Surah fatah Ayat 28 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا﴾
[ الفتح: 28]
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے خدا ہی کافی ہے
Surah fatah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے۔ تاہم دینوی اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولیٰ اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک، جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انہیں غلبہ حاصل رہا، اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان، مسلمان بن جائیں؛ «وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ» ( آل عمران: 139 ) یہ دین غالب ہونے کے لئے ہی آیا ہے، مغلوب ہونے کے لئے نہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
رسول اللہ ﷺ کا خواب رسول اللہ ﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ میں گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ آپ نے اس کا ذکر اپنے اصحاب سے مدینہ شریف میں ہی کردیا تھا حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اس سفر میں ہی کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ پر نہایت شاق گذرا۔ چناچہ حضرت عمر نے تو خود حضور ﷺ سے یہ کہا بھی کہ آپ نے تو ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف سے مشرف ہوں گے آپ نے فرمایا یہ صحیح ہے لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ہوگا ؟ حضرت عمر نے فرمایا ہاں یہ تو نہیں فرمایا تھا آپ نے فرمایا پھر جلدی کیا ہے ؟ تم بیت اللہ میں جاؤ گے ضرور اور طواف بھی یقینا کرو گے۔ پھر حضرت صدیق سے یہی کہا اور ٹھیک یہی جواب پایا۔ اس آیت میں جو انشاء اللہ ہے یہ استثناء کے لئے نہیں بلکہ تحقیق اور تاکید کے لئے ہے اس مبارک خواب کی تاویل کو صحابہ نے دیکھ لیا اور پورے امن و اطمینان کے ساتھ مکہ میں گئے اور وہاں جا کر احرام کھولتے ہوئے بعض نے اپنا سر منڈوایا اور بعض نے بال کتروائے۔ صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضرت اور کتروانے والوں پر بھی۔ آپ نے دوبارہ بھی یہی فرمایا پھر لوگوں نے وہی کہا آخر تیسری یا چوتھی دفعہ میں آپ نے کتروانے والوں کے لئے بھی رحم کی دعا کی۔ پھر فرمایا بےخوف ہو کر یعنی مکہ جاتے وقت بھی امن وامان سے ہو گے اور مکہ کا قیام بھی بےخوفی کا ہوگا چناچہ عمرۃ القضاء میں یہی ہوا یہ عمرہ ذی قعدہ سنہ007ہجری میں ہوا تھا۔ حدیبیہ سے آپ ذی قعدہ کے مہینے میں لوٹے ذی الحجہ اور محرم تو مدینہ شریف میں قیام رہا صفر میں خیبر کی طرف گئے اس کا کچھ حصہ تو از روئے جنگ فتح ہوا اور کچھ حصہ ازروئے صلح مسخر ہوا یہ بہت بڑا علاقہ تھا اس میں کھجوروں کے باغات اور کھیتیاں بکثرت تھیں، یہیں کے یہودیوں کو آپ نے بطور خادم یہاں رکھ کر ان سے یہ معاملہ طے کیا کہ وہ باغوں اور کھیتیوں کی حفاظت اور خدمت کریں اور پیداوار کا نصف حصہ دے دیا کریں، خیبر کی تقسیم رسول اللہ ﷺ نے صرف ان ہی صحابہ میں کی جو حدیبیہ میں موجود تھے ان کے سوا کسی اور کو اس جنگ میں آپ نے حصہ دار نہیں بنایا، سوائے ان لوگوں کے جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے جو حضرات حضور ﷺ کے ساتھ تھے وہ سب اس فتح خیبر میں بھی ساتھ تھے۔ حضرت ابو دجانہ، سماک بن خرشہ کے سوا جیسے کہ اس کا پورا بیان اپنی جگہ ہے یہاں سے آپ سالم و غنیمت لئے ہوئے واپس تشریف لائے اور ماہ ذوالقعدہ سنہ007ہجری میں مکہ کی طرف باارادہ عمرہ اہل حدیبیہ کو ساتھ لے کر آپ روانہ ہوئے، ذوالحلفیہ سے احرام باندھا قربانی کے لئے ساٹھ اونٹ ساتھ لئے اور لبیک پکارتے ہوئے ظہران میں پہنچے جہاں سے کعبہ کے بت دکھائی دیتے تھے تو آپ نے تمام نیزے بھالے تیر کمان بطن یا جج میں بھیج دئیے، مطابق شرط کے صرف تلواریں پاس رکھ لیں اور وہ بھی میان میں تھیں ابھی آپ راستے میں ہی تھے جو قریش کا بھیجا ہوا آدمی مکرز بن حفص آیا اور کہنے لگا حضور ﷺ آپ کی عادت تو لڑنے کی نہیں حضور ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ تیر اور نیزے لے کر آرہے ہیں آپ نے فرمایا نہیں تو ہم نے وہ سب بھیج دیے ہیں اس نے کہا یہی ہمیں آپ کی ذات سے امید تھی آپ ہمیشہ سے بھلائی اور نیکی اور وفاداری ہی کرنے والے ہیں سرداران کفار تو بوجہ غیظ وغضب اور رنج وغم کے شہر سے باہر چلے گئے کیونکہ وہ تو آپ کو اور آپ کے اصحاب کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے اور لوگ جو مکہ میں رہ گئے تھے وہ مرد عورت بچے تمام راستوں پر اور کوٹھوں پر اور چھتوں پر کھڑے ہوگئے اور ایک استعجاب کی نظر سے اس مخلص گروہ کو اس پاک لشکر کو اس اللہ کی فوج کو دیکھ رہے تھے آپ نے قربانی کے جانور ذی طوٰی میں بھیج دئیے تھے خود آپ اپنی مشہور و معروف سواری اونٹنی قصوا پر سوار تھے آگے آگے آپ کے اصحاب تھے جو برابر لبیک پکار رہے تھے حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے باسم الذی لا دین الا دینہ بسم الذی محمد رسولہ خلوا بنی الکفار عن سبیلہ الیوم نضربکم علی تاویلہ کما ضربنا کم علی تنزیلہ ضربا یزیل الھام عن مقیلہ ویذھل الخلیل عن خلیلہ قد انزل الرحمن فی تنزیلہ فی صحف تتلی علی رسولہ بان خیر القتل فی سبیلہ یارب انی مومن بقیلہ یعنی اس اللہ عزوجل کے نام جس کے دین کے سوا اور کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اس اللہ کے نام سے جس کے رسول حضرت محمد ہیں ﷺ اے کافروں کے بچو ! حضور ﷺ کے راستے سے ہٹ جاؤ آج ہم تمہیں آپ کے لوٹنے پر بھی ویسا ہی ماریں گے جیسا آپ کے آنے پر مارا تھا وہ مار جو دماغ کو اس کے ٹھکانے سے ہٹا دے اور دوست کو دوست سے بھلا دے۔ اللہ تعالیٰ رحم والے نے اپنی وحی میں نازل فرمایا ہے جو ان صحیفوں میں محفوظ ہے جو اس کے رسول ﷺ کے سامنے تلاوت کئے جاتے ہیں کہ سب سے بہتر موت شہادت کی موت ہے جو اس کی راہ میں ہو۔ اے میرے پروردگار میں اس بات پر ایمان لا چکا ہوں۔ بعض روایتوں میں الفاظ میں کچھ ہیر پھیر بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ اس عمرے کے سفر میں جب حضور ﷺ ( مر الظہران ) میں پہنچے تو صحابہ نے سنا کہ اہل مکہ کہتے ہیں یہ لوگ بوجہ لاغری اور کمزوری کے اٹھ بیٹھ نہیں سکتے یہ سن کر صحابہ حضرت ﷺ کے پاس آئے اور کہا اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنی سواریوں کے چند جانور ذبح کرلیں ان کا گوشت کھائیں اور شوربا پئیں اور تازہ دم ہو کر مکہ میں جائیں آپ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو تمہارے پاس جو کھانا ہو اسے جمع کرو چناچہ جمع کیا دستر خوان بچھایا اور کھانے بیٹھے تو حضور ﷺ کی دعا کی وجہ سے کھانے میں اتنی برکت ہوئی کہ سب نے کھا پی لیا اور توشے دان بھر لئے۔ آپ مکہ شریف آئے سیدھے بیت اللہ گئے قریشی حطیم کی طرف بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چادر کے پلے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لئے اور اصحاب سے فرمایا یہ لوگ تم میں سستی اور لاغری محسوس نہ کریں، اب آپ نے رکن کو بوسہ دے کر دوڑنے کی سی چال سے طواف شروع کیا جب رکن یمانی کے پاس پہنچے جہاں قریش کی نظریں نہیں پڑتی تھیں تو وہاں سے آہستہ آہستہ چل کر حجر اسود تک پہنچے، قریش کہنے لگے تم لوگ تو ہر نوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہو گویا چلنا تمہیں پسند ہی نہیں تین مرتبہ تو آپ اسی طرح ہلکی دوڑ کی سی چال حجر اسود سے رکن یمانی تک چلتے رہے تین پھیرے اس طرح کئے چناچہ یہی مسنون طریقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجتہ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اصحاب رسول کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہوگئے تھے، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آرہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کردیا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول ﷺ کو کردی۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کردیا ہے ؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ ذوالقعدہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ شریف پہنچ گئے تھے اور روایت میں ہے کہ مشرکین اس وقت قعیقعان کی طرف تھے حضور ﷺ کا صفا مروہ کی طرف سعی کرنا بھی مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لئے تھا، حضرت ابن ابی اوفی فرماتے ہیں اس دن ہم آپ پر چھائے ہوئے تھے اس لئے کہ کوئی مشرک یا کوئی ناسمجھ آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچا سکے، بخاری شریف میں ہے حضور ﷺ عمرے کے لئے نکلے لیکن کفار قریش نے راستہ روک لیا اور آپ کو بیت اللہ شریف تک نہ جانے دیا آپ نے وہیں قربانیاں کیں اور وہیں یعنی حدیبیہ میں سر منڈوا لیا اور ان سے صلح کرلی جس میں یہ طے ہوا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں گے سوائے تلواروں کے اور کوئی ہتھیار اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ میں نہیں آئیں گے اور وہاں اتنی ہی مدت ٹھہریں گے جتنی اہل مکہ چاہیں پس اگلے سال آپ اسی طرح آئے تین دن تک ٹھہرے پھر مشرکین نے کہا اب آپ چلے جائیں چناچہ آپ وہاں سے واپس ہوئے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن اہل مکہ حائل ہوئے تو آپ نے ان سے یہ فیصلہ کیا کہ آپ صرف تین دن ہی مکہ میں ٹھہریں گے جب صلح نامہ لکھنے لگے تو لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی تو اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ کو ہم رسول اللہ ﷺ جانتے تو ہرگز نہ روکتے بلکہ آپ محمد بن عبداللہ لکھئے، آپ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ ہوں میں محمد بن عبداللہ ہوں پھر آپ نے حضرت علی بن ابو طالب سے فرمایا لفظ یا رسول اللہ کو مٹا دو۔ حضرت علی نے فرمایا نہیں نہیں قسم اللہ کی میں اسے ہرگز نہ مٹاؤں گا چناچہ آپ نے اس صلح نامہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باوجود اچھی طرح لکھنا نہ جاننے کے لکھا، کہ یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ﷺ یہ کہ مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہ ہوں گے صرف تلوار ہوگی اور وہ بھی میان میں اور یہ کہ اہل مکہ میں سے جو آپ کے ساتھ جانا چاہے گا اسے آپ اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور یہ کہ آپ کے ساتھیوں میں سے جو مکہ میں رہنے کے ارادے سے ٹھہر جانا چاہے گا آپ اسے روکیں گے نہیں پس جب آپ آئے اور وقت مقررہ گذر چکا تو مشرکین حضرت علی کے پاس آئے اور کہا آپ حضور ﷺ سے کہئے کہ اب وقت گذر چکا تشریف لے جائیں چناچہ آپ نے کوچ کردیا۔ حضرت حمزہ کی صاحبزادی چچا چچا کہہ کر آپ کے پیچھے ہو لیں حضرت علی نے انہیں لے لیا اور انگلی تھام کر حضرت فاطمہ کے پاس لے گئے اور فرمایا اپنے چچا کی لڑکی کو اچھی طرح رکھو حضرت زہرا نے بڑی خوشی سے بچی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اب حضرت علی اور حضرت زید اور حضرت جعفر میں جھگڑا ہونے لگا حضرت علی فرماتے تھے انہیں میں لے آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی صاحبزادی ہیں حضرت جعفر فرماتے تھے میری چچا زاد بہن ہے اور ان کی خالہ میرے گھر میں ہیں۔ حضرت زید فرماتے تھے میرے بھائی کی لڑکی ہے آنحضرت ﷺ نے اس جھگڑے کا فیصلہ یوں کیا کہ لڑکی کو تو ان کی خالہ کو سونپا اور فرمایا خالہ قائم مقام ماں کے ہے حضرت علی سے فرمایا تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔ حضرت جعفر سے فرمایا کہ تو خلق اور خلق میں مجھ سے پوری مشابہت رکھتا ہے۔ حضرت زید سے فرمایا تو ہمارا بھائی اور ہمارا مولیٰ ہے۔ حضرت علی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ حضرت حمزہ کی لڑکی سے نکاح کیوں نہ کرلیں ؟ آپ نے فرمایا وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہیں پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ جس خیر و مصلحت کو جانتا تھا اور جسے تم نہیں جانتے تھے اس بنا پر تمہیں اس سال مکہ میں نہ جانے دیا اور اگلے سال جانے دیا اور اس جانے سے پہلے ہی جس کا وعدہ خواب کی شکل میں رسول اللہ ﷺ سے ہوا تھا تمہیں فتح قریب عنایت فرمائی۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو تمہارے دشمنوں کے درمیان ہوئی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ مومنوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ اپنے رسول ﷺ کو ان دشمنوں پر اور تمام دشمنوں پر فتح دے گا اس نے آپ کو علم نافع اور عمل صالح کے ساتھ بھیجا ہے، شریعت میں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں علم اور عمل پس علم شرعی صحیح علم ہے اور عمل شرعی مقبولیت والا عمل ہے اس کے اخبار سچے، اس کے احکام سراسر عدل و حق والے۔ چاہتا یہ ہے کہ روئے زمین پر جتنے دین ہیں عربوں میں، عجمیوں میں، مسلمین میں، مشرکین میں، ان سب پر اس اپنے دین کو غالب اور ظاہر کرے اللہ کافی گواہ ہے اس بات پر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ہی آپ کا مددگار ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 28{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } ” وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر “ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی ﷺ کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوع انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے : ؎ نوعِ انساں را پیام آخریں حامل اُو رحمۃ ٌللعالمین ! اقبالؔمزید برآں ان کو سچا اور کامل دین بھی عطا فرمایا ہے ‘ جو عادلانہ نظام زندگی کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } ” تاکہ وہ غالب کر دے اسے ُ کل کے کل نظام زندگی پر۔ “ گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت 2 اور آیت 20 میں جس سیدھے راستے صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا کا ذکر ہے وہ راستہ ” اظہارِ دین حق “ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورة الشوریٰ کی آیت 13 میں اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَکے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو ! پھر سورة الشوریٰ کی آیت 21 میں جھوٹے معبودوں کے ابطال کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ” الدِّیْن “ نظامِ زندگی کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کے یہ الفاظ : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُط } ” کیا ان کے لیے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟ “ یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے ‘ تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے ؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ” اظہارِدین حق “ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول ﷺ کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ اس ” الدِّین “ کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } ” اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔ “ عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ” گواہ “ کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ” مددگار “ ہوگا۔ سورة البقرة کی آیت 23 میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے ‘ جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا : { وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ بلا لو اس کام کے لیے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا۔ ” شَھِدَ یَشْھَدُ “ کے معنی کسی موقع یا وقوعہ پر حاضر ہونے کے ہیں۔ ” گواہی “ کے معنی اس لفظ میں اسی حاضری کے مفہوم کی وجہ سے آئے ہیں ‘ کیونکہ کسی واقعے کی صحیح گواہی کا اہل تو وہی شخص ہوسکتا ہے جو وہاں اس وقت موقع پر حاضر ہو۔ جبکہ اسی ” حاضری “ کی وجہ سے اس لفظ میں ” مددگار “ کے معنی بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے آپ کی مدد وہی شخص کرسکے گا جو آپ کے ساتھ موجود ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جو آپ کا بہت اچھا دوست ہو ‘ آپ کے ساتھ مخلص بھی ہو ‘ مگر جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو اس وقت آپ کے پاس موجود ہی نہ ہو تو وہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ چناچہ سیاق وسباق کے اعتبار سے یہاں لفظ شھید کے معنی مددگار کے ہیں۔
هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله وكفى بالله شهيدا
سورة: الفتح - آية: ( 28 ) - جزء: ( 26 ) - صفحة: ( 514 )Surah fatah Ayat 28 meaning in urdu
وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور (وادی) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی
- پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے سوال (وجواب) کریں گے
- پھر قریب ہوئے اوراَور آگے بڑھے
- ان کا حال ان لوگوں کا سا ہے جو ان سے کچھ ہی پیشتر اپنے
- (موسیٰ نے) کہا یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ
- ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کر
- (ان کا حال یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں
- اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان (کے حال) سے خبردار کردیا تاکہ وہ
- اور ہم نے اس کو اسی طرح کا قرآن عربی نازل کیا ہے اور اس
- اور یہ جو یہودی ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات
Quran surahs in English :
Download surah fatah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah fatah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter fatah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers