Surah Al Hijr Ayat 88 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾
[ الحجر: 88]
اور ہم نے کفار کی کئی جماعتوں کو جو (فوائد دنیاوی سے) متمتع کیا ہے تم ان کی طرف (رغبت سے) آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا اور نہ ان کے حال پر تاسف کرنا اور مومنوں سے خاطر اور تواضع سے پیش آنا
Surah Al Hijr Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی ہم نے سورت فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں، اس لئے دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نہ نظر دوڑائیں جن کو دنیا فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں، اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں، یعنی ان کے لئے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں۔ اس محاورہ کی اصل یہ ہے کہ جب پرندہ اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کو اپنے بازوؤں یعنی پروں میں لے لیتا ہے۔ یوں یہ ترکیب نرمی، پیار و محبت کا رویہ اپنانے کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قرآن عظیم سبع مثانی اور ایک لازوال دولت اے نبی ﷺ ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لئے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ ہاں تجھے چاہئے کہ نرمی، خوش خلقی، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ01208 ) 9۔ التوبة:128) لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آگئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کا دل سے خواہاں ہے جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے۔ سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتدا کی سات لمبی سورتیں ہیں سورة بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس۔ اس لئے کہ ان سورتوں میں فرائض کا، حدود کا، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں۔ بعض نے سورة اعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے۔ ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ صرف حضرت موسیٰ ؑ کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں۔ ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں۔ حکم، منع، بشارت، ڈر اور مثالیں، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورة فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سات آیتیں ( بسم اللہ الرحمن الرحیم سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو۔ امام ابن جریر ؓ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورة فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں فالحمد للہ۔ امام بخاری ؒ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں۔ ایک میں ہے حضرت ابو سعید بن معلی ؓ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو آنحضرت ﷺ آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ کے پاس نہ آیا نماز ختم کر کے پہنچا تو آپ نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میں نماز میں تھا۔ آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24 ) 8۔ الأنفال:24) یعنی ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا۔ تھوڑی دیر میں جب حضور ﷺ تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورة آیت ( الحمد للہ رب العالمین ) کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں۔ دوسری میں آپ کا فرمان ہے کہ ام القرآن یعنی سورة فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورة فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں۔ جیسے فرمان الٰہی ہے آیت ( اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متثابھا مثانی ) پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے۔ اور متشابہ بھی۔ پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشابہ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ سے سوال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ہے وہ کون ہے ؟ تو آپ نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قبا کے بارے میں اتری ہے۔ پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو۔ واللہ اعلم۔ پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بےنیاز رہنا چاہئے اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عینیہ ؒ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بےپرواہ نہ ہوجائے وہ مسلمان نہیں۔ گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کردیا ہے ابن ابی حاتم میں ہے حضور ﷺ کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رھن رکھے میں نہیں دوں گا اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کردیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا پس آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88 ) 15۔ الحجر:88) نازل ہوئی اور گویا آپ کی دل جوئی کی گئی۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے۔ یہ جو فرمایا کہ ان کی جما عتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 88 لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ ابوجہل کی دولت و شوکت ‘ ولید بن مغیرہ کے باغات اور ان جیسے دوسرے کافروں کی جاگیریں آپ کو ہرگز متاثر نہ کریں۔ آپ ان کی ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دنیا و ما فیہا کی حیثیت اللہ کی نگاہ میں مچھر کے ایک پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی تک نہ دیتا۔ چناچہ ان کفار کو جو مال و متاع اس دنیا میں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔ اہل ایمان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مال و دولت دنیا کو اسی نظر سے دیکھیں۔ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ یہ لوگ آپ کی دعوت کو ٹھکرا کر عذاب کے مستحق ہو رہے ہیں۔ ان میں آپ کے قبیلے کے افراد بھی شامل ہیں اور ابو لہب جیسے عزیز و اقارب بھی ‘ مگر آپ اب ان لوگوں کے انجام کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اہل ایمان کے ساتھ آپ شفقت اور مہربانی سے پیش آئیں۔ ان لوگوں میں فقراء و مساکین بھی ہیں اور غلام بھی۔ یہ لوگ جب آپ کے پاس حاضر ہوں تو کمال تواضع سے ان کا استقبال کیجیے اور ان کی دلجوئی فرمائیے۔ اس سے قبل یہی بات اس انداز میں بیان فرمائی گئی ہے : فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ الانعام : 54۔ سورة الشعراء میں بھی اس مضمون کو ان الفاظ میں دہرایا گیا ہے : وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ کہ اہل ایمان جو آپ کی پیروی کر رہے ہیں آپ اپنے کندھے ان کے لیے جھکا کر رکھیے۔ سورة بنی اسرائیل میں والدین کے ادب و احترام کے سلسلے میں بھی یہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ ادب محبت عاجزی اور انکساری کا معاملہ کرے۔
لا تمدن عينيك إلى ما متعنا به أزواجا منهم ولا تحزن عليهم واخفض جناحك للمؤمنين
سورة: الحجر - آية: ( 88 ) - جزء: ( 14 ) - صفحة: ( 266 )Surah Al Hijr Ayat 88 meaning in urdu
تم اُس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے، اور نہ اِن کے حال پر اپنا دل کڑھاؤ انہیں چھوڑ کر ایمان لانے والوں کی طرف جھکو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- (یہ بات) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں
- اے پروردگار مجھے (اولاد) عطا فرما (جو) سعادت مندوں میں سے (ہو)
- قریب ہے کہ آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے پروردگار کی تعریف کے
- اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو
- تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
- اور جو شخص حد سے نکل جائے اور اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان نہ
- ان سے پہلے نوحؑ کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی تو انہوں نے ہمارے
- (کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی
- جو خوض (باطل) میں پڑے کھیل رہے ہیں
- اور تم اس وقت کی (حالت کو) دیکھا کرتے ہو
Quran surahs in English :
Download surah Al Hijr with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hijr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hijr Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers