Surah ahzab Ayat 59 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
[ الأحزاب: 59]
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جَلابِيبُ، جِلْبَابٌ کی جمع ہے، جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے۔ اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظر جھکا کر چلنے سے راستہ بھی نظر آتا جائے۔ پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں، عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے، پھربعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہ رہی جو عہد رسالت اور صحابہ و تابعین کے دور میں تھی، عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں، بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کاکوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہو جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ سادگی نہ رہی، اس کی جگہ تجمل اور زینت لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہو گئی، جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہو گئے۔ گو اس سے بعض دفعہ عورت کو، بالخصوص سخت گرمی میں، کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لئے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانپتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے، وہ یقیناً پردے کے حکم کو بجا لاتی ہے، کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لئے لازمی قرار دیا ہو۔ لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعے بنا لیا ہے۔ پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں۔ پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے، صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لئے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیوں کہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لی ہے، بےپردگی عام ہوگئی ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، بہرحال اس آیت میں نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علما کا ایجاد کردہ نہیں ہے، جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں، یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کی نص سے ثابت ہے، اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ وسیر اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
( 2 ) یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ چھاڑ کی جرات کسی کو نہیں ہوگی، اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی بوالہوسی کا نشانہ بنے گی۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہوجائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہوجائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیا کے اوپر ڈالتی ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ امام محمد بن سیرین ؒ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی ؒ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتادیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔ حضرت عکرمہ ؒ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں ؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں ؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہوجائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے، راندہ درگاہ ہوجائیں گے، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اگلی آیات میں پردے سے متعلق مزید احکام دیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ آیات میں اس حوالے سے ہم دو احکام پڑھ چکے ہیں۔ ان میں پہلا حکم یہ تھا کہ عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے ‘ وہ گھروں میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ دوسرا حکم مردوں اور عورتوں کے باہمی میل جول پر پابندی سے متعلق تھا کہ غیر محرم مردوں کو دوسروں کے گھروں میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اگر ضرورت کے تحت کسی مرد کو کسی غیر محرم خاتون سے کوئی بات کرنی ہو تو رُو در رُو نہیں ‘ بلکہ پردے کے پیچھے رہ کر بات کرے۔ اب اگلی آیت میں اس سلسلے کا تیسرا حکم دیا جا رہا ہے کہ مسلمان خواتین اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلیں تو کس انداز سے نکلیں۔آیت 59 { یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لّاَِِزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ } ” اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں ‘ اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ “ گویا اب اصلاحات کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ چناچہ اس حکم میں کاشانہ نبوت کی خواتین کے علاوہ عام مسلمان خواتین کو بھی شامل کرلیا گیا اور حضور ﷺ کی وساطت سے انہیں حکم دیا گیا : { یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ } ” وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔ “ اس حکم کے متوازی سورة النور کی آیت 31 کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ } ” اور وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر۔ “ سورة النور کے مطالعے کے دوران اس آیت کے حوالے سے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ اسلام سے قبل بھی عرب خواتین کے ہاں اوڑھنی اور چادر کے استعمال کا رواج تھا۔ اس حوالے سے ان کے ہاں ” اوڑھنی “ تو گویا لباس کا مستقل جزو تھا جسے خواتین گھر کے اندر بھی اوڑھے رکھتی تھیں جیسے کہ ہمارے ہاں بھی اکثر عورتیں دوپٹہ یا اوڑھنی ہر وقت اوڑھے رکھتی ہیں جبکہ خاندانی شریف خواتین گھر سے باہر جاتے ہوئے ایک بڑی سی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں۔ جتنے اونچے خاندان سے کسی خاتون کا تعلق ہوتا اسی قدر زیادہ احتیاط سے وہ چادر کا اہتمام کرتی تھی۔ البتہ عرب خواتین کے ہاں قبل از اسلام چہرہ ڈھانپنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ چناچہ اس حکم کے تحت خواتین کے چادر اوڑھنے کے مروّجہ طریقہ پر یہ اضافہ کیا گیا کہ خواتین گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر بھی ڈال لیا کریں ‘ یعنی گھونگھٹ لٹکا لیا کریں۔ اسی حکم کی بنا پر خواتین کے نقاب کرنے کا تصور پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ آج بھی ہمارے دیہات میں خواتین گھر سے باہر چادر سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر پختون کلچر میں زیادہ تر خواتین نقاب کا اہتمام کرتی ہیں یا بڑی سی چادر اس طرح لپیٹ لیتی ہیں کہ بس ایک آنکھ کھلی رہتی ہے۔ ایران کے دیہاتی ماحول میں بھی اس کا رواج دیکھا گیا ہے ‘ البتہ ایرانی شہروں میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ بلکہ وہاں اصولی طور پر گویا طے کرلیا گیا ہے کہ پردے کے حکم میں چہرہ شامل نہیں ہے ‘ حالانکہ یہ بات قرآن کی رو سے غلط ہے۔ چہرے کے پردے کے حوالے سے آیت 53 میں { فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍط } کے الفاظ خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں کہ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی پابندی کا آخر مقصد کیا ہے۔ کیا خدانخواستہ ازواجِ مطہرات رض گھر کے اندر اوڑھنی کے بغیر ہوا کرتی تھیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو پھر غیر محرم مردوں کو اس قدر اہتمام کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کا حکم آخرکیوں دیا گیا ہے ؟ بہر حال بلا تعصب غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس حکم کے ذریعے دراصل چہرے کے پردے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ کسی غیر محرم مرد کی نظر ان کے چہرے پر نہ پڑے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا ان کا پلو ّاپنے چہروں پر ڈال لیا کریں ‘ جسے عرف عام میں گھونگھٹ لٹکانا کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں ” جَلابیب “ کا لفظ آیا ہے جو ” جِلباب “ کی جمع ہے اور جِلباب کے معنی بڑی چادر کے ہیں۔ اس کے مقابل سورة النور کی آیت 31 میں لفظ خُمُر استعمال ہوا ہے ‘ جس کا واحد خمار ہے اور اس سے چھوٹی اوڑھنی مراد ہے ‘ جسے گھر کے اندر ہر وقت اوڑھا جاتا ہے۔ ” جِلباب “ کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے : ” ھو الرداء فوق الخمار “ یعنی جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ { ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ } ” یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچائی جائے۔ “ تاکہ دیکھنے والے خود بخود پہچان لیں کہ کوئی خاندانی شریف خاتون جا رہی ہے۔ عرب کے اس ماحول میں لونڈیاں بغیر چادر کے کھلے عام پھرتی تھیں۔ اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوں ‘ بلکہ اپنے چہروں پر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق یا منافق ان کو چھیڑنے کی جرات نہ کرے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ” اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “
ياأيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذلك أدنى أن يعرفن فلا يؤذين وكان الله غفورا رحيما
سورة: الأحزاب - آية: ( 59 ) - جزء: ( 22 ) - صفحة: ( 426 )Surah ahzab Ayat 59 meaning in urdu
اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
- بےشک پرہیزگار سایوں اور چشموں میں ہوں گے
- (یعنی آگ کے) لمبے لمبے ستونوں میں
- تمہارا پروردگار تم سے خوب واقف ہے۔ اگر چاہے تو تم پر رحم کرے یا
- جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے تو اس (کے بدلنے) کا گناہ
- اوراگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ اُن پر کھول دیں اور وہ اس میں چڑھنے
- اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم
- لیکن جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے ان کو
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- شراب لطیف کے جام کا ان میں دور چل رہا ہوگا
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers