوں نے گھیرا ڈالا تو بنو قریظہ کے یہودی جو مدینے میں تھے اور جن سے حضور ﷺ کا عہد و پیمان ہوچکا تھا انہوں نے بھی عین موقعہ پر بیوفائی کی اور عہد توڑ کر آنکھیں دکھانے لگے ان کا سردار کعب بن اسد باتوں میں آگیا اور حی بن اخطب خبیث نے اسے بدعہدی پر آمادہ کردیا پہلے تو یہ نہ مانا اور اپنے عہد پر قائم رہا حی نے کہا کہ دیکھ تو سہی میں تو تجھے عزت کا تاج پہنانے آیا ہوں۔ قریش اور انکے ساتھی غطفان اور ان کے ساتھی اور ہم سب ایک ساتھ ہیں۔ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک ایک ایک مسلمان کا قیمہ نہ کرلیں یہاں سے نہیں ہٹنے کے کعب چونکہ جہاندیدہ شخص تھا اس نے جواب دیا کہ محض غلط ہے۔ یہ تمہارے بس کے نہیں تو ہمیں ذلت کا طوق پہنانے آیا ہے۔ تو بڑا منحوس شخص ہے میرے سامنے سے ہٹ جا اور مجھے اپنی مکاری کا شکار نہ بنا لیکن حی پھر بھی نہ ٹلا اور اسے سمجھاتا بجھاتا رہا۔ آخر میں کہا سن اگر بالفرض قریش اور غطفان بھاگ بھی جائیں تو میں مع اپنی جماعت کے تیری گڑھی میں آجاؤں گا اور جو کچھ تیرا اور تیری قوم کا حال ہوگا۔ وہی میرا اور میری قوم کا حال ہوگا۔ بالآخر کعب پر حی کا جادو چل گیا اور بنو قریظہ نے صلح توڑ دی جس سے حضور ﷺ کو اور صحابہ کو سخت صدمہ ہوا اور بہت ہی بھاری پڑا پھر جب اللہ تعالیٰ نے اپنے غلاموں کی مدد کی اور حضور ﷺ مع اصحاب کے مظفر ومنصور مدینے شریف کو واپس آئے صحابہ ؓ نے ہتھیار کھول دئے اور حضور ﷺ بھی ہتھیار اتاکر حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں گرد و غبار سے پاک صاف ہونے کے لئے غسل کرنے کو بیٹھے ہی تھے جو حضرت جبرائیل ظاہر ہوئے آپ کے سر پر ریشمی عمامہ تھا خچر پر سوار تھے جس پر ریشمی گدی تھی فرمانے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ کیا آپ نے کمر کھول لی ؟ آپ نے فرمایا ہاں حضرت جبرائیل نے فرمایا لیکن فرشتوں نے اب تک اپنے ہتھیار الگ نہیں کئے۔ میں کافروں کے تعاقب سے ابھی ابھی آرہا ہوں سنئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بنو قریظہ کی طرف چلئے اور ان کی پوری گوشمالی کیجئے۔ مجھے بھی اللہ کا حکم مل چکا ہے کہ میں انہیں تھرادوں۔ حضور ﷺ نے اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے تیار ہو کر صحابہ ؓ عنھم اجمعین کو حکم دیا اور فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک عصر کی نماز بنو قریظہ میں ہی پڑھے۔ ظہر کے بعد یہ حکم ملا تھا بنو قریظہ کا قلعہ یہاں سے کئی میل پر تھا۔ نماز کا وقت صحابہ کو راستہ میں آگیا۔ تو بعض نے تو نماز ادا کرلی اور کہا کہ حضور کا فرمان اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تیز چلیں۔ اور بعض نے کہا ہم تو وہاں پہنچے بغیر نماز نہیں پڑھیں گے جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دونوں میں سے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ آپ نے مدینہ پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو خلیفہ بنایا حضرت علی ؓ کے ہاتھ لشکر کا جھنڈادیا اور آپ بھی صحابہ ؓ کے پیچھے پیچھے بنو قریظہ کی طرف چلے اور جاکر ان کے قلعہ کو گھیر لیا۔ یہ محاصرہ پچیس روز تک رہا۔ جب یہودیوں کے ناک میں دم آگیا اور تنگ حال ہوگئے تو انہوں نے اپنا حاکم حضرت سعد بن معاذ ؓ کو بنایا جو قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ بنو قریظہ میں اور قبیلہ اوس میں زمانہ جاہلیت میں اتفاق ویگانگت تھی ایک دوسرے کے حلیف تھے اس لئے ان یہودیوں کو یہ خیال رہا کہ حضرت سعد ہمارا لحاظ اور پاس کریں گے جیسے کہ عبداللہ بن ابی سلول نے بنو قینقاع کو چھڑوایا تھا ادھر حضرت سعد ؓ کی یہ حالت تھی کہ جنگ خندق میں انہیں اکحل کی رگ میں ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا حضور ﷺ نے زخم پر داغ لگوایا تھا اور مسجد کے خیمے میں ہی انہیں رکھا تھا کہ پاس ہی پاس عیادت اور بیمار پر سی کرلیا کریں۔ حضرت سعد ؓ نے جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ اے پروردگار اگر اب بھی کوئی ایسی لڑائی باقی ہے جس میں کفار قریش تیرے نبی ﷺ پر چڑھ آئیں تو تو مجھے زندہ رکھ کہ میں اس میں شرکت کرسکوں اور اگر تو نے کوئی ایک لڑائی بھی ایسی باقی نہیں رکھی تو خیر میرا زخم خوب بہاتا رہے لیکن اے میرے رب جب تک میں بنو قریظہ قبیلے کی سرکشی کی سزا سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی نہ کرلوں تو میری موت کو موخر فرمانا۔ حضرت سعد ؓ جیسے مستجاب الدعوات کی دعا کی قبولیت کی شان دیکھئے کہ آپ دعا کرتے ہیں ادھر یہودان بنو قریظہ آپ کے فیصلے پر اظہار رضامندی کرکے قلعے کو مسلمانوں کے سپرد کرتے ہیں۔ جناب رسول اللہ ﷺ آدمی بھیج کر آپ کو مدینہ سے بلواتے ہیں کہ آپ آکر ان کے بارے میں اپنا فیصلہ سنادیں۔ یہ گدھے پر سوار کرالئے گئے اور سارا قبیلہ ان سے لپٹ گیا کہ دیکھئے حضرت خیال رکھئے گا بنو قریظہ آپ کے آدمی ہیں انہوں نے آپ پر بھروسہ کیا ہے وہ آپ کے حلیف ہیں آپ کے قوم کے دکھ کے ساتھی ہیں۔ آپ ان پر رحم فرمائیے گا ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا۔ دیکھئے اس وقت ان کا کوئی نہیں وہ آپ کے بس میں ہیں وغیرہ لیکن حضرت سعد ؓ محض خاموش تھے کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ ان لوگوں نے مجبور کیا کہ جواب دیں پیچھا ہی نہ چھوڑا۔ آخر آپ نے فرمایا وقت آگیا ہے کہ سعد ؓ اس بات کا ثبوت دے کہ اسے اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں۔ یہ سنتے ہی ان لوگوں کے تو دل ڈوب گئے اور سمجھ لیا کہ بنو قریظہ کی خیر نہیں۔ جب حضرت سعد ؓ کی سواری اس خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں جناب رسول اللہ ﷺ تھے تو آپ نے فرمایا لوگو اپنے سردار کے استقبال کے لئے اٹھو چناچہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو عزت و اکرام وقعت و احترام سے سواری سے اتارا یہ اس لئے تھا کہ اس وقت آپ حاکم کی حیثیت میں تھے ان کے فیصلے پورے ناطق ونافذ سمجھے جائیں۔ آپ کے بیٹھتے ہی حضور نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ کے فیصلے پر رضامند ہو کر قلعے سے نکل آئیں ہیں اب آپ ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیجئے۔ آپ نے کہا جو میں ان پر حکم کروں وہ پورا ہوگا ؟ حضور نے فرمایا ہاں کیوں نہیں ؟ کہا اور اس خیمے والوں پر بھی اس کی تعمیل ضروری ہوگی ؟ آپ نے فرمایا یقینا پوچھا اور اس طرف والوں پر بھی ؟ اور اشارہ اس طرف کیا جس طرف خود رسول اکرم ﷺ تھے۔ لیکن آپ کی طرف نہیں دیکھا آپ کی بزرگی اور عزت و عظمت کی وجہ سے، حضور ﷺ نے جواب دیا ہاں اس طرف والوں پر بھی۔ آپ نے فرمایا اب میرا فیصلہ سنئے میں کہتا ہوں بنو قریظہ میں جتنے لوگ لڑنے والے ہیں انہیں قتل کردیا جائے اور ان کی اولاد کو قید کرلیا جائے ان کے مال قبضے میں لائے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے سعد ؓ تم نے ان کے بارے میں وہی حکم کیا جو اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان کے اوپر کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے سچے مالک اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا وہی سنایا ہے۔ پھر حضور ﷺ کے حکم سے خندقیں کھائی کھدوا کر انہیں بندھا ہوا بلوا کر ان کی گردنیں ماری گئیں۔ یہ گنتی میں سات آٹھ سو تھے ان کی عورتیں نابالغ بچے اور مال لے لئے گئے۔ ہم نے یہ کل واقعات اپنی کتاب السیر میں تفصیل سے لکھ دئیے ہیں۔ والحمد للہ۔ پس فرماتا ہے کہ جن اہل کتاب یعنی یہودیوں نے کافروں کے لشکروں کی ہمت افزائی کی تھی اور ان کا ساتھ دیا تھا ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعے خالی کرا دئیے۔ اس قوم قریظہ کے بڑے سردار جن سے ان کی نسل جاری ہوئی تھی اگلے زمانے میں آکر حجاز میں اسی طمع میں بسے تھے کہ نبی آخر الزمان کی پیش گوئی ہماری کتابوں میں ہے وہ چونکہ یہیں ہونے والے ہیں تو ہم سب پہلے آپ کی اتباع کی سعادت سے مسعود ہونگے۔ لیکن ان ناحلقوں نے جب اللہ کی وہ نبی آئے ان کی تکذیب کی جس کی وجہ سے اللہ کی لعنت ان پر نازل ہوئی۔ " صیاصی " سے مراد قلعے ہیں اسی معنی کے لحاظ سے سینگوں کو بھی صیاصی کہتے ہیں اس لئے کہ جانور کے سارے جسم کے اوپر اور سب سے بلند یہی ہوتے ہیں ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا انہوں نے ہی مشرکین کو بھڑکا کر رسول اللہ ﷺ پر چڑھائی کرائی تھی۔ عالم جاہل برابر نہیں ہوتے۔ یہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جڑوں سے اکھیڑ دینا چاہا تھا لیکن معاملہ برعکس ہوگیا پانسہ پلٹ گیا قوت کمزوری سے اور مراد نامرادی سے بدل گئی۔ نقشہ بگڑ گیا حمایتی بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ بےدست وپا رہ گئے۔ عزت کی خواہش نے ذلت دکھائی مسلمانوں کے برباد کرنے اور پیس ڈالنے کی خواہش نے اپنے تئیں پسوا دیا۔ اور ابھی آخرت کی محرومی باقی ہے۔ کچھ قتل کردئیے گئے باقی قیدی کردیئے گئے۔ عطیہ فرظی کا بیان ہے کہ جب میں حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو میرے بارے میں حضور کو کچھ تردد ہوا۔ فرمایا اسے الگ لے جاؤ دیکھو اگر اس کے ناف کے نیچے بال ہوں تو قتل کردو ورنہ قیدیوں میں بٹھادو دیکھا تو میں بچہ ہی تھا زندہ چھوڑ دیا گیا۔ ان کی زمین گھر ان کے مال کے مالک مسلمان بن گئے بلکہ اس زمین کے بھی جو اب تک پڑی تھی اور جہاں مسلمان کے نشان قدم بھی نہ پڑے تھے یعنی خیبر کی زمین یا مکہ شریف کی زمین۔ یا فارس یا روم کی زمین اور ممکن ہے کہ یہ کل خطے مراد ہوں اللہ بڑی قدرتوں والا ہے۔ مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ خندق والے دن میں لشکر کا کچھ حال معلوم کرنے نکلی۔ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے بہت تیز آنے کی آہٹ اور اس کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی میں راستے سے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئی دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ لشکر کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حارث بن اوس تھے جن کے ہاتھ میں ان کی ڈھال تھی۔ حضرت سعد ؓ لوہے کی زرہ پہنے ہوئے تھے لیکن بڑے لانبے چوڑے تھے زرہ پورے بدن پر نہیں آئی تھی ہاتھ کھلے تھے اشعار رجز پڑھتے ہوئے جھومتے جھامتے چلے جا رہے تھے میں یہاں سے اور آگے بڑھی اور ایک باغیچے میں چلی گئی وہاں کچھ مسلمان موجود تھے جن میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی تھے اور ایک اور صاحب جو خود اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے دیکھ لیا پس پھر کیا تھا ؟ بڑے ہی بگڑے اور مجھ سے فرمانے لگے یہ دلیری ؟ تم نہیں جانتیں لڑائی ہو رہی ہے ؟ اللہ جانے کیا نتیجہ ہو ؟ تم کیسے یہاں چلی آئیں وغیرہ وغیرہ۔ جو صاحب مغفر سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے انہوں نے عمر فاروق ؓ کی یہ باتیں سن کر اپنے سر سے لوہے کا ٹوپ اتارا دیکھا اب میں پہچان گئی کہ وہ حضرت طلحہ ؓ تھے انہوں نے حضرت عمر ؓ کو خاموش کیا کہ کیا ملامت شروع کر رکھی ہے نتیجے کا کیا ڈر ہے ؟ کیوں تمہیں اتنی گھبراہٹ ہے ؟ کوئی بھاگ کے جائے گا کہاں ؟ سب کچھ اللہ کے ہاتھ ہے حضرت سعد ؓ کو ایک قریشی نے تاک کر تیر لگایا اور کہا لے میں ابن عرقہ ہوں۔ حضرت سعد ؓ کی رگ اکحل پر وہ تیر پڑا اور پیوست ہوگیا۔ خون کے فوارے چھوٹ گئے اسی وقت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ مجھے موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی تباہی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو۔ اللہ کی شان سے اسی وقت خون تھم گیا۔ مشرکین کو ہواؤں نے بھگادیا اور اللہ نے مومنوں کی کفایت کردی ابو سفیان اور اسکے ساتھی تو بھاگ کر تہامہ میں چلے گئے عینیہ بن بدر اس کے ساتھی نجد میں چلے گئے۔ بنو قریظہ اپنے قلعہ میں جاکر پنا گزین ہوگئے۔ میدان خالی دیکھ کر رسول اللہ ﷺ مدینے میں واپس تشریف لے آئے۔ حضرت سعد ؓ کے لئے مسجد میں ہی چمڑے کا ایک خیمہ نصب کیا گیا اسی وقت حضرت جبرائیل آئے آپ کا چہرہ گرد آلود تھا فرمانے لگے آپ نے ہتھیار کھول دئیے ؟ حالانکہ فرشتے اب تک ہتھیار بند ہیں۔ اٹھئے بنو قریظہ سے بھی فیصلہ کرلیجئے ان پر چڑھائی کیجئے حضور نے فوراً ہتھیار لگا لئے اور صحابہ میں بھی کوچ کی منادی کرادی۔ بنو تمیم کے مکانات مسجد نبوی سے متصل ہی تھے راہ میں آپ نے ان سے پوچھا کیوں بھئی ؟ کسی کو جاتے ہوئے دیکھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ابھی ابھی حضرت دحیہ کلبی ؓ گئے ہیں۔ حالانکہ تھے تو وہ حضرت جبرائیل لیکن آپ کی ڈاڑھی چہرہ وغیرہ بالکل حضرت دحیہ کلبی سے ملتاجلتا تھا۔ اب آپ نے جاکر بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کیا پچیس روز تک یہ محاصرہ جاری رہا۔ جب وہ گھبرائے اور تنگ آگئے تو ان سے کہا گیا کہ قلعہ ہمیں سونپ دو اور تم اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو۔ رسول اللہ ﷺ تمہارے بارے میں جو چاہیں گے فیصلہ فرمادیں گے۔ انہوں نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا اس صورت میں تو اپنی جان سے ہاتھ دھولینا ہے۔ انہوں نے یہ معلوم کرکے اسے تو نامنظور کردیا اور کہنے لگے ہم قلعہ خالی کردیتے ہیں آپ کی فوج کو قبضہ دیتے ہیں ہمارے بارے کا فیصلہ ہم حضرت سعد بن معاذ کو دیتے ہیں۔ آپ نے اسے بھی منظور فرمالیا۔ حضرت سعد ؓ کو بلایا آپ تشریف لے آئے گدھے پر سوار تھے جس پر کجھور کے درخت کی چھال کی گدی تھی آپ اس پر بمشکل سوار کرادیئے گئے تھے آپ کی قوم آپ کو گھیرے ہوئے تھی اور سمجھارہی تھی کہ دیکھو بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہمارے دوست ہیں ہماری موت زیست کے شریک ہیں اور ان کے تعلقات جو ہم سے ہیں وہ آپ پر پوشیدہ نہیں۔ آپ خاموشی سے سب کی باتیں سنتے جاتے تھے جب ان کے محلہ میں پہنچے تو ان کی طرف نظر ڈالی اور کہا وقت آگیا کہ میں اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقا پرواہ نہ کروں۔ جب حضور کے خیمے کے پاس ان کی سواری پہنچی تو حضور نے فرمایا اپنے سید کی طرف اٹھو اور انہیں اتارو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہمارا سید تو اللہ ہی ہے۔ آپ نے فرمایا اتارو۔ لوگوں نے مل جل کر انہیں سواری سے اتارا حضور نے فرمایا سعد ؓ ان کے بارے میں جو حکم کرنا چاہو کردو۔ آپ نے فرمایا ان کے بڑے قتل کردئیے جائیں اور ان کے چھوٹے غلام بنائیے جائیں ان کا مال تقسیم کرلیا جائے۔ آپ نے فرمایا سعد ؓ تم نے اس حکم میں اللہ اور اس کے رسول کی پوری موافقت کی۔ پھر حضرت سعد ؓ نے دعا مانگی کہ اے اللہ اگر تیرے نبی ﷺ پر قریش کی کوئی اور چڑھائی ابھی باقی ہو تو مجھے اس کی شمولیت کے لئے زندہ رکھ ورنہ اپنی طرف بلالے۔ اسی وقت زخم سے خون بہنے لگا حالانکہ وہ پورا بھر چکا تھا یونہی سا باقی تھا چناچہ انہیں پھر اسی خیمے میں پہنچا دیا گیا اور آپ وہیں شہد ہوگئے ؓ خود حضور ﷺ اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر رضی عنہ وغیرہ بھی آئے سب رو رہے تھے اور ابوبکر ؓ کی آواز عمر ؓ کی آواز میں پہچان بھی ہو رہی تھی میں اس وقت اپنے حجرے میں تھی۔ فی الواقع اصحاب رسول اللہ ایسے ہی تھے جیسے اللہ نے فرمایا آیت ( رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ 29؀ ) 48۔ الفتح:29) آپس میں ایک دوسرے کی پوری محبت اور ایک دوسرے سے الفت رکھنے والے تھے۔ حضرت علقمہ ؓ نے پوچھا ام المومنین یہ تو فرمائیے کہ رسول اللہ ﷺ کس طرح رویا کرتے تھے ؟ فرمایا آپ کی آنکھیں کسی پر آنسو نہیں بہاتی تھیں ہاں غم ورنج کے موقعہ پر آپ داڑھی مبارک اپنی مٹھی میں لے لیتے تھے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 26 { وَاَنْزَلَ الَّذِیْنَ ظَاہَرُوْہُمْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مِنْ صَیَاصِیْہِمْ } ” اور اللہ نے اتار لیا اہل ِکتاب میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے ان مشرکین کی مدد کی تھی ‘ ان کے قلعوں سے “ بنو قریظہ کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بد عہدی کر کے حملہ آور قبائل کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔ چناچہ اللہ کی مشیت کے مطابق انہیں اپنے قلعوں اور گڑھیوں سے نکل کر مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ { وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ } ” اور ان کے دلوں میں اس نے رعب ڈال دیا “ { فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًا } ” تو اب ان میں سے کچھ کو تم قتل کر رہے ہو اور کچھ کو تم قیدی بنا رہے ہو۔ “ یعنی حضرت سعد بن معاذ رض کے فیصلے کے مطابق جنگ کے قابل مرد قتل کردیے گئے ‘ جبکہ بوڑھوں ‘ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا۔

وأنـزل الذين ظاهروهم من أهل الكتاب من صياصيهم وقذف في قلوبهم الرعب فريقا تقتلون وتأسرون فريقا

سورة: الأحزاب - آية: ( 26 )  - جزء: ( 21 )  -  صفحة: ( 421 )

Surah ahzab Ayat 26 meaning in urdu

پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا، اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لایا اور اُن کے دلوں میں اُس نے ایسا رُعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
  2. اس دن خدا ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے
  3. جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام) جو کرتے نہیں
  4. کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کے خزانے ہیں۔ یا یہ (کہیں کے) داروغہ ہیں؟
  5. اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے
  6. کہہ دو کہ تم (خدا کو) الله (کے نام سے) پکارو یا رحمٰن (کے نام
  7. پھر ہم نے نوحؑ کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور کشتی کو اہل
  8. حٰم
  9. اور وہاں ان کو ایسی شراب (بھی) پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش
  10. تو انہوں نے ہود کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ بےشک

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :

surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
surah ahzab Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah ahzab Bandar Balila
Bandar Balila
surah ahzab Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah ahzab Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah ahzab Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah ahzab Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah ahzab Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah ahzab Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah ahzab Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah ahzab Fares Abbad
Fares Abbad
surah ahzab Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah ahzab Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah ahzab Al Hosary
Al Hosary
surah ahzab Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah ahzab Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب